مغربی بنگال کے مسلمانوں کے مسائل اور حکومت کی بے توجہی و بے اعتنائی

0
794
File Photo
File Photo
All kind of website designing

’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘
عبدالعزیز

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بنگال کے مسلمان اپنی کم مائیگی کی وجہ سے مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ کسی سرکار نے ان کے تعلیمی اور معاشی مسائل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ہر حکومت میں جو نام کے مسلم نمائندے تھے وہ گونگے اور بہرے ہی رہے ۔ سابقہ حکومت میں تو کم سے کم وزیر اعلیٰ سے مسلم نمائندے نام کے سہی، مگر مسلم تنظیموں کے سربراہوں کو ملا قات کراتے تھے ۔ کچھ کام بھی ہوجاتا تھا، جیسے ملی الامین گرلز کا لج کا کام نہیں کیا، مگر جب مرکزی تعلیمی کمیشن نے کام کردیا تو حکومت نے سر تسلیم خم کر دیا۔ موجودہ حکومت نے اسے اقلیتی کردار سے ٹیچر انچارج بیساکھی بنرجی کی خوشنودی کیلئے محروم کر دیا۔ بڑی مشکل سے بیساکھی کے بی جے پی میں جانے پر ملت کی ہر ممکن کوششوں سے سدھار آیا۔ انتظامیہ کو عدالت عظمیٰ کا دروازہ تک کھٹکھٹانا پڑا۔ آج بھی مقدمہ عدالت میں ہے۔ یونانی میڈیکل کالج کا سارا کام پچھلی حکومت نے کر دیا۔ دس فیصد کام رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے ادارے کی تمام کوششوں کے باوجود دس سال میں بھی کچھ بھی نہیں کیا۔ اس طرح دس پندرہ مسائل ہیں۔ خاکسار دس سال سے کوشش کر رہا ہے۔ سر راہ ایک دو دفعہ محترمہ ممتا بنرجی سے سرسری طور پر بات بھی ہوئی۔ دسیوں مرتبہ خط اور عرضداشت بھی بھیجا۔ ان کے ایک ایم پی سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں دیجیے عرضداشت، ہم بات کریں گے۔ دے بھی دیا دو چار ماہ بعد پوچھا تو کہا شیرنی سے بات کون کرے۔ اب الیکشن قریب ہے تو ممتا بنرجی کے مشیر خاص پرشانت کشور سے سب کچھ کہہ کر عرضداشت دی ہے۔ مگر دس پندرہ دن ہوگئے وہ بھی کچھ کرنے کرانے سے قاصر رہے، حالانکہ پروفیسر سوگت رائے سے تین قومی سطح کی جماعتوں کے نمائندوں سے انہوں نے کہا کہ آپ نے پرشانت کشور کو دیا ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ سے روز ملتے ہیں۔ صحیح جگہ دیا ان کو دے کر کہا گیا کہ آپ کم سے کم کچھ کام انتخاب کی تاریخوں کے اعلان سے پہلے کرائیں اور نہ کرا سکیں تو مسلم نمائندوں سے روبرو بات کرائیے۔ ان کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں ملا ہے۔ اب سوچا جارہا ہے کہ کیا پریس کے ذریعے ممتا بنرجی کی اقلیت نواز ی پر جو پردہ ہے۔ اس کو اٹھا نا آج کی صورت حال میں مناسب ہوگا یا نہیں۔ میری ذاتی رائے میں جمہوریت میں حکومت کو آئینہ دکھانا غلط نہیں بلکہ ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی زبوں حالی اور پستی کو دیکھ کربہت پہلے کہا تھا ؎
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے… ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اندھی، ظالم اور غیر محدود طاقت ہمیشہ خطرناک نتائج کو جنم دے کر ان کی معاشرت اور اخلاقی ضوابط کا نظام درہم برہم کردیتی ہے۔ نیک ارفع اور انسانیت ساز کاموں کیلئے طاقت کا حصول درست ہے، مگر فساد عالم، انسان کشی اور اخلاقی گراوٹ کو پیدا کرنے والی طاقت کو کسی طرح بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جرمن فلسفی نطشے (1844-1900ء) کے برعکس علامہ اقبالؒ جلال و جمال یعنی طاقت اور اخلاقیات کے حسین اور متوازن امتزاج کے قائل تھے۔ وہ انسانوں کیلئے کسی قسم کی ضعیفی کو مستحسن خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ یہ انسانی خودی کے استحکام کی راہ میں سنگ گراں ثابت ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں کمزوری ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا عموماً مرگ صفاجات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس موضوع کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے نظریات کا خلاصہ یہاں پیش کیا جائے گا۔ تاریخ انسانیت اس بات کو گواہی پیش کرتی ہے کہ جب بھی کسی قسم نے خدائی نظام حیات اور وحی پر مبنی اخلاقی اصولوں اور حدود کی خلاف کی تو اسے زود یا بدیر قدرت کی طرف سے سزا دی گئی۔ قوم نوحؑ، عادؑ، ثمودؑ، قوم لوطؑ اور بنی اسرائیل وغیرہ کے حالات اس جرم کی پاداش میں گرفتار عذاب ہوئے۔ جب بھی کوئی قوم قدرت کے ابدی اصولوں کو پامال کرے گی اسے بالفور مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسان کو خدا نے عقل و شعور کی نعمت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے صراط مستقیم کی بھی نشاندہی کی ہے، تاکہ وہ صحیح معنوں میں یہاں نائب حق اور اشرف المخلوقات کا فریضہ سرانجام دے اور اس جہان کو گہوارہ امن و راحت بنادے۔ اگر وہ اپنے اس مقام رفیع سے گر کر حیوانیت کی سطح تک پہنچ جائے تو پھر وہ اپنی کوتاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ اس کی یہ عظیم ترین کمزوری اس کی غلامی، پستی، جہالت، پسماندگی، جگ ہنسائی اور رسوائی کا سبب بن جائے گی۔ ظاہری طور پر تو وہ زندہ دکھائی دے گا مگر اپنے روحانی ضعف اور اخلاقی ضعیفی کی بنا پر اسے مردہ تصور کیا جائے گا اس کے خبث باطن اور روحانی کثافت سے دوسرے انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یاد رہے کہ فرد کی طرح کوئی قوم بھی اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہوکر اپنی مرگ مفاجات کا خود سامان پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔
علامہ اقبالؒ کے نظریہ طاقت کا اخلاقی ضوابط اور انسانیت پرور اصولوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لئے انہوں نے جلال و جمال کو ہم آہنگ کرکے یہ واضح کیا ہے کہ جس طرح اخلاقی نظام کے قیام کیلئے جلال یعنی طاقت کا ہونا لازمی ہے، اس طرح طاقت کو اخلاقی حدود و قیود کے اندر رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ وہ اپنی ایک نظم ’’قوت اور دین‘‘ میں طاقت اور اخلاقیات کا امتزاج اور ان کی علیحدگی کے موضوع پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں ؎
اسکندر و چینگ کے ہاتھوں سے جہاں میں… سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے … صاحب نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہریلا ہل سے بھی بڑھ کر… ہودیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
علامہ اقبالؒ کے فلسفہ طاقت و ضعف سے آگاہ ہونے کیلئے اس کے معاشرتی اور سیاسی پس منظر کو مختصراً بیان کرنا ضروری ہے۔ وہ جس دور میں پیدا ہوئے وہ نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کیلئے بھی انحطاط، پستی، زبوں حالی، نکبت و ادباز، قنوطیت، تقدیر پرستی، بے عملی، فکری جمود اور غلامی کا آئینہ دار تھا۔ اغیار کی حکمرانی نے انہیں زندگی کے ہر ایک اہم شعبے میں پسماندہ اور مجبور و مقہور بناکر رکھ دیا تھا۔ قناعت پسندی اور غیر اسلامی تصور اور فقدان خودی نے انہیں زندگی کے معاملات سے لاتعلق کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مصائب و مسائل کی دلدل میں بری طرح پھنس کر رہ گئے تھے۔ مسلمانوں کی اس ہم گیر ابتری اور کمزوری کو دور کرنے کیلئے علامہ اقبال نے انہیں عمل، ترقی، جفاکشی، حصول علم، حصول طاقت اور خودی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کا عزم کرلیا۔ اس دور زوال میں فلسفہ طاقت و رجائیت پیش کرنا ہی دور اندیشی اور حکمت بالغہ کا تقاضا تھا۔ اپنی شاعری کو انہوں نے اپنے ولولہ خیز پیغام حیات اور انقلاب آفرین تعلیمات کا ذریعہ بنایا، تاکہ وہ اپنی محکوم اور پسماندہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرسکیں۔ انہوں نے ان کے صنعف خودی اور دیگر کمزوریوں کی نشاندہی کرکے انہیں خودی اور طاقت کی اہمیت سے آگاہ کیا، حکیم الامت اور نباض ملت کی حیثیت سے انہوں نے ملت اسلامیہ کے تمام اہم امراض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ اس کیلئے علاج شافی بھی تجویز کیا۔ بلاشبہ یہ ان کا بہت عظیم اور کٹھن کارنامہ تھا جسے انہوں نے بتوفیق ایزدی سرانجام دیا۔ علامہ اقبالؒ نے جب اپنے زمانے کے مسلمانوں کی غلامی، بے چارگی، مایوسی، بے عملی، تقدیر پرستی، خوف کی فضا، جہالت، اخلاقی گراوٹ، اقتصادی بدحالی اور سیاسی ابتری پر غور و فکر کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ سب بیماریاں دراصل کمزوری یعنی ضعف خودی کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کی خودی کو بیدار کرنے کیلئے اپنی مشہور کتاب ’’اسرار خودی‘‘ لکھی۔ ان تمام امراض کی تشخیص کرتے ہوئے انہوں نے درست کہا تھا ؎
’صد مرض پیدا شد از بے طاقتی ‘بے طاقتی کی وجہ سے یہ ساری بیماری پیدا ہوئی ہیں
چنانچہ انہوں نے اس بے طاقتی کو دور کرنے کیلئے مختلف عنوانات، اسرار خودی، کے تحت اپنے خودی ساز افکار و احساسات کا اظہار کیا اور خودی کے استحکام کے اسباب پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی جن کا خلاصہ یہ ہے:
1) کمزور نظریہ حیات، کمزور نظام معاشرت و ضابطہ اخلاق کی بنیاد بنتا ہے، جس پر چل کر افراد ملت کمزور شخصیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔2) کمزور شخصیت والے انسان جفاکشی، عمل مسلسل، بلند ہمتی، احساس خود داری، آرزوئے ترقی، آزادی کی تڑپ، تسخیر فطرت اور رجائیت کی صفات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ 3) کمزور افراد کے مجموعہ سے ترتیب پانے والی قوم بھی لازماً کمزور ہی ہوتی ہے۔4) غربت اور امتیاج ایسے انسانوں سے شیروں کی صفات چھین کر انہیں روباہ صفت بنادیتی ہیں، بقول اقبالؒ ؎
آنچہ شیراں را کند رویاہ مزاج … امتیاج است، امتیاج است، امتیاج
کیا موجودہ حالات میں اسلامیان عالم کم و بیش دوسروں کے دست نگر اور ان کے استحصال کا نشانہ بنے ہوئے نظر نہیں آتے؟ مفکر اسلام نے اس گہری حقیقت کو ایک ہی مصرعے میں یوں سمو دیا ہے۔
ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش
یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ کمزور انسان اور ضعیف اقوام برہ معصوم بنے رہتے ہیں اور طاقتور لوگ بھیڑیے کی طرح ہمیشہ ان کو ذبح کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ کمزور بھیڑوں کی کثرت سے شیر اور بھیڑیا کبھی خائف نہیں ہوتے۔
مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے انہیں یہ حقیقت ثابتہ سمجھانے کی سعی کی ہے کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے اور اپنی ذات کو مستحکم کرکے ہمیں زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ملت اسلامیہ کے ضعف ہمہ گر کو دور کرنے کیلئے علامہ اقبال نے ہمیں جہد مسلسل، استحکام خودی، عرفان ذرت، آزادی خواہی، حصول علم، محبت اسلام، اطاعت خدا وندی، عشق رسولؐ اور نیابت الٰہی کی صفات اختیار کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے اپنی نظم ’’ابوالعلا مصری‘‘ میں یہ بجا فرمایاہے ؎
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے …ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
یہ ہے اصل کہانی جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی۔ جتنا کوئی زمین کے قریب ہوگا اسی قدر پستی میں ہوگا۔ جس قدر کوئی آسمان کے نزدیک ہوگا اسی قدر بلندی میں ہوگا۔ آپ دیکھ لیں، حشرات الارض زمین میں دھنس کررہتے ہیںاور ہمیشہ پیروں تلے پامال ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس پرندے فضائوں میں بلند پرواز ہیں اور ہم سب کے سروں پر اْڑتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں، کجھور کا درخت بلند ہے تو اس کا پھل توانائی میں سب سے بڑھ کر ہے اور گاجر مولی زمین کے اندر دھنس کر اْگتے ہیں تو ان میں توانائی بھی کم ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل نے آسمانوں سے اترے ہوئے من و سلویٰ کو ٹھکرا کر آلو پیاز اور ککڑیاں طلب کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کیا،
’’اے موسیٰ! ان سے کہو!…کہ کیا تم اس کی طلب کرتے ہو جو ادنیٰ ہے ، اْس کے مقابلے میں جو اعلیٰ ہے؟‘‘ …اسے کہتے ہیں ارتھ روٹڈنیس۔ یا علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں زمینی پیوستگی کا نظریہ ،وہ جو زمین میں دھنس گئے ، وہ پامال ہوگئے ، فنا ہوگئے، ختم ہوگئے، نابود ہوگئے، معدوم ہوگئے، مفقود ہوگئے اور یہی ہوتی ہے …مرگِ مفاجات۔
رینگو! …رینگو!…زمین کی خاک پر رینگنے والے کیڑو! اسی طرح رینگتے رہو!۔ ایک چیونٹی جو اپنے پیٹ کیلئے صرف مال جمع کرنے پر تفویض ہوتی ہے، آخر کو کہلاتی تو چیونٹی ہی ہے نا۔ اقبال کی شاعری میں ایک مرتبہ ایک چیونٹی نے عقاب سے سوال کیا :
میں پائمال و خوار و زبوں حال و درد مند … تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند
تو عقاب نے جواب میں کہا،
تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں…میں نو سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں
صدرِ عالیجا! اقبال نے یہ ہماری قوم کے لیے ہی فرمایا تھا،
جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب … دلِ نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک
علم میں ضعیف ، حلم میں ضعیف، اخلاق میں ضعیف ، اوصاف میں ضعیف، حکومت میں ضعیف ، دولت میں ضعیف ، عزت میں ضعیف ، شہرت میں ضعیف ، ہم مرگِ مفاجات کا اگلا شکار ہیںعزیزانِ من!لیکن… اس مرگِ ناگہانی کے اسباب پر غور کریں تو سو باتوں کی ایک ہی بات …
’’ اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر‘‘ کتنی سچی بات کہا کرتے تھے مولانا ابو الکلام آزاد…!!!
’’ہمیں وہ اسلام نہیںچاہیے ، جو شادی کے وقت خطبہ نکاح اور موت کے وقت یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرے‘‘۔
ہم نے مغرب کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو چبانا اپنا فیشن بنالیا ہے۔ بھکاریوں سے بدتر، فقیروں سے کم تر، مغربی ممالک کے ائیر پورٹوں پر ہمارے جوتے تک اتروالیے جاتے ہیں۔ ہمارے قیدیوں کو وہاں ننگا کر کے لے جایا جاتا ہے۔ آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ’’سبز پاسپورٹ‘‘ آج کی دنیا میں ایک لعنت سمجھا جاتا ہے۔ ایک لعنت …
ایسی قوموں کیلئے قرآن کہتا ہے :فَخَسَفنَا…اور ہم نے انہیں زمین میں دھنسا دیا۔
اس سے پہلے کہ ہم بھی زمین میں دھنس جائیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہمیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس حاصل کرنا ہوگی۔ وہی طنطنہ ، وہی جوش، وہی ولولہ، وہی طاقت ، وہی بصیرت ، وہی حکمت، وہی توانائی…وہی سب کچھ واپس لانا ہوگا۔ سب کا سب۔غالباً مولانا ظفرعلی خان نے کہا تھا،

مسلماں آج بھی گر عامل قرآن ہوجائے… اگر بیدار اس کا جذبہ ایمان ہوجائے

تو ہر مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجائے…یہ ہندوستان کیا، کل سارا جہان ہوجائے, اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اخلاقی طاقت ہم پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ جنھیں ہم اپنی رائے سے حکمراں بناتے ہیں ضرورت ہے کہ ہم ان سے حساب لیں۔ ہر حکمراں عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ اگر ہم حکمراں کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی پوزیشن میں ہوجائیں تو ہماری وقعت اور ہمارے وزن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور آج جو بے چارگی اور مجبوری ہمارے اندر پائی جاتی ہے وہ ختم ہوسکے۔
[email protected]  

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here