ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال: اگر ایک گھر میں کئی صاحبِ نصاب افراد ہوں، مثلاً شوہر بھی صاحب نصاب ہو، بیوی کے پاس اتنے زیورات ہوں جو نصاب تک پہنچتے ہیں، ان کے بیٹے بھی ملازمت یا تجارت کی وجہ سے اتنا کما رہے ہوں کہ وہ صاحب نصاب ہوں، اگرچہ ان کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اور وہ والدین کے ساتھ رہتے ہوں۔ تو کیا ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے یا گھر میں صرف ایک قربانی کافی ہے؟
جواب: قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ واجب ہے۔ دیگر فقہاء میں ربیعہؒ، لیثؒ، اوزاعیؒ، ثوریؒ اور ایک قول کے مطابق امام مالکؒ کی بھی یہی رائے ہے ۔ ان کا استدلال قرآن کریم کی اس آیت سے ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر: ۲)
’’پس اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں قربانی کا حکم مطلق ہے اور مطلق حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے اور آپؐ کی تبعیت میں امت بھی اس کی مخاطب ہے۔ اس کے علاوہ یہ حضرات کچھ احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ وجوب ہر اس شخص پر ہے جس میں وجوب کی شرائط پائی جائیں۔ بہ الفاظ دیگر ایک قربانی ایک ہی شخص کے لیے کفایت کرے گی۔
امام شافعیؒ اور امام احمدؒ (اور ایک قول کے مطابق امام مالکؒ اورمعروف حنفی فقیہ قاضی ابو یوسفؒ) اسے سنت موکدہ قرار دیتے ہیں۔ صحابہ اور تابعین میں سے ابوبکر، عمر، بلال، ابو مسعود البدری، سوید بن غفلہ، سعید بن
المسیب، عطا، علقمہ، اسود، اسحاق، ابو ثور اور ابن المنذر رضی اللہ عنہم کی بھی یہی رائے ہے۔
یہ حضرات دلیل میں اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
اِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَ اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ یُّضَحِیَّ فَلاَ یَمُسَّ مِنْ شَعَرِہٖ وَ بَشَرِہٖ شَیْئًا ۔ (مسلم:1977)
’’جب ذی الحجہ کے مہینے کا آغاز ہوجائے اور تم میں سے کسی شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال نہ بنوائے اور ناخن نہ تراشے۔‘‘
اس حدیث کا انداز بتاتا ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ اگر یہ واجب ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس طرح نہ فرماتے ’’اور تم میں سے کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو ۔۔۔‘‘
بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سال، دو سال قربانی نہیں کرتے تھے۔ (بیہقی :265/9) اگر قربانی واجب ہوتی تو یہ حضرات کسی سال ناغہ نہ کرتے۔
جو فقہا قربانی کو سنت قرار دیتے ہیں، ان کے درمیان اس معاملے میں اختلاف ہے کہ کیا قربانی ہر شخص کے لیے سنت ہے یا ایک گھر کے لوگوں کے لیے ایک ہی قربانی کفایت کرتی ہے؟
قاضی ابو یوسفؒ کے نزدیک قربانی ’سنت عین‘ ہے، یعنی یہ ہر شخص کے لیے سنت ہے۔
امام مالکؒ کے نزدیک یہ حکماً سنت عین ہے، یعنی اس کا مطالبہ تو ہر شخص سے ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنی قربانی میں اپنے والدین اور بچوں کی طرف سے بھی نیت کرلے تو ان کی طرف سے بھی قربانی ادا ہوجائے گی اور وہ ثواب میں شریک ہوجائیں گے۔
امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک قربانی سنتِ کفایہ ہے۔ یعنی اگر ایک گھر کا ذمے دار قربانی کرے تو گھر کے تمام افراد کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی۔ ایک گھر میں وہ تمام افراد شامل ہیں جن کا نفقہ کسی ایک شخص کے ذمّے ہو۔
یہ حضرات دلیل میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا قول پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک موقعے پر فرمایا:
کُنَّا نُضَحِّی بِالشَّاۃِ الْوَاحِدَۃِ یَذْبَحُھَا الرَّجُلُ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ، ثُمَّ تَبَاھَی النَّاسُ بَعْدُ، فَصَارَتْ مُبَاھَاۃً ۔(ترمذی :1505 ،موطا مالک:2031)
’’ہم ایک بکری ذبح کرتے تھے۔ یہ قربانی آدمی اور اس کے گھر والوں، سب کی طرف سے کفایت کرتی تھی۔ بعد میں لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے زیادہ قربانی کرنے لگے اور یہ چیز فخر و مباہات کا ذریعہ بن گئی۔‘‘
حضرت ابو ایوبؓ کا یہ اندازِ بیان اسے حدیثِ مرفوع کا درجہ دے دیتا ہے۔ یعنی اس عمل کو رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل تھی۔
( تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے :الموسوعۃ الفقہیۃ کویت :76/5_78)، [ زندگی کے عام فقہی مسائل ، جلد سوم ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں