فتین، فتنہ اور فتنہ سازی کا کاروبار

0
1391
All kind of website designing

#جمعیۃ علما ضلع سہارنپور پر مالی فراڈ کا الزام، دیوبند میںلاک ڈاؤن کی کہانی !

بے باک و حوصلہ مند خامہ بردار سمیع اللہ خان کی تفتیشی رپورٹ

لاکڈاؤن میں طلباء مدارس کے لیے سید ذہین احمد، محمود الرحمٰن قاسمی اور جمعیۃ محمود مدنی کی خدمات کا تفتیشی جائزہ :

گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش میں ہےکہ دیوبند میں مقیم طلباء مدارس کولاک ڈاؤن کے دوران گھر بھیجوانے کے لیے جو نظم کیا گیا تھا، اس میں طلباء سے فراڈ کرتے ہوئے اضافی رقم لی گئی، یہ الزام وائرل ہوتے ہوتے اتنا ہوا کہ بیرون ملک سے بھی کئی لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کیا واقعی مولانا محمود مدنی کی جمعیت اتنی زیادہ سطحی ہوچکی ہے کہ کورونالاک ڈاؤن کے نازک حالات میں بھی یہ لوگ طلباء کو لوٹ رہے ہیں اور ان سے کما رہے ہیں؟ دوسری طرف کچھ لوگوں نے مجھے اس لیے فون کیا کہ میں بس اس ایک الزام کو سن کر تسلیم کرلوں اور جمعیۃ اور اس کے افراد کے خلاف لکھ دوں، جن لوگوں نے مجھ سے اس غرض سے رابطہ کیا ،مجھے ان پر سخت افسوس ہوا کہ وہ ایسا کیسے سمجھ سکتےہیں کہ میں بلا تحقیق صرف سنی سنائی، سوشل میڈیا خبرو(پروپیگنڈوں) کی بنیاد پر میںمولانا محمود مدنی صاحب یا ان کی جمعیۃ کی مخالفت کرونگا۔
جن لوگوں نے ایسی رائے قایم کی تھی شاید ان کی نظر میں صرف اتنی بات ہے کہ میں نے مولانا محمود مدنی کی مخالفت کی تھی ان کے کشمیر اور این آر سی والے موقف پر، اس لیے میں ہمیشہ ان کی مخالفت ہی کروں گا، ایسے لوگوں کو ذرا پیچھے جاکر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جب قاری عثمان منصورپوری،مولانا محمود مدنی اور ان کی جمعیۃ کے وفد نے وزیراعظم نریندرمودی سے کھلی ملاقات کی تھی اور لوگ اس ملاقات کو سودے بازی سے تعبیر کررہےتھے ،تب ہم نے اس ملاقات کو ایک مثبت اور تعمیری پہل قرار دیتے ہوئے اس کی تائید کی تھی، کیونکہ جمہوری ممالک میں کمیونٹی کے ذمہ داران اگر حکم رانوں سے مذاکرات اور مسائل کے حل کی خاطر کھلی ملاقاتیں نہ کریں ،تو کیا ختم خواجگان کیا کریں؟ حکم رانوں سے ملاقات کرنا معیوب نہیں ہے ،بلکہ ڈھکی چھپی مشکوک ملاقاتیں مسترد کی جاتی ہیں۔ یہ جان لینا چاہیے اچھے سے کہ ہمارے یہاں اختلاف اور مخالفت کا معیار شخصیت، ادارہ یا جماعتی زاویہ نہیں بلکہ پالیسی، نظریہ، فکر اور نفسِ مسئلہ ہوتاہے۔
بہرحال ہم نے اس الزام کی تحقیق شروع کی تو معاملہ اس جھوٹی خبر(پرپیگنڈہ)کے برعکس اور الزام بے بنیاد معلوم ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم نے ان بسوں کے ذریعے دیوبند سے بہار کا سفر کرنے والے طلباء مدارس کے ذمہ داران سے بات کی: دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاذ مفتی اشرف عباس قاسمی سے میں نے بات کی، جومہتمم دارالعلوم کی جانب سے طلباء بہار کو گھر پہنچانے کے ذمہ دار بھی تھے۔ ہم نے ان سے اس الزام کےمتعلق دریافت کیا تو انہوں نے ہمیں صورتحال اور اس کی نزاکت کو تفصیل سے بتایا انہوں نے کہا کہ: طلباء کو گھر پہنچانے کے لیے بہت کوششیں ہوئیں ،اعلیٰ سطح سے بھی کوششیں ہوئیں، لیکن افسران سمیت اکثر نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ پرمیشن نہیں مل سکتی دوسری طرف طلباء مسلسل پریشان تھے اور ڈر تھا کہ کہیں کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں کہ جس سے مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے اور مدارس کو میلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو تالیاں پیٹنے کا موقع مل جائے، مہتمم صاحب مسلسل کوشاں تھے کہ کسی طرح انہیں بھیجا جائے، لیکن افسران کی ایک ہی رَٹ تھی کہ ہم یہاں سے جانے نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ ہاٹ اسپاٹ ہے، پھر ذہین صاحب سے بات ہوئی جو وہاں کی مقامی جمعیت کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کچھ ترتیب بنائی اور کچھ راہیں نکالیں۔ پھر یہ ہوا کہ اب طلباء جا سکیں گے اور عید سے پہلے پہلے اپنے گھر پہنچ جائیں گے، پھر ان لوگو نے (ذہین صاحب اور ان کی ٹیم) بہت زیادہ محنت کی اور بسوں کے انتظام کو یقینی بنایا، اب بات کرائے کی آئی، تو کرایہ ۳۵۰۰ روپے طے ہوا، لیکن ہم نے تخفیف کی درخواست کی تو ذہین صاحب نے ۵۰۰ روپے اس میں بھی کم کروائے ،یوں ۳ ہزار فی سواری کرایہ طے ہوا، جو طلباء مکمل ادا کرسکتے تھے انہوں نے مکمل ادا کیے اور جو نصف یا کچھ ہی دے سکتےتھے ،انہوں نے اپنی استطاعت کے بقدر ادا کیا، بقیہ جو رہ گئے ان کے تمام خرچ حضرت مہتممِ دارالعلوم نے اپنی جیب خاص سے اور کچھ دارالعلوم نے ادا کیا۔ ذہین صاحب اور ان کی ٹیم نے رات رات بھر جاگ کر طلبا کو بحفاظت گھر پہنچانے کے لیے کوششیں کیں اور ایسی ترتیب بنائی کہ طلبا کو راستے میں کہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی اور وہ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے، بس والے نے جو کرایہ لیا وہ حالات کی نزاکتوں کے ساتھ تھا، ہوسکتاہے ذہین صاحب سے ذاتی طورپر کسی کو کوئی اختلاف ہو، لیکن اس معاملےمیں کرایے کو لے کر انہیں مطعون کرنا صحیح نہیں ہے ‘‘۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے ذمہ دار ڈاکٹر شکیب قاسمی نے ہمیں بتایاکہ: بچے تو گئے ہیں، لیکن انہوں (ذہین صاحب اور بسوں کا انتظام کرنے والوں) نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اتنا خرچ آئےگا اور انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جو جانا چاہے وہ جائے، اس کے علاوہ بنیادی بات یہ بھی ہےکہ دارالعلوم ہو یا ہمارا ادارہ یا کسی بھی ادارے نے طلباء سے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ کو جانا ہی ہے ۔وہ تو یہاں رہ رہےتھے ۔یہ تقاضا تو خود طلباء کی طرف سے آیا تھا کہ ہمیں جانا ہے، لیکن جانے کی کوئی صورت بن نہیں پا رہی تھی، انہوں نے ایک نظام بنایا اور اخراجات کی تفصیل بھی شروع میں ہی بتادی۔اس کے علاوہ جمعیۃ علما ضلع سہارنپور نے اس عرصے میں یہاں بڑا کام کیا ہے، جیسے دارالعلوم اور دارالعلوم وقف جیسے بڑے ادارے تو اپنا نظام خود چلا رہےتھے ،لیکن ان کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد چھوٹے اور درمیانے مدارس کے طلبا کی تھی، جن کے طعام وغیرہ کا نظم انہی لوگوں نے کیا، اس دوران ان لوگوں نے بڑی جانفشانی سے کام کیا ہے، جس کا اعتراف ہوناچاہئے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ بڑی محنت سے کام کیا ہے اور سوچنے کی بات ہے آدمی کوئی بھی رفاہی کام ایک دن کرتاہے دو چار دن کرتاہے، لیکن یہ لوگ اتنے سارے لوگوں کے لیےلاک ڈاؤن کے مکمل عرصہ میں نظم کرتے رہے۔
دراصل سوشل میڈیا ہے ہی اسی کام کے لیے کہ جس کےمتعلق جو چاہا لکھ دیا اور بدگمانی پھیلادی اور مزاج چونکہ Negativity کا ہے ۔اس لیے ایسی خبریں تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔جبکہ دیوبند کی حد تک میں خود شاہد ہوں کہ جمعیۃ علماء ضلع سہارنپور (ذہین احمد اور محمود الرحمن) کی ٹیم نے بہت کام کیا ہے،نہ صرف طلباء مدارس بلکہ شہر والوں کے لیے بھی دونوں وقت کے کھانے کا نظم کیا اور خیال رکھا ہے‘‘۔ _
اس کے بعد ہم نے بس چلانے اور فراہم کرنے والے شخص سے بات کی جن کا نام حارث ہے، ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے فی سواری کتنا کرایہ لیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے ۳ ہزار روپے لیے ہیں اور پہلے بتا کر لیے ہیں، اس کے علاوہ راستےمیں کھانے پینے کا جو بھی ہوسکا نظم کیا۔ انہی بسوں میں کسی ایک میںجانے والے طالبعلم عادل اشرف نے ہمیں بتایاکہ: ’’وہ لوگ (ذہین احمد محمود الرحمن اور ان کی ٹیم) بہت اچھے لوگ ہیں ان کا تھینک یو کہنا چاہیے‘‘، ہم نے پوچھا کہ کیا انہوں نے طلبا کےپیسے مار لیے ہیں ؟ عادل اشرف نے جواب دیا کہ: نہیں
اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہیکہ طلباء کے ساتھ کوئی دھوکہ کوئی فراڈ نہیں ہوا ہے اور پیسے اینٹھنے کا الزام بے بنیاداور کسی مجرمانہ سازش کا نتیجہ ہے جسے کسی کی خدمت کو مجروح کرنے کے ناپاک ارادے سے کیا گیا ہے ۔
دوسری طرف ہماری تفتیش میں جمعیۃ علما ضلع سہارنپور کی طرف سے دیوبند میں سید ذہین احمد، محمود الرحمن قاسمی، ان کی مکمل ٹیم کے کاموں کا ایک دوسرا پہلو سامنے آیا کہ ان لوگوں نےلاک ڈاؤن میں بدحال ہوجانے والے انسانوں کا اس خصوصیت سے خیال رکھا کہ غیر مسلم پولیس افسران بھی ان کی انسانیت نوازی کےقائل ہوگئے، ان کی ٹیم روزانہ ہر وقت ۱۸۰۰ لوگوں کو کھانا کھلا رہی تھی، کسی ایک ٹیم کی طرف سے اتنے سارے لوگو کے لیے کھانا بنانا پھر انہیں تقسیم کرنا ایک سخت کارِ دارد ہے، لیکن جفاکشی کی مثال قائم کرتے ہوئے ان خدمات کا تسلسل رمضان میں بھی باقی رہا، رمضان میں رات کے کھانے اور سحری کا نظم ہوتا، اور سات کورنٹائن سینٹر جہاں تبلیغی جماعت کے افراد پھنسے ہوئے تھے وہاں بھی افطاری پہنچائی جاتی تھی، روزہ رکھ رکھ کر اس ٹیم نے شب و روز اتنی جانفشانی سے انسانیت کی خدمت کی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعی ایک بڑی اعلیٰ نظیر ہے اور اس کی ڈاکیومنٹری بھی بننی چا ہیے ، انسانیت کی خدمت، سرکاری کام،لاک ڈاؤن میں شہریوں کی خبرگیری کا ایک ایسا نظام ان لوگوں نے قائم کردیا کہ ضلع کا سرکاری ایڈمنسٹریشن اور پولیس ڈپارٹمنٹ تک متاثر ہوگیا ۔ طلباء کا ایسے خیال رکھا کہ عید کے دن جو بچے اپنے گھروں سے دور رہ گئے تھے، انہیں عید کے دن شیر اور بریانی تقسیم کرنے کے ساتھ ان لوگوں نے بچوں کو لفافے میں عیدی بھی تقسیم کی، میں نے اس بارےمیں مزید Authentic تبصرہ لینے کے لیے سہارنپور کے SPRA پولیس افسر ودیا ساگر مشرا سے بات کی۔ میں نے ان سے مطلق سوال کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران آپ کے علاقے میں عوام کا خیال کن لوگوں نے رکھا اور ان کی ضروریات کی خبرگیری کس نے کی اور ان کے متعلق آپ کا کیا تاثر ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ: سید ذہین بھائی اور محمود الرحمن ان دونوں نے ہمارے علاقے میں لوگوں کے صرف کھانے پینے اور راحت پہنچانے کا بہت بہترین نظم ہی نہیں کیا، بلکہ جب کرونا جانچ چل رہی تھی تب بھی یہ لوگ نہایت سرعت سے ہمارا تعاون کررہےتھے، اسی طرح جگہ جگہ یہ لوگ جنتا کا خیال رکھتے تھے، لیکن ان لوگوں سے جیسے کرنے کو کہا جاتاتھا بالکل ویسا ہی کرتے۔ سوشل ڈسٹینس کا بھی پالن کرتے اور جنتا کی سیوا اور ہمارا تعاون بھی کرتے رہے ‘‘۔
تبلیغی جماعت کے ڈیڑھ سو سے زائد افراد جو ملک کے مختلف حصوں سے آئے تھے اور مرکز کے تنازع کے بعد دیوبند و اطراف میں بری طرح پھنس گئےتھے ،ان سب کو جہد مسلسل اور روزانہ پولیس اسٹیشن کے چکر لگا کر جمعیۃ علما ضلع سہارنپور نے راحت دلائی، سید ذہین، مولانا محمد مدنی، محمود الرحمان قاسمی اور ان کی ٹیم نے ایسے ماحول میں جب تبلیغی جماعت کے افراد کرونا بم بتائے جارہے تھے ان کی اپنی بنیادوں پر ضمانت کروائی، پھر انہی لوگو نے اپنے یہاں سے گجرات، اور مہاراشٹر، دہلی اور اترپردیش کی تبلیغی جماعتوں کے لیے گھر واپس بھیجنے کا نظم بھی کیا ۔
لاک ڈاؤن کے دوران جمعیۃ علما ضلع سہارنپور کے جفاکش کام اور اسی کے ساتھ سید ذہین احمد، محمود الرحمٰن قاسمی اور ان کی ٹیم کی قربانیاں ایسی ہیں کہ ان پر ایک مستقل ڈاکیومنٹری تیار ہوکر مختلف زبانوں میں عام کی جائے تو یہ خدمت انسانیت کے حوالے سے اہل اسلام کا ایک شاندار تعارف ثابت ہوگا، ان جیسے زمینی جدوجہد کرنے والے لوگ امت میں کمیاب ہوچکےہیں ،جو جاگتے ہوئے امت کی خاطر مجسم دھڑکتے ہیں اور تڑپتے ہوئے سوتے ہیں ۔ان لوگوں کے متعلق میرے یہ الفاظ مشاہدے میں لائے جاسکتے ہیں، یہ لوگ دیوبند جیسے شہر میں جہاں ہروقت ملک و بیرون ملک کے ہزاروں بچے ہوتے ہیں، ان کے لیے طاقتور سہارا ہیں، ان کے مونس و غمخوار ہیں، ایسے افراد پر چند سو روپے کی لوٹ اور غبن کا گھٹیا الزام درحقیقت حسد گروہ بندی اور علاقائی تعصب کی سیاست ہے، ہم اپنی تفتیشی جانچ میں یہ بہت اچھے سے جان چکے ہیں کہ، ان بہادروں کے خلاف یہ سیاست کن سفید پوشوں کی سیاہ کاری ہے، لیکن سردست ہم ان کا نام نہیں لے رہےہیں ۔یہ گھٹیا سیاست اور حسد کی سازش صرف اس بناء پر انگیز ہوئی کہ جمعیۃ علما ضلع سہارنپور اور ذہین احمد صاحب کی ٹیم اپنے بےلوث کاموں کی وجہ سے ایک طرف دیوبند کے طلباء مدارس اور دوسری طرف دیوبند کے لوگوں میں مزید پسندیدہ ہوتے جارہےتھے، دراصل کچھ قدآور لوگوں نے دعویٰ کردیا تھا کہ طلباء گھر کسی حال میں نہیں جاسکتے اور کچھ لوگ جو اپنے صوبے میں قدآور تھے، وہ اپنے طلباء کو لانے میں ناکام رہے تھے، لیکن سہارنپور کی جمعیۃ محمود مدنی، سید ذہین اور محمود الرحمن صاحب کی انتھک کوششوں سے یہ کام ہوگیا اور بالآخر طلباء اپنے گھروں کوپہنچ گئے، کام جب بولنے لگا تو بعض بڑے ناموں کا حسد اور تنظیمی مخالفت کی سیاست متحرک ہوگئی، میں صرف اشارہ کررہاہوں اور دانستہ نام نہیں لے رہا ہوں، لیکن اگر وہ چاہیں گے تو مجھے پیغام بھیج دیں۔ ان کے اسماء گرامی بھی ظاہر کردیے جائیںگے، بہرحال یہ بڑے ہی افسوس اور شرم کا مقام ہے۔ سید ذہین اور محمود الرحمن کی اس ٹیم کی بس یہ خرابی رہ گئی کہ یہ لوگ اپنے کاموں کا فوٹو سیشن اور پرچار نہیں کرواتے، چند دن پہلے کی ہی بات ہیکہ اسی ٹیم کی محنت سے دیوبند میں موجود آسام، تریپورہ اور میگھالیہ کے ۱ ہزار چھیانوے طلباء اسپیشل ٹرین سے اپنے گھر بھیجے گئے، لیکن کہیں کوئی نیوز، کوئی کوریج نہیں، مولانا محمود مدنی صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ وہ سہارنپور کی اس ٹیم کو ملکی سطح پر اپنی جمعیۃ کا رول ماڈل بنادیں تو پوری جمعیۃ میں ایک مفید اسپرٹ پیدا ہوجائےگی، یقینًا بعض لوگ جو جمعیۃ علماء ہند سے محض نام کی بنیاد پر اب مخالفت کرنے لگے ہیں ،وہ جان لیں کہ ایسی مخالفت افراط و تفریط کہلاتی ہے، جو تعصب کی طرف لے جاتی ہے ۔اختلاف اور اتفاق کی بنیاد الله کے لیے اور امت کے مفادات کی بنیاد پر ہی ہونی چاہئے۔ ہمیں جمعیۃ سے کئی پالیسیوں میں اختلاف ہے اور رہےگا لیکن تعصب کی بنیاد پر ہم اس میں ناانصافی نہیں کرینگے، موجودہ قضیے میں ہم جمعیۃ علما ضلع سہارنپور اور ذہین بھائی کے ساتھ ہیں ان کے کاموں کو سراہتے ہیں، بہتر یہی ہوگا کہ اس بحث کو اب بند کردیجیے ورنہ اس کے مزید انگیز ہونے سے قانونی تحفظات یقینی ہیں۔

[email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here