ڈاکٹر محمد اللہ خلیلی قاسمی
۱۸۵۷ء کے خونیں انقلاب میں جب دہلی اجڑی اور اس کی سیاسی بساط الٹ گئی تو دہلی کی علمی مرکزیت بھی ختم ہوگئی اور علم و دانش کا کارواں وہاں سے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگیا۔ اس وقت کے اہل اللہ اور خصوصیت سے ان بزرگوں کو جو اس خونیں انقلاب سے خود بھی گزر چکے تھے ، یہ فکر لاحق ہوئی کہ علم و معرفت کے اس کارواں کو کہاں ٹھکانہ دیا جائے اور ہندوستان میں بے سہارا مسلمانوں کے دین و ایمان کو سنبھالنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے۔ خوش قسمتی سے اس وقت اس راہ عمل کے مذاکروں کا مرکزی مقام دیوبند کی مسجد چھتہ تھی۔ یہ وہی مسجد ہے جس میں حضرت حاجی عابد حسین صاحب اور حضرت مولانا رفیع الدین صاحب قیام پذیر تھے۔حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی ورود دیوبند کے موقع پر اسی مسجد میں قیام فرماتے تھے۔ حضرت نانوتوی کی سسرال اسی کے قریب محلہ دیوان میں واقع تھی، اس لیے اکثر یہاں تشریف آوری ہوتی رہتی تھی، بلکہ اس وقت تک وہ دیوبند کو وطن ثانی بنا چکے تھے۔ اس طرح ان بزرگوں میں کمال درجہ کا ربط و ضبط قائم ہوگیا۔ علاوہ ازیں دیوبند میں حضرت مولانا مہتاب علی صاحب، حضرت مولانا ذوالفقارصاحب اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سےبھی مودت و محبت کا رشتہ قائم تھا۔
چناں چہ ان حضرات کے وقت کا اکثر حصہ مسلمانوں کی علمی و دینی ورثہ کی بقا و ترقی اور ملی تحفظ کی فکر میں صرف ہونے لگا۔ اس وقت بنیادی نقطہٴ نظر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی و علمی درس گاہ کا قیام ناگزیر ہے۔ اس مرکزی فکر کی روشنی میں ان حضرات نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں یہ دینی درس گاہ قائم ہونی چاہیے، لیکن یہ مدرسہ قائم کیسے ہو اور اس کا طریقہ کار کیا ہو؟ برطانوی تسلط کے بعد اوقاف کی ضبطی اور امرا ء و نوابان کی بربادی کی وجہ سے کسی اسلامی تعلیم گاہ کو کس طرح چلایا جائے؟ یہ بات بھی شاید ان بزرگوں میں زیر بحث ہوگی۔ حضرت نانوتوی کے اصول ہشتگانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کو عوامی چندہ کی بنیاد پر چلائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ (۱)
تحریک چندہ
سوانح محطوطہ کے حوالے سے سوانح قاسمی میں لکھا ہے کہ چندہ کی فراہمی کے سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت نے عملی اقدام کیاوہ حضرت حاجی عابد حسین تھے۔ایک دن بوقت اشراق رومال کی جھولی بناکر آپ نے اس میں تین روپے ڈالے اور چھتہ مسجد سے تن تنہا مولانا مہتاب علی کے پاس تشریف لائے جنھوں نے چھ روپے عنایت کیے اور دعا کی۔ پھر بارہ روپے مولانا فضل الرحمن صاحب نے اور چھ روپے حاجی فضل حق صاحب نےدیے۔ پھر وہاں سے اٹھ کر آپ مولانا ذوالفقار علی کے پاس آئے اور انھوں نے فوراً بارہ روپے دیے اور حسن اتفاق سے اس وقت سید ذوالفقار علی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے، ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے۔ وہاں سے اٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہنچے، دو سوروپے جمع ہوگئے اور شام تک تین سو روپے۔یہ قصہ بروز جمعہ دوم ماہ ذوالقعدہ ۱۲۸۲ھ میں پیش آیا۔ (۲)
افتتاح مدرسہ
بالآخر ۱۵ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بروز پنجشنبہ مطابق 31/مئی1866ء (دیکھئے اس مضمون کا آخری عنوان) کو قصبہ دیوبند کی مسجد چھتہ کے کھلے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سایے میں نہایت سادگی کے ساتھ مدرسہ عربی کا افتتاح عمل میں آیا۔ تدریس کے لیے سب سے پہلے جس استاذ کو مقرر کیا گیا وہ حضرت مولانا ملا محمد محمود دیوبندی رحمہ اللہتھے اور اس مدرسہ کے پہلے طالب علم کا نام ’محمود حسن‘ تھا جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے پوری دنیا میں جانا پہچانا گیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس درس گاہ کے سب سے پہلے استاذ اور شاگرد دونوں کا نام محمودتھا۔
اس بے سرو سامانی کے ساتھ اس مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا کہ نہ کوئی عمارت موجود تھی اور نہ طلبہ کی جماعت۔ اگر چہ بظاہر یہ ایک مدرسہ کا بہت ہی مختصر اور محدود پیمانے پر افتتاح تھا، مگر در حقیقت یہ ہندوستان میں دینی تعلیم اور اسلامی دعوت کی ایک عظیم تحریک کا باضابطہ آغاز تھا۔
اعلان چندہ
قیام مدرسہ کے چار دن بعد ۱۹/ محرم الحرام ۱۲۸۳ء بروز دوشنبہ حاجی سید فضل حق صاحب (سربراہ کار مدرسہ) کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں قیام مدرسہ کا اعلان ، چندہ کی اپیل اور مدرسہ کے منصوبوں کا اظہار کیا گیا تھا ۔اشتہار کا متن یہ تھا:
’’اشتہار‘‘
الحمد للہ کہ مقام قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں اکثر اہل ہمت نے جمع ہوکر کسی قدر چندہ جمع کیا اور ایک مدرسہٴ عربی پندرہ تاریخ محرم الحرام ۱۲۸۳ ہجری سے جاری ہوا اور مولوی محمد محمود صاحب بالفعل بمشاہرہ ۱۵/ روپے ماہوار مقرر ہوئے، چوں کہ لیاقت مولوی صاحب کی بہت کچھ ہے اور تنخواہ بسبب قلت چندہ کے کم، ارادہ مہتممان مدرسہ کا ہے کہ بشرط وصول زر چندہ قابل اطمینان جس کی امید کر رکھی ہے تنخواہ مولوی صاحب موصوف کی زیادہ کی جاوے اور ایک مدرس فارسی و ریاضی کا تقرر ہو۔ جملہ اہل ہمت و خیر خواہان ہند خصوصاً مسلمانان سکنائے دیوبند و قرب و جوار پر واضح ہو کہ جو لوگ اب تک شریک چندہ نہیں ہوئے بدل شریک ہوکر امداد کافی دیویں اور واضح ہو کہ چندہ مفصلہ فہرست ہذا کے کہ جس کی میزان کل ۴۰۱ روپئے ۸ آنے ہے، دوسرا چندہ واسطے خوراک و مدد خرچ طلبہٴ بیرون جات کے جمع ہوا ہے اور سولہ طالب علموں کا صرف جمع ہوگیا ہے اور ان شاء اللہ روز بروز جمع ہوتا جاتا ہے اوس میں سے طلبہٴ بیرونجات کو کھانا پکا پکایا اور مکان رہنے کو ملے گا۔ کتابوں کا بندو بست بھی متعاقب ہوگا۔ نام مہتممان کے درج ذیل ہیں ، جن صاحبوں کو روپیہ چندہ بھیجنا منظور ہو تو بنام اون کے بذریعہ خط بیرنگ ارسال فرمادیں۔ رسید اوس کی بصیغہٴ پیڈ بھیجی جائے گی۔
فقط
حاجی عابد حسین صاحب، مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی، مولوی مہتاب علی صاحب، مولوی ذوالفقار علی صاحب، مولوی فضل الرحمن صاحب، منشی فضل حق، شیخ نہال احمد صاحب
العبدفضل حق ، سربراہ کار مدرسہٴ عربی و فارسی و ریاضی قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور
تحریر بتاریخ ۱۹/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ روز دوشنبہ‘‘ (۳)
یہ اشتہار جہاں ایک طرف چندہ کی اپیل تھی، وہیں دوسری طرف اس میں مدرسہٴ عربی دیوبند کے منصوبوں کا اعلان تھا۔ قیام مدرسہ کے محض چار دنوں بعد شائع ہونے والے اس اشتہار میں مدرسین کے اضافہ، اساتذہ کی تنخواہوں میں معقول اضافہ، طلبہ کے لیے پکے پکائے کھانے کا نظم،دارالاقامہ کی سہولت اور کتب خانہ کی ضرورت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ذہن میں ایک بڑے مدرسہ کا خاکہ موجود تھا۔اس تحریر کے بعد اُن ۵۴ حضرات کے اسمائے گرامی کی فہرست ہے جنھوں نے پہلے مرحلے میں قیام مدرسہ کے لیے تعاون میں حصہ لیا تھا۔
قیام دارالعلوم کی شمسی تاریخ
دارالعلوم کے قیام کی قمری تاریخ 15 محرم 1283 ہے ، کتابوں میں اس کی شمسی تطبیق 30 مئی 1866 مذکور ہے ، لیکن صحیح تاریخ 31 مئی ہے، کیوں کہ دارالعلوم کی 1283 کی روداد میں قیام دارالعلوم کے چار روز بعد 19 محرم بروز دوشنبہ کو بانیان دارالعلوم کی طرف سے اعلان کی اشاعت کا ذکر ہے اور اس میں یوم دوشنبہ کی تصریح ہے، اس لحاظ سے یوم تاسیس یعنی 15 محرم کا دن پنجشنبہ ہوتا ہے اور پرانی تحریروں میں پنجشنبہ کاذکر بھی ہے۔ لہٰذا پنجشنبہ کے دن کے لحاظ سے شمسی تاریخ 31 مئی ہوتی ہے، 30 نہیں۔ہماری پرانی کتابوں میں صرف ہجری سن ہی مذکور ہوتا ہے، ہجری اور عیسوی تطبیق بعد کے لوگوں نے انجام دی ہے، پہلے یہ تطبیق محض ذہنی حسابات کی روشنی میں انجام پاتی تھی، جس میں تسا محا ت کے بہت امکانات تھے۔ الحمد للہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ کام بہت آسان ہوگیا ہے۔
دارالعلوم کا سن قیام دارالعلوم سے شائع شدہ بعض کتابوں میں 1867 بھی لکھا ہوا، یہ محض تطبیق کی غلطی ہے۔ 30 مئی 1866 کی تطبیق بھی ایک تسامح ہے کیوں کہ دارالعلوم کا یوم قیام جمعرات ہونا طے ہے جس دن ہندوستان میں 15 محرم کی تاریخ تھی۔ ہجری تاریخوں میں ایک دن کا فرق عام طور پر ہوسکتا ہے۔انٹرنیٹ پر ڈیٹ کنورٹر استعمال کرتے ہوئے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ زیادہ تر سوفٹ ویئر عرب کی ہجری تقویم کے اعتبار سے بنتے ہیں، اس لیے ہندوستان والوں کے لیے اس میں ایک دن کے فرق کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
حوالہ جات:
(۱) تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول، ص ۱۴۸تا ۱۵۰؛ سوانح قاسمی،مولانا مناظر احسن گیلانی، جلد دوم ، ص ۲۳۰تا ۲۳۸
(۲) سوانح قاسمی، جلد دوم ، ص ۲۵۸ تا ۲۵۹
(۳) کیفیت مدرسہ عربی دیوبند، بابت ۱۲۸۳ھ ہجری ، ص۳ تا ۴
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں