مسلم سرمایہ کاروں اور تاجروں کی بربادی و ناکامی کے بنیادی اسباب

0
674
فائل فوٹو
فائل فوٹو
All kind of website designing

اخلاص کی جگہ ریاکاری کا غلبہ، اور سینے میں بھری ہوئی حسد کی آگ

میم ضاد فضلی

اللہ کی ذات ستودہ صفات پر توکل سے محروم ہوجانے اور حسد کی آگ میں جل کر دنیا و آخرت میں ابدی ہلاکت و خسران کا مستحق بننے والوں کے لیے مکۃ الکرمہ سے آنے والا سبق آموز واقعہ

برطانیہ، چین اور ملائشیا کے مشہور سپر سٹورز میں کام کرنے والے ایک لائق وفائق مینجر کو بن داؤد سپر سٹورز مکہ میں کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہ برطانوی نژاد تھا اور بزنس مینجمنٹ کی کتابوں میں اس نے ہمیشہ اپنے مد مقابل منافس(compititor) کو نیچا دکھا کر آگے بڑھنا ہی سیکھا تھا۔ مکہ مکرمہ میں کچھ عرصہ اس نے بطور ریجنل منیجر اپنی خدمات سرانجام دیں۔ دریں اثناء

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ڈاکٹر میم ضاد فضلی

اس نے دیکھا کہ ایک دوسرے نام کے سپرا سٹور کی برانچ اسکے سٹور کے بالکل سامنے کھلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اس نے سوچا کہ یہ لوگ ادھر آکر اس کی سیلز پر اثر انداز ہونگے۔ لہذا اس نے فورا بن داؤد سپرا سٹورز کے مالکان کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس نئے سپر سٹورز کے متعلق کچھ معلومات، مشورے اور آئندہ کا لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجاویز دیں۔اس کو زندگی میں حیرت کا شدید ترین جھٹکا لگا، جب مالکان نے اس کو نئے سپر اسٹور کے ملازمین کا سامان رکھوانے اسٹور کی تزئین و آرائش اور ان کے چائے پانی کا خاص خیال رکھنے کا کہا۔ اسکی حیرت کو ختم کرنے کیلئے بن داؤدا سٹورز کے مالکان نے کہا کہ وہ اپنا رزق اپنے ساتھ لائیں گے اور ہمارا رزق ہمارے ساتھ ہوگا۔اپنے لکھے گئے رزق میں ہم ایک ریال کا اضافہ نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے ۔ اور نئے اسٹور ز والوں کے رزق میں ہم ایک ریال کی کمی نہیں کرسکتے اگر اللہ چاہے۔ تو کیوں نہ ہم بھی اجر کمائیں اور مارکیٹ میں نئے آنے والے تاجر بھائی کو خوش آمدید کہہ کر ایک خوشگوار فضا قائم کریں۔
دوسرا واقعہ مشہور پولٹری کمپنی کا ہے۔ الفقیہ پولٹری کمپنی کے مالک نے مکہ مکرمہ میں ایک عظیم الشان مسجد(مسجد فقیہ) بھی تعمیر کی ہے۔ اسکی منافس کمپنی الوطنیہ چکن لاکھوں ریالوں کی مقروض ہوکر دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی۔ فقیہ کمپنی کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی مخالف کمپنی کے مالک کو ایک خط بھیجا اور ساتھ ایک دس لاکھ ریال سے زائد کا چیک بھیجا۔ اس خط میں لکھا تھاکہ : ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دیوالیہ پن کے قریب کھڑے ہو، میری طرف سے یہ رقم قبول کرو، اگر مزید رقم کی ضرورت ہے تو بتاؤ، پیسوں کی واپسی کی فکر مت کرنا، جب ہوئے لوٹا دینا‘‘۔ اب دیکھئے کہ ارب پتی شیخ الفقیہ کے پاسالوطنیہ کمپنی خریدنے کا ایک نادر موقع تھا، لیکن اس نے اپنے سب سے مخالف کی مالی مدد کرنے کو ترجیح دی۔
حاصل کلام:- اوپر بیان کیے گئے دو سچے واقعات آپ کو اسلامی تجارت کے اصولوں سے متعارف کراتے ہیں،کسی مخالف کمپنی سے پریشان نہ ہوں، اگر آپ اپنا کام ایمانداری سے کرتے اور کسی پر احسان کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی آپ کا بازو پکڑ کر آپ کو کامیابی کی معراج تک پہنچا دے گا۔ یاد رکھیں، کسی کی ٹانگیں کھینچنے سے آپکا رزق زیادہ نہیں ہوگا۔ جو اس کے جو نصیب کا ہے اس کو مل کر رہے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ برائی انسان کے دل میں کیسے پیدا ہوتی ہے، اس اسباب وعوامل کیا ہیں ، اور اس کے رہتے ہوئے آدمی اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ ترقی کررہا ہے اور بلندی کے ایسے تیز گام براق پر سوار ہے کہ دنیا کا بڑا سے بڑا تاجر یا اس کا کوئی ہم پیشہ اس کے مدمقابل بھی نہیں آسکتا۔ اسے اپنی ریاکارانہ عبادات پہ حد سے زیادہ غرورہوتا ہے اور ناموری کے لئےضرورتمندوں کی مدد اور اعانت کرکے اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ دکھاوے کی اس سخاوت نے اسےجنت کا حقدار بنادیا ہے۔اسی کج فہمی میں مبتلا ہوکر وہ خیرات بھی کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی فیاضی اور سخاوت کرکے چرچے زبان زد عام رہتے ہیں۔ مگر وہ لمحہ بھر کے لیے بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ نام ونمود اور سخی کہلانے کے لیے وہ جو کچھ کررہا ہے، اس کا کوئی بدلہ اسے قیامت کے دن اللہ کے دربار سےملنے والانہیں ہے،کہیں اس کی سخاوت قدرت کے یہاں الٹے اس کے منہ پر نہ ماردی جائے۔خیرات کا عمل با لخصوص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے اس کے ضرورت مند بندوں کی مدد کرنا اسی وقت اللہ کے نزدیک قابل قبول اور باعث اجر ہوگا، جب اس کیسخاوت و عطا ،ریا کاری اورنام ونمود اور دکھا وے سے پاک ہو۔
خیال رہے کہ ریا کاری ، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ خالص اﷲ کے لئے کرے ، اس کا دل اخلاص و للہیت کے جذبے سے معمور ہو ، اس کے نیک عمل کا مقصد صرف اﷲ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنا ہو، نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں اپنے کو بڑا ظاہر کرنا یا اس سخاوت سے اس کا مقصد تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہو ۔یاد رکھیں! اﷲ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے ، ا سے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو ، اور جس میںاﷲ کی رضا کی طلب چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سےوہ نیکی انجام دی گئی ہو ۔ ریا کاری ، اخلاص کے منافی اور اس کی ضد ہے۔ یہی وہ شیطانی خصلت ہے جوبڑی بڑی سخاوتوں اور انفاق فی سبیل اللہ کے تمام اجرو ثواب کو تباہ و بربار کردیتی ہے اور اسے اللہ کے سامنے کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔ اعاذناللہ منا
دہلی و ہندوستان سمیت دنیاکے ہزاروں مسلم سرمایہ داروں کو میں براہ راست جانتا ہوں جو حقیقتاً ضرورتمندوں، محتاجوں اور غریبوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، مگر جب اس داد ودہش اور خیرات کا فوٹو کھنچواکر اخبارات و رسائل یا شوسل میڈیا کہ ذریعہ خوب پرچار نہ کرلیں انہیں یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ ان کی یہ نیکی اللہ کے ریکارڈمیں درج ہوچکی ہے۔ خود غور کیجئے کہ کسی کی مدد کرکے لوگ تصویریں نکالتے ہیں پھر شوسل میڈیا پر ان تصویروں کو اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ یہ مدد کررہے ہیں یا دکھاوا؟
بہر حال ریاکاری سے حسد کا کیڑا جنم لیتا ہے ،جس نے دنیا کے بڑے بڑے اہل ثروت ، سرمایہ داروں اور سخیوں کو تباہ و برباد کردیا ۔نتیجہ کار صورت حال یہ ہوئی کہ ان کی مثالی سخاوت کے باوجود آج کوئی انہیں جانتا تک نہیں اور وہ کب کا مٹی تلے بے یارو مددگار سلائے جاچکے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پیش آنے والے مذکورہ بالا واقعات جسے عربی سے ترجمہ کیا گیا ہے ،اس کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسد کی شناعت و قباحت کوبھی پیش کردیا جائے ،جس نے بڑے بڑے تاجروں اورکروڑوں میں کھیلنے سرمایہ داروں کو کوڑیوں کا محتاج بنادیا، بلکہ تاریخ کی کتابوں میںتو یہ بھی درج ہے کہ دوسرے بادشاہ کی شاہنشاہیت پر جلنے اور کڑھنے والے بادشاہوں کو اللہ نے اسی دنیا میں رسوا کردیا اور اسی مالک نے جو ہم سب کا پالنہا ر ہے اس باد شاہ کو سڑک کنارے بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا ہے، اور یہ اسی بری خصلت یعنی حسد کی وجہ سے ہوا۔قابل ذکر ہے کہ حسد ایک قدیم اخلاقی برائی ہے، یہ اس جذبے اور احساس کا نام ہے جس میں حاسد کسی شخص کی قوت، کسی خاص خوبی، ملکیت، یا غلبے کے زوال کا متمنی ہوتا ہے، اور چاہتا ہے کہ وہ چیز اس سے چھن کر مجھے مل جائے، اور کبھی وہ کسی سے محض ان نعمتوں کی محرومی کا خواہش مند ہوتا ہے۔حسد میں دوسروں سے نعمتیں چھن جانے کی تمنا کا عنصر غالب ہوتا ہے۔یہی وہ خصلت ہے جس کے بارے میں خالق کائنات قراٰن حکیم میںارشاد فرماتا ہے :’’ فویل للذین ھم عن صلاتہم ساہون۔۔۔الخ‘‘ ترجمہ :پس ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے، جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں۔۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔۔ اور (ضرورت مندوں کو) معمولی چیزیں بھی دینے سے گریز کرتے ہیں۔
اس ہلاکت کا اطلاق صرف نماز میں ریاکاری تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس ہلاکت میں و ہ اہل سخاوت بھی شامل ہیں جو نام ونمود اور دکھاوے کے لیے جود وعطا کے دریا بہاتے ہیں اور فوٹو کھنچواکر اور اخبارات و جرائد میں خبریں لگو اکر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اب جنت کا سرٹیفکیٹ انہوں نے حاصل کرلیاہے۔ آج ساری دنیا میں مسلما ن سرمایہ کارو اور بڑے بڑے تاجروں کے دیوالیہ ہونے اور ان کی بربادی کے بنیادی اسباب یہی ہیں ۔ اللہ ہم سب کو اخلاص کی دولت سے مالامال فرمائے اور حسد وکینہ جیسی برخصلت جس پر اللہ نے ہلاکت کا وعدہ کیا ہے اور اس کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے، اس قبیح عادت سے ہم سب کا خالق و مالک ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here