جامعہ ملیہ- دہلی پولس کا ظلم اور بربریت

0
1228
نئی دہلی : نہتے طلبہ وطالبات پر لاٹھیوں کی بارش کرتی ہوئی آر ایس ایس نواز دہلی پولیس، واضح رہے کہ مسلم اقلیتوں پر دہلی پولیس کی ظالمانہ کاروائی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ دہلی پولیس مسلمانوں اور اقلیتوں کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کی دہشت کا کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
All kind of website designing

نہتے طلبا و طالبات کو ظالموں نے نشانہ بنایا

عبدالعزیز

پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کو یوگی پولس نے ہر طرح سے ظلم اوربربریت کا نشانہ بنایا اور اب دہلی پولس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر وحشیانہ حملے کرکے انھیں زخموں سے چور چور کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ نہ تو علی گڑھ میں یوگی پولس کو یونیورسٹی کے طالب علموں کا پرامن احتجاج پسند آیا اور نہ ہی جامعہ ملیہ کے طالب علموں کو دہلی کی پولس جو مودی حکومت کے ماتحت ہے اسے راس آیا۔ پولس کی فرقہ واریت اور ظالمانہ سلوک دونوں جگہ صاف صاف نظر آیا۔ علی گڑھ میں بھی بہت سے طالب علموں کو حراست میں لے لیا گیا اور بہت سے طالب علم احتجاج کے دوران زخمی ہوئے جنھیں اسپتال میں علاج کیلئے بھرتی کرنا پڑا۔ یونیورسٹی کو بھی 6جنوری تک کیلئے بند کردیا گیا ہے اور امتحانات بھی ملتوی کردیئے گئے۔ جامعہ ملیہ میں جو کچھ ہوا وہ حد سے زیادہ ہوا۔ پہلے دن جلوس پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ ٹیئرگیس کے گولے چھوڑے گئے۔ پولس نے اپنی کارروائی کو

نئی دہلی : رات کے سناٹے میں جب مظاہرین جائے واقعہ سے لوٹ چکے تھے، اس وقت دہلی پولیس اور غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق پولیس یونیفارم میں آر ایس ایس کے غنڈہ عناصر نے جامعہ کے سیکورٹی گارڈ کی سخت پٹائی کی اور اس کے بعد لائبریری میں گھس کر وہاں مطالعے میں مصروف نہتے طلبہ و طالبات کیساتھ غنڈہ گردی اور اپنی انسانیت دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایک کرکے طلباء کو لاٹھی ڈنڈوں سے ادھ مرا کردیا، لائبریر کی عمارت کو بھی تہس نہس کردیا اور وہاں موجود قیمتی کتابوں چیر پھاڑ کر بکھیردیا، اطلاعات ہیں کہ دہلی پولیس نے لائبریر ی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اشک آور گیس کے گولے بھی داغے۔

صحیح ثابت کرنے کیلئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ احتجاج کرنے والوں نے پہلے سے پولس سے اجازت نہیں لی تھی۔ دوسرے دن پولس کی کارروائی انتہائی ظلم و ستم پر مبنی تھی۔ رات میں پولس یونیورسٹی کی لائبریری میں داخل ہوکر جہاں لڑکے پڑھ رہے تھے ان کو ہر طرح سے پریشان کیا، ان کی گرفتاری کی، ان کو مارا پیٹا۔ ظالموںنے مسجد میں گھس کر نمازیوں پر ظلم ڈھائے اور نمازیوں کو زد و کوب کیا۔ ان کی بھی گرفتاری کی۔
دو روز پہلے نائب وزیر داخلہ کرن رجیجو نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا احتجاج فرقہ پرستانہ تھا۔ یہ در اصل پولس کو اشارہ تھا کہ وہ طالب علموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔ دہلی میں کچھ دنوں پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں کے احتجاجی مظاہرے کے خلاف بھی دہلی پولس نے ظلم و ستم ڈھایا تھا۔ بہت سے طلبا و طالبات کو سنگین چوٹ آئی تھی، لیکن طالب علموں نے اپنے مظاہرے یا دھرنے کو جاری رکھا۔ بالآخر مرکز کی حکومت کو طالب علموں کے جائز مطالبات کو ماننا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کے مطالبات کو حق بجانب قرار دینے اور اس کی حمایت کرنے میں ہندستان کی اکثر یونیورسٹیوں کے طالب علم آگے آئے اور ہندستان کے اصحاب الرائے اور دانشوروں نے بھی مطالبات کی حمایت کی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ جامعہ ملیہ کے مظلوم طالب علموں کی حمایت میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علم بھی یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کے لیڈران بھی جامعہ ملیہ کے طالب علموں کی حمایت میں آگئے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پولس کی بربریت کے خلاف بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ طالب علموں کے ساتھ جن کو پولس نے اپنا نشانہ بنایا ہے جامعہ ملیہ کی برادری پورے طور پر ان کے ساتھ کھڑی ہے، وہ اکیلے نہیں ہیں۔ وائس چانسلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہے لیکن ان کے اس بیان سے یقینا طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ خدا کرے کہ وائس چانسلر صاحبہ بی جے پی پولس کی بربریت کے خلاف اپنی پوری طاقت جھونک دیں اور پولس ظلم کے خلاف تحقیقات کی مانگ کریں کیونکہ یونیورسٹی میں یا کسی بھی تعلیم گاہ میں پولس بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوسکتی۔
ٍ ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ کے لیڈر تسلیم رحمانی نے گزشتہ روز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دورے کے بعد صورت حال قلمبند کی ہے۔
’’میں ساڑھے سات بجے کے قریب جامعہ کی وائس چانسلر سے ملاقا ت کی غرض سے اپنی اہلیہ اور ڈاکٹر وسیم راشد، بلیغ نعمانی شاداب اور ’پی ایف آئی‘ کے احبا ب پرویز صاحب، انیس صاحب، الیاس صاحب اور کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ جو نکلا تھا تو بس ابھی گھر لوٹا ہوں۔
وی سی صاحبہ گھر پر نہیں تھیں، رجسٹرار بھی نہیں تھے۔ جامعہ نگر تھانے پہنچے جو اندر سے بند تھا، ایک سنتری نے اندر سے ہی کہا یہاں کوئی افسر موجود نہیں ہے۔ وہاں سے سیدھے جامعہ پہنچے، وہاں چاروں طرف پولس ہی پولس موجود تھی۔ ڈھونڈنے پر ایڈیشنل ڈی سی پی مل گئے، ان سے بات کی۔ زخمیوں کی خیریت پوچھی۔ گرفتار شدگان کی تعداد اور مقام مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ بہرحال ان سے کہا کہ ہم حالات کو نارمل کرنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، آپ تشدد روکئے اور اگر آج رات آپ نے کوئی گرفتاریاں کیں تو کل کے حالات کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔
اسی اثنا میں جامعہ کے پراکٹر وسیم صاحب آ گئے جو ہوسٹل سے لڑکوں کو نکالنے جا رہے تھے۔ اس وقت تک ہنگامہ مکمل طور پر فرو ہو چکا تھا۔ میں نے دونوں خواتین کو تکونہ پارک سے ہی گھر واپس بھیج دیا تھا اور ہم سب بقیہ احباب وسیم صاحب کے ساتھ یونیورسٹی میں داخل ہو گئے۔ لائبریری وغیرہ اور دیگر ڈپارٹمنٹ میں آواز دے کر طلبا سے باہر آنے کی اپیل کی مگر وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ پھر بھوپال گراؤنڈ کے پیچھے واقع ہوسٹلز میں گئے، وہاں لڑکے موجود تھے اور بے حد ناراض تھے کہ ان کی کال پر جامعہ سے کوئی نہیں آیا۔ خیر سمجھا بجھا کر لڑکوں کا غصہ ٹھنڈا کیا اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی اوران کی ضروریات وغیرہ پوچھ کر واپس آئے۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ لڑکا شاکر جو کوٹہ راجستھان کا رہنے والا ہے کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے شہید ہوا ہے اور بہت سے بچے زخمی ہیں۔ پولس نے بغیر اجازت ہوسٹلوں میں گھس کے طلبہ کو مارا ہے، حتیٰ کہ گارڈز اور بلز پر بھی ڈنڈے برسائے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کے آنسو گیس کے گولے بھی داغے۔
وہاں سے نکل مر ہولی فیملی ہسپتال گئے جو خود ایک پولس چھاؤنی بنا ہوا تھا اور کسی کواندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں کسی طرح کہہ سن کر کچھ لوگوں کے ساتھ اندر گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں 15 زخمی لائے گئے تھے۔ ان میں سے پندرہ کو داخل کر لیا گیا، ایک آئی سی یو میں ہے۔ بقیہ کی مرہم پٹی کر کے چھٹی کر دی گئی ہے۔ وہاں ایک فہرست ایمرجنسی وارڈ کے باہر زخمیوں کی لگائی گئی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ ایمرجنسی میں کوئی نہیں ہے۔ اسی دوران ایک بچے کو جو وہاں داخل تھا پولس اپنی وین میں ڈال کر زبردستی لے گئی۔ اس کے اہل خانہ وہاں روتے بلکتے رہ گئے۔ معلوم ہوا کہ اسے کالکا جی تھانے لے جایا گیا ہے اور وہاں نیئر فرینڈ کالونی تھانے میں ایسے اور بچے اور دیگر گرفتارشدگان بھی رکھے گئے ہیں۔ وہاں جانے کے ارادے سے نکلے تو باہر سلمان خورشید آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس پولس زیادتی کی شکایت صبح سپریم کورٹ میں لے جائیں گے۔ پھر وہ میڈیا سے مخاطب ہوگئے۔
طے ہوا کہ پہلے آئی ٹی او کے حالات دیکھے جائیں تب تک میری گاڑی ہسپتال تک آ چکی تھی کہ اب تک کا سارا سفر پیدل تھا۔ آئی ٹی پر معلوم ہوا کہ مسجد عبدالنبی کے اندر ایک کمرے میں پولس کے اعلیٰ افسران اور قائدین گفتگو کر رہے تھے، میں بھی وہاں پہنچا تو کمیونسٹ پارٹی کے ڈی راجہ، دینیش وارشنے، ڈی یو کی سینئر لیڈر نندیتا نارائن، میری چھوٹی بہن نجمہ رحمانی جو ڈی یو میں پڑھاتی ہیں، منیشا سیٹھی اور دیگر لیفٹ پارٹی کے ذمے داران اور اساتذہ دلی پولیس کی اسپیشل سیل کی ڈی سی پی اوراے سی پی کے ساتھ موجود تھے۔ ان سے گفتگو میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی موت واقع نہیں ہوئی۔ افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ چھتیس طلبا جن میں دو طالبات بھی ہیں فرینڈز کالونی تھانے میں اور تقریباً 22 کالکا جی میں ہیں۔ ان سے کافی دیرحجت کے بعد اس پر آمادگی ہوئی کہ سب بچوں کو فوری رہا کیا جائے گا۔ سب کو فوری میڈیکل ایڈ دی جائے گی۔ کسی کے خلاف کیس نہیں بنایا جائے گا اور پورے معاملے کی تحقیقات کروائی جائے گی۔ پولس کے ڈی سی پی رندھاوا بھی اس دوران وہاں آ گئے اور کہا کہ بہت سے باہری لوگ آج کے معاملے میں ملوث ہیں اور ماحول انہوں نے خراب کیا ہے۔ ہم تحقیق کر کے ان کو ضرور دیکھیں گے۔ نیز پولس بنا اجازت کیمپس کیسے گئی اس کی تحقیق بھی ہوگی۔
اس دوران باہر طلبا و طالبات کامجمع بھی کئی ہزار تک بڑھ چکا تھا اور بہت سے سیاسی لیڈر وں کی آمد بھی ہو نے لگی تھی۔ پولس چاہتی تھی کہ کسی طرح معاملہ جلدی فارغ ہو تو بھیڑ ہٹے۔ اس گفتگو کی تصدیق کیلئے پراکٹر وسیم صاحب کو فون کیا گیا۔ وہ اس وقت فرینڈز کالونی تھانے میں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رہائی کی رسمی کارروائی شروع ہو گئی ہے اور کچھ طلبا کو میڈیکل کیلئے بھیجا جاچکا ہے، کچھ اور بھیجے جا رہے ہیں۔ اس تیقن کے بعد کچھ سینئر لیڈر وہاں رکے رہے جبکہ میں خود اور ڈی راجہ اور دنیش واپس آ گئے۔
اس معاملے میں جو باہر کے لوگوں کا نام آیا ہے وہ دراصل جامعہ نگر کے ہی باشندے ہیں جنہوں نے جلوس لے کر جولینا کے آ گے متھرا روڈ تک جانے کی کوشش کی۔ ایک دوسرے گروپ نے فرینڈز کالونی میں ماتا مندر تک جانے کی جدوجہد کی۔ تیسرا گروپ کالندی کنج پر سریتا وہار روڈ جام کررہا تھا۔ یہ ناپسندیدہ لوگ کہاں سے کس کے ساتھ کس کے اشارے پر آئے یہ تحقیق کاموضوع ہے‘‘۔
این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن طریقے سے مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مظاہرہ پرتشدد اور ہنگامہ خیز ہوتا ہے تو اس سے مظاہرے یا احتجاج کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ فائدہ اس سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہوتا ہے۔ اس سے ان کو بدمعاشی اور شرانگیزی کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا۔ اس لئے ہر طرح سے کوشش کرنی چاہئے کہ مظاہرہ یا احتجاج پر امن ہو۔ مظاہرہ کرنے سے پہلے اچھی تیاری کرلینی چاہئے اور پولس سے پیشگی اجازت بھی لے لینی چاہئے۔ یوں تو پولس کی حرکتوں سے اور سیاسی دشمنوں سے ہر جگہ محتاط رہنا چاہئے لیکن جہاں یا جس ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہو وہاں کچھ زیادہ ہی محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پولس کی فسطائیت اور فرقہ واریت کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ بنارس میں جمعہ کے دن جو احتجاجی مظاہرہ مسلمانوں کا سڑکوں پر ہوا تو پولس نے مظاہرین کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا اور بے شرمی سے پیش آئی۔ ویڈیو میں ہر کسی نے سنا اور دیکھا کہ پولس جلوس میں شامل نوجوانوں سے کہہ رہی ہے کہ سڑک کے بجائے اپنے گھروں میں مظاہرے کرو اور جلوس نکالو نہیں تو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔
ایک نیوز چینل کے نامہ نگار نے ان ظالم درندوں سے جب پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا کہ چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے اور جلوس نکالنا ہے یا مظاہرہ کرنا ہے تو اپنے گھروں میں کرو، جبکہ آپ جانتے ہیں کہ ہندستان کے دستور اور آئین کے تحت ہر شہری، ہر گروہ اور ہر جماعت کو مظاہرے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر پولس کو بولتی بند ہوگئی لیکن پولس نے اپنی زیادتی اور ظلم سے انکار نہیں کیا۔ اسی نامہ نگار نے جب بنارس کے ایس پی سے پولس کی زیادتی اور بربریت کا ذکر کیا تو ایس پی نے کہاکہ ویڈیو سے پورا اندازہ نہیں ہوتا کہ کس کی آواز ہے۔ جب ایس پی سے کہا گیا کہ جس پولس نے یہ بدمعاشی یا بدتمیزی کی تھی اس نے اپنی حرکت سے انکار نہیں کیا اور نہ یہ کہا کہ اس کی آواز نہیں ہے اور وہ کہہ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ پورے طور پر ویڈیو میں آواز کے ساتھ وہ دکھائی دے رہا ہے تو آپ کیوں اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ایس پی کا جواب تھا کہ وہ بچانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں بلکہ کارروائی پراسس میں ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ پولس جو ظلم کرتی ہے تو بڑے افسران بھی پولس کو بچانے کیلئے لیپا پوتی سے کام لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولس کے محکمے کے اندر مسلمانوں کے خلاف جو زہر بھرا ہے وہ کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ اس حقیقت کو مسلمانوں کو اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے۔ جلوس اور مظاہرے کرنا ہر شہری کا دستوری حق ہے۔ مسلمانوں کا بھی حق ہے، لیکن مسلمانوں کو نہایت احتیاط اور تیاری کے ساتھ احتجاج کرنے اور مظاہرے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ظالم پولس اور ظالم سیاست دانوں کا ظلم و ستم کرنے کا موقع نہ ملے اور احتجاج اور مظاہرے کا مقصد بھی پورا ہو۔
E-mail:[email protected]

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here