’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘
عبدالعزیز
مودی- شاہ کی دوسری اننگ کے سات مہینے پورے ہوئے لیکن ان سات مہینوں میں پورے ہندستان کو دونوںنے مل کر تگنی کا ناچ نچادیا۔ گزشتہ روز شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد ملک میں ان دونوں کے ذریعہ جو اندھیرا پھیل رہا تھا وہ مزید پھیل گیا اور گہرا ہوگیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اندھیرے کے بعد روشنی یا رات کے بعد صبح نہیں ہوتی ؎ ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘ ۔ دوسری بار اقتدار پاتے ہی بی جے پی مینی فیسٹو کے مطابق دونوں نے کئی کام انجام دیئے۔ سب سے پہلے ’تین طلاق‘ کا قانون بنایا۔ اس کے بعد 370 اور 35Aدفعات ہٹاکر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور کشمیریوں کو ہر طرح کی آزادی اور حق سے محروم کردیا۔ چار مہینے سے زائد ہوگئے مگر شروع دن سے آج تک صورت حال جوں کا توں ہے۔ دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ کشمیر میں حالات پورے طور پر نارمل ہیں۔ جو سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر کا ذکر بار بار کیا گیا ہے۔ گزشتہ 9نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے الٹے سیدھے فیصلے کے ذریعے بابری مسجد کی زمین سنگھ پریوار کے ان شرپسند عناصر کے حوالے کردیا جنھوں نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا۔ آسام میں ’این آر سی‘ کی فائنل لسٹ کی اشاعت بھی 30 اکتوبر کو کردی گئی؛ حالانکہ بی جے پی کے لیڈر اور کارندے 19لاکھ میں جو 12 لاکھ ہندوؤں کو شہریت کے قومی رجسٹر سے باہر کردیا گیا ہے اس سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آناً فاناً شہریت ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بی جے پی نے پاس کرالیا۔ اب یہ بل چند ہی مہینوں میں پورے طور پر قانون بن جائے گا۔ قانون بننے کے بعد ہی پہلا کام بی جے پی والے آسام کے ان بارہ لاکھ ہندوؤں کو جو شہریت کے قومی رجسٹر سے باہر ہیں ان کو شہریت فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جن مسلمانوں کے پاس شہریت کے دستاویز نہیں ہیں ان کو پریشان کرنے کی کوشش شروع ہوجائے گی ۔ جن کے پاس دستاویز ہے بھی ان کو پریشانیوں کے مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔
کانگریس کی صدر محترمہ سونیا گاندھی نے 11 دسمبر کو ہندستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کے دیگر لیڈروں نے بھی 11دسمبر کو جمہوریت اور دستور کیلئے برا دن قرار دیا ہے۔ کانگریسی لیڈر کپیل سِبّل نے راجیہ سبھا میں امیت شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کے ایجنڈے سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ یہ سب کچھ جو مودی اور شاہ کر رہے ہیں وہ ہندو راشٹر بنانے کی ایک کوشش ہے۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے راجیہ سبھا میں کہا ہے کہ بی جے پی اپنے ہندوتو ایجنڈے کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کی طرف سے یہ اشارہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا جائے گا۔ بل دستور کی دفعات 14، 15 اور 21 کے صریحاً خلاف ہے، جس میں ہر ہندستانی باشندے کو قانون کی نگاہ میں برابر قرار دیا گیا ہے۔ مذہب یا کسی بھی بنیاد پر بھید بھاؤ یا امتیاز کو خلافِ قانون کہا گیا ہے۔ بل میں مذہبی امتیاز رکھا گیا ہے۔ سپریم کورٹ سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس قانون کو کالعدم قرار دیدے۔ اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی اور بابری مسجد مقدمے جیسا فیصلہ کرتی ہے تو ایک بھیانک مستقبل دکھائی دے گا۔ سیاسی جماعتوں میں جو جماعتیں فرقہ پرستی اور فسطائیت کے خلاف ہیں، جمہوریت، سیکولرزم اور سوشلزم پر جو دستور ڈھانچے کے بنیادی عناصر ہیں ان پر یقین رکھتی ہیں وہ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف جنگ آزادی کی طرح لڑائی لڑسکتی ہیں۔ سول سوسائٹی میں جو لوگ ہندستان میں انسانی حقوق، آزادی اور مساوات کے حامی ہیں اور فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف ہیں امید ہے وہ بھی اس میدان ِجنگ میں فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف لڑیں گے۔
مسلمانوں کی ذمہ داریاں: جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ابھی تک کوئی ایسی قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی ہے کہ سارے مسلمان اس کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے سنگھ پریوار کی انسانیت دشمنی اور مسلم دشمنی کے خلاف لڑائی کیلئے تیار ہوں۔ کچھ جماعتیں ضرور ہیں جو اپنی حیثیت اور قدرت کے مطابق مہم چلا رہی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر مولانا ارشد مدنی نے قانونی لڑائی کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند ملک گیر پیمانے پر ’این آر سی‘ اور ’سی اے بی‘ کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ دیگر پارٹیوں نے بھی اپنی اپنی حیثیت سے کچھ فیصلہ کیا ہوگا مگر ان کا فیصلہ ابھی تک عوام یا خواص میں ظاہر نہیں ہوا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسدالدین اویسی نے لوک سبھا میں اس بل کی سخت مخالفت کی ہے اور ایوان کے اندر ممبران کی موجودگی میں اس بل کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسد الدین اویسی اس معاملے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کا دائرہ محدود ہے۔ حیدر آباد میں ان کا کافی اثر ہے۔ ایک دو ریاستوں میں ان کے ایک دو ایم ایل اے بھی ہیں۔ دیگر ریاستوں میں بھی وہ جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ اسد الدین اویسی یا ان کی پارٹی اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ اکیلے وہ یا ان کی پارٹی اس جنگ کو لڑسکے۔ ان کی پارٹی کیڈر بیس بھی نہیں ہے۔
ہندستان میں مسلمانوں میں اگر کوئی پارٹی منظم ، مستحکم اور کیڈر بیس ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ اگر ساری بڑی شخصیتیں اور جماعتیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف بھرپور طریقے سے جرأت مندانہ مظاہرہ یا مہم کا آغاز کرتی ہیں تو اس کے دور رس اثرات ہوسکتے ہیں۔ جو اپنی مدد آپ نہیں کرتا اس کی مدد خدا بھی نہیں کرتا اور دوسرے انسان بھی نہیں کرتے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ “Self help is the best help” (اپنی مدد آپ کرنا سب سے بہتر مدد ہے)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ؎ ’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی… نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا‘ (منظوم ترجمہ : مولانا ظفر علی خان)۔مسلمانوں کو پہلا کام مشترکہ کوشش مشترکہ پلیٹ فارم سے کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا کام غیر مسلموں میں جو لوگ مخلصانہ طور پر سنگھ پریوار سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں ان کابھی بھرپور ساتھ دینا چاہئے۔ ان دوکاموں کے علاوہ جو سب سے بڑا کام ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ غریب، مفلس اور کمزور ہیں، اَن پڑھ ہیں ان کے دستاویزات کو تیار کرنے میں معاونت کرنا۔ ایسے لوگ بہتوں کے پڑوسی ہیں، بہتوں کے ماتحتین ہیں اور بہتوں کے عزیز و اقارب ہیں۔ اگر سب مل کر اپنے قریبی لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو نہ صرف غیروں کی مدد ہوگی بلکہ اپنی مدد بھی ہوگی اورملت کا استحکام ہوگا۔
گزشتہ روز عارفہ خانم شیروانی نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں اور دانشوروں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ان کے ڈرائیور نے کہا کہ آپ کے پاس تو سارے کاغذات ہوں گے، آپ تو اپنے آپ کو بچا لیں گی لیکن میرے پاس اور میرے خاندان کے لوگوں کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے اور نہ میرے بھائی کے پاس کوئی کاغذ ہے۔ ہم لوگ کیسے بچیں گے؟ کیا ہم لوگوں کو آپ بچالیں گی؟ میرا ڈرائیور جو مجھ سے یہ سوال کر رہا تھا تو اس وقت یا ابھی میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ میں اپنے آپ کو بچاسکوں گی کہ نہیں؟ اس کو بچاسکوں گی کہ نہیں؟‘‘میرے خیال سے جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کو اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ چوپٹ راج تو ضرور ہے مگر ابھی ہندستان کو اندھیر نگری نہیں کہا جاسکتا۔ ابھی بہت سی امیدیں ہندستان جیسے ملک سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے خود ہی کہا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا وجود یا ہرش مندر جیسی شخصیتیں ہندستان کے اس اندھیرے میں امید کی کرن ہیں۔ ایسی بہت سی امید کی کرنیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ سب مل کر روشن ستارے کا کام انجام دے سکتی ہیں۔ مسلمانوں کیلئے قرآن مجید اور سیرت رسولؐ سے رہنمائی ملتی ہے کہ مصائب اور مسائل جتنے بھی بھیانک ہوں ہمیں ڈرنا نہیں چاہئے۔ اگر ڈرنا ہے تو صرف خدا سے ڈرنا ہے۔ اگر خدا سے سچا لگاؤ یا تعلق پیدا ہوجائے اور خوف و ڈر دلوں میں سماجائے توکسی اور کے ڈر کے سمانے کی جگہ دل میں پیدا ہوہی نہیں سکتی۔ ہندستان کے جانباز سپاہی اور آزادیِ ہند کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہرؔ نے سچ کہا ہے کہ ؎ ’کیا ڈرہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف… کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے‘۔ ؎ ’توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے… یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے‘۔
مولانا محمد علی جوہرؔ نے پہلے توحید پرستی کی تعلیم دی ہے کہ آدمی ایسا توحید پرست ہوجائے اور ایسا حق پرست ہوجائے کہ اگر ساری دنیا مخالف ہوجائے تو اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ خدا کی طاقت ، عظمت اور اس کی قدرت کے سامنے کسی شئے یا ظاہری طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ دل میں اگر مسلمان یہ بسالے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے بلکہ الٰہی احکامات کی مکمل پابندی کرے تو اسے بھی کسی چیز یا کسی بھی طاقت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان میں ڈر صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور جب خدا سے بے نیاز ہوجاتا ہے، خدا سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے تو ہر ایک سے ڈرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ لیکن ایک خدا کا ڈر اور ایک سجدہ انسان کو ہزاروں سجدوں سے نجات دے دیتا ہے۔ ؎ ’وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے… ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات‘ (علامہ اقبال)
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں