ایمان مجرد اقرار و اعتراف کا نام نہیں ہے بلکہ علم و عمل کا مجموعہ ہے
عبدالعزیز
ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ ایسی کون سی نماز ہے جو فقہ کے اعتبار سے ادا ہوجاتی ہے مگر اس کا پڑھنے والا جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ وہ نماز جو ریا اور دکھاوے کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ، پھرسورہ ماعون کی تین آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ ”تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کیلئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں“۔ امام حمید الدین فراہی نے ایمان کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ہمارے نزدیک ایمان کا یہ مسئلہ بالکل علاحدہ نوعیت رکھتا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ نے اس مسئلہ کو بالکل اس نگاہ سے دیکھا ہے جس نگاہ سے ایک قاضی و فقیہ ان مسائل کو دیکھتا ہے یا جس نگاہ سے امیر اسلام وراثت و نکاح اور خراج و جزیہ وغیرہ کے معاملات اور سیاسی مسائل کے فیصلے کرتا ہے۔ یہ قانون و سیاست کی نگاہ ہے جو حکمت و فلسفہ کی نگاہ سے بالکل مختلف ہے، اس اعتبار سے ہر وہ شخص مومن ہوگا جو اقرار کرے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں سے ہے یا جو مسلمانوں کے شعار اور ان کے ظاہر حالات میں بالکل ان کے طریقہ پر ہو۔ ایسے اشخاص کے متعلق یہی حکم لگایا جائے گا کہ یہ مسلمان ہیں۔ ان میں صادق و کاذب اور متقی و فاجر کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ اس قانونی ایمان پر سب برابر ہوں گے۔ اس میں کمی بیشی نہیں واقع ہوتی، کیونکہ قانون اور سیاست کی نگاہ خدا اور بندہ کے درمیان کے باطنی احوال و معاملات کی جستجو نہیں کیا کرتی۔ یہ معاملات صرف قیامت کے دن بے نقاب ہوں گے“۔
آگے وہ لکھتے ہیں کہ ”پس امام ابو حنیفہؒ نے اس بحث میں ایمان سے اس کے خاص مفہوم یعنی ایقان کو نہیں مراد لیا ہے بلکہ مجرد قرار و اظہار مراد لیا ہے، یعنی ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ ایمان قول و عمل دونوں کا نام ہے یا محض قول کا؟ یہ سوال نہ تھا کہ علم و عمل دونوں کا نام ہے یا محض علم کا۔ اگر سوال موخر الذکر صورت میں ہوتا تو اس کا جواب محض ایک ہی ہوتا ؛ کیونکہ اس بارے میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ ایمان علم و عمل دونوں چیزوں کا مجموعہ ہے۔
اب غور کرو اس بارے میں کہ ایک جج کا نقطہ¿ نگاہ کیا ہونا چاہئے؟ ظاہر ہے کہ وہ ایمان کو صرف قول کے معنی میں لے گا اور وہ ایسا کرنے میں ہر گز کوئی غلطی نہیں کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ قول کسی کمی بیشی کا محل نہیں ہوسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک قاضی کی نظر میں ایمان سے صرف وہ ایمان مراد ہوتا ہے جو ہماری عدالتوں میں احکام قضا کے اجرءو نفاذ کی بنیاد بن سکے۔ اس کو ایمان کی حقیقت، اس کے اجزاءترکیبی اور اس کی ظاہری و باطنی خصوصیات سے کوئی بحث نہیں ہواکرتی۔ اب اگر قرآن ایمان کی کمی اور زیادتی کی تصریح کرتا ہے تو اس تصریح کا اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک بالکل دوسری چیز ہے اور قرآن اس سے ایک بالکل ہی مختلف بات کہتا ہے۔ بلا شبہ قرآن سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایقان و عمل دونوں ہر حالت میں یکساں نہیں رہتے بلکہ ان میں مختلف حالات کے ماتحت تغیر و تفاوت ہوتا رہتا ہے۔ یہ کبھی کم ہوتے ہیں کبھی زیادہ۔ عقل سلیم اس صداقت کی تائید کرتی ہے“۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی ایک مشہور اور بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ”خطبات“ میں ایمان کی حقیقت پر تفصیل سے روشنی ڈالی تو بہت سے مفتیانِ دین کو پسند نہیں آئی۔ ایسا لگا کہ جیسے ”فقہی ایمان‘ ’فقہی مسلمان“ تک ہی ان کی نظر جاسکتی ہے۔ حکمت اور فلسفے تک ان کی پہنچ یا رسائی نہیں ہوسکتی۔ بہت سے علماءاور بہت سے مفتیان دین کی روش اور تقریروں سے عام مسلمانوں میں بھی یہ بات سرایت کرچکی ہے کہ وہ ہر حال میں مسلمان ہےں، خواہ وہ کچھ بھی کریں۔ حالانکہ مسلمانوں کیلئے یہ چیز صریحاً نقصان دہ ہے۔ اس سے غیر مسلم اسلام اور مسلمانوں سے بدظن ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اسلام کے بجائے مسلمانوں کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ مسلمانوںمیں جو کچھ دکھائی دیتا ہے اسی کو وہ اسلام سمجھتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں میں جو بین فرق اب نظر آتا ہے وہ کسی طرح ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان اس طرح کی رَوِش رکھنے کی وجہ سے دنیا میں تو اس کا کام کچھ نہ کچھ چل جاتا ہے لیکن وہ آخرت میں خالی ہاتھ جاتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’خطبات‘ کے دیباچہ¿ طبع ہشتم میں رقمطراز ہیں : ”میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر 1940ءمیں شائع ہوا تھا۔ نومبر 1951ءتک گیارہ سال کی مدت میں اس کے سات ایڈیشن تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے اور اس پوری مدت میں کسی کو اس کے اندر کوئی فتنہ نظر نہ آیا، مگر جب علماءکرام کسی وجہ سے (جس کا علم یا اللہ کو ہے یا خود ان کو) مجھ سے اور جماعت اسلامی سے ناراض ہوگئے تو میری دوسری کتابوں کی طرح اس کتاب میں سے بھی ان کی نگاہِ فتنہ جو نے کچھ فتنے ڈھونڈ نکالے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مفتی صاحبان نے خود پوری کتاب پڑھ کر دیکھی تھی یا کسی کو محض اس خدمت پر مامور فرما دیا تھا کہ اس کو پڑھ کر کچھ ایسے فقرے نکال دے جن پر فتویٰ جڑا جاسکے۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، ان کی نگاہ پوری کتاب میں سے صرف چند فقروں پر جاکر ٹھیری جو انیسویں اور پچیسویں خطبے میں ان کو ملے۔
انیسویں خطبے یہ فقرے ان کی توجہات کے ہدف بنے ہیں:
”اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰة کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بیکار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا“۔ (ص:176)
”ان دو ارکانِ اسلام (یعنی نماز و زکوٰة) جو لوگ رو گردارنی کریں ان کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے“۔ (ص:180)
”قرآن کی رو سے کلمہ¿ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰة کا پابند نہ ہو“۔ (ص:183)
اور پچیسویں خطبے کے یہ فقرے انھوں نے فتویٰ لگانے کیلئے چھانٹے ہیں:
”رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں ، کعبہ¿ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور وہ قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے“۔ (ص:245)
ان عبارات پر یہ فتویٰ لگایا گیا ہے کہ میں خارجی اور معتزلی ہوں، مسلک اہل سنت کے خلاف، اعمال کو جزوِ ایمان قرار دیتا ہوں اور بے عمل مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہوں۔
حیرت یہ ہے کہ ان فقروں سے متصل ہی دوسرے فقرے موجود تھے جن سے نہ صرف میرے اصل مدعا کی توضیح ہوتی تھی بلکہ اس الزام کا جواب بھی ان سے مل سکتا تھا، مگر مفتی صاحبان کی ان پر یا تو نگاہ نہ پڑی یا مفید مطلب نہ ہونے کی وجہ سے قصداً انھوں نے ان کو نظر انداز کردیا۔ مثلاً پہلے فقرے کو اوپر کے فقرے سے ملاکر پڑھئے تو پوری عبارت یوں بنے گی:
”یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے؛ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسول کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰة کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بیکار ہیں۔ کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا“۔
اسی طرح آخری فقرے سے پہلے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حدیثیں اور حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی نقل کیا تھا جو میرے بیان کی توثیق کررہا تھا مگر نگاہ انتخاب اس پوری عبارت کو چھوڑ گئی۔ یہ کرتب ہیں ان زبرگوں کے جو ہمارے ہاں علم دین کے معلم اور تزکیہ نفس کے ماہر بنے ہوئے ہیں۔
پھر اسی کتاب میں امیرا ایک پورا خطبہ اس موضوع پر موجود ہے کہ میں اس کتاب میں دراصل کس اسلام و ایمان سے بحث کر رہا ہوں (ملاحظہ ہو خطبہ نمبر 9)۔ اس میں میں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ ایک تو ہے وہ قانونی اسلام جس سے فقیہ اور متکلم بحث کرتے ہیں، جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اس کی آخری سرحد کو پار نہ کر جائے اس کو خارج از ملت ٹھیرا کر ان تمدنی و معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا جو اسلام نے مسلمانوں کو دیئے ہیں۔ دوسرا وہ حقیقی اسلام و ایمان ہے جس پر آخرت میں آدمی کے ایمان یا نفاق یا کفر کا فیصلہ ہوگا۔ میں نے ان دونوں کا فرق واضح کرتے ہوئے اس خطبے میں یہ بتایا ہے کہ انبیاؑءکی دعوت کا اصل مقصود صرف پہلی قسم کے مسلمان بنا بناکر چھوڑ دینا نہ تھا، بلکہ ان کے اندر وہ حقیقی ایمان پیدا کرنا تھا جس میں اخلاص اور اطاعت اور فدائیت کی روح پائی جاتی ہو۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف اسلام پر قانع نہ ہوجاو¿ جس کی آخری سرحد پار کرنے سے پہلے کوئی مفتی تمہیں کافر نہ کہہ سکے؛ بلکہ اس اسلام و ایمان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر کرو جس سے خدا کے ہاں تم واقعی ایک مخلص اور وفادار مومن قرار پاسکو۔ میری یہ ساری بحث اگر مفتی صاحبان پڑھ لیتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ کتاب میں نے در اصل کس غرض کیلئے لکھی ہے اور پھر اس کتاب کا ایک ایک لفظ شہادت دیتا کہ اول سے لے کر آخر تک اس کے سارے خطبوں میں یہی غرض میرے پیش نظر رہی ہے، مگر مفتیوں کو اس سے کیا بحث کہ کتاب اور اس کے مصنف کا مدعا کیا ہے۔ ان کو تلاش ایسے فقروں کی تھی جنھیں سیاق و سباق سے الگ کرکے ایک فتویٰ لگایا جاسکے۔ ان کیلئے فتویٰ ایک دینی حکم نہیں ہے جسے لگانے کیلئے تحقیق کی ضرورت ہو بلکہ ایک لٹھ ہے جس کو لوگوں سے ذاتی رنجشوں کا بخار نکالنے کیلئے وہ جب ضرورت محسوس کرتے ہیں استعمال کرلیتے ہیں۔
جس شخص کو علم سے کچھ بھی مس ہو اسے کسی کتاب کی کسی عبارت کا مطلب مشخّص کرنے سے پہلے کتاب کے موضوع کو سمجھنا چاہئے۔ یہ کتاب فقہ یا علم کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔ اس میں مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مُرتد یا خارج از ملت قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصود خدا کے بندوں کو فرماں برداری پر اکسانا، نافرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعة کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک تاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روز، حج، زکوٰة سب زوائد ہیں تم ان سب کو چھوڑ کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو؟“
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں