سچ بول دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میم ضاد فضلی
بابری مسجد اراضی قضیہ اور رام مندر کے تعلق سے عدالت عظمیٰ میں سماعتیں جاری ہیں، اس دوران خصوصی بنچ نے یہ اعلان بھی کررکھا ہے کہ بہر حال 17 اکتوبر یعنی موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا کے سبکدوش ہونے سے قبل ہی مقدمہ کی سماعت مکمل کرلی جائے گی اوراس کے بعد جلدہی حتمی اور نتیجہ خیز فیصلہ آجائے گا۔ ایسے حالات میں جب اس مقدمہ پر ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں، صورت حال کا جائزہ لینے کے عنوان سے کسی بھی قسم کی میٹنگ یا اجلاس عامة المسلمین کے ذہن میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ بہ ایں صورت جب اسی مقدمہ کے ایک دوسرے مدعی مولانا ارشد مدنی براہ راست آر ایس ایس سربراہ کے مسلسل رابطے میں ہیںاور کسی بھی ہدف کی تکمیل کیلئے آر ایس ایس کی منصوبہ بندی کتنی منظم اور رازدارانہ ہوتی ہے یہ کسی بھی فرد بشر
سے مخفی نہیں ہے۔اسی کے ہمراہ موجودہ مرکزی حکومت کی زمام کار بالواسطہ طور پر ناگپور ہیڈ کوارٹر سے مربوط ہے اور حکومت مسلمانوں اور ان کے شعائر سے کس درجہ متنفر ہے اور مسلم ورثہ کو سبوتاژ کرنے کے کیاکیا جتن کررہی ہے یہ بات بھی اب صیغہ راز نہیں رہ سکی ہے۔چناں چہ مسلمانوں کی وراثت کجا یہاں تو مسلمانوں کے وجود پر ہی تلوار چلانے کی سازش ریاستی سرپرستی میں چل رہی ہے۔ بھاجپائی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ کرگزرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کا اشارہ دوہفتہ قبل وزیر داخلہ اورمتعدد مسلمانوں کے پولیس مڈبھیڑ میں ہلاک کرانے کے الزمات میں ملوث فائر برانڈ بھگوا لیڈر امت شاہ نے مغربی بنگال میں ایک خطاب کے دوران واضح کردیا تھا۔امت شاہ نے این آرسی معاملے میں ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی اور کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام مذاہب کے ماننے والو ں کے اضطراب پر ہمدردی کا مرہم رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جلد ہی مرکز میں ایک ایسا قانون بنائیں گے جو غیر ممالک سے آ کر ہندوستان میں ناجائز طریقے سے پناہ لے چکے غیر مسلموں کو یہاں کی شہریت دینے کی راہ آسان کرتا ہو، اس کے علاوہ جو بھی بچے ہوں گے وہ سب گھس پیٹھئے ہوں گے، جنہیں ناجائز درانداز قرار دے کر ڈیٹینشن سینٹرز میں منتقل کردیا جائے گا اور ان سے ایک معزز ہندوستانی شہری ہونے کے تمام حقوق چھین لئے جائیں گے۔میں جو کچھ بیان کررہا ہوں وہ کوئی حالت جنوں میں نکلنے والی صدائے بے سمت نہیں ہے، بلکہ پورے ہوش و حواس میں یہ بتانے کی جسارت کررہا ہوں کہ مسلمانوں کےخلاف یرقانی حکومت کے ارادے انتہائی بھیانک اور شیطانی ہیں۔ اس میں بھی ریب و تشکیک نہیں کہ حکومت ہند کے میرانِ کارواں اقلیتوں کیخلاف جو کچھ بک رہے ہیں وہ سب کر گزرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے ، تاآں کہ یہ منحوس قوتیں ملک میں منو اسمرتی جیسے عقل سے پیدل دیومالائی قصوں کہانیوں سے عبارت مجمو عہ قانون کو نافذ نہ کردیں، جو اتنا بھی آسان نہیں جتناکہ یہ عناصر بک رہے ہیں، البتہ اکثریت و اقلیت کے درمیان نفرت کی دیوار اس نوعیت بیانات سے دبیز ہوگی اور رام کے نام پر ہندو¿ں کو بآسانی ٹھگا بھی جاسکتا ہے ،اس کے کئی تجربات و مشاہدات امت شاہ اور مودی نے کر رکھے ہیں، لہذا ان کی ہفوات کو سیاسی اسٹنٹ ضرور کہا جاسکتا ہے ۔مگر ملک دوست حکمراں کی صدائے دل گداز اسے قطعی نہیں کہا جاسکتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے جمہوری آئین کی بالادستی کی دہائی دینے والی حکومت دن کے اجالے میں آئین کو اپنے پیروں تلے روند رہی ہے۔ اس کی درجنوں مثالیں دنیا کے سامنے ہیں ، یہاں انصاف کی گہار لگانے والوں پر انتظامیہ سے تلواریں چلوائی جاتی ہیں، ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب ان اننچاس امن پسندوں کیخلاف بہ حکم ِ عدالت ایف آئی آرکروادی گئی تھی جنہوں نے گزشتہ چھ برسوں سے ملک بھرمیں بھگوا دہشت گردوں کے ہاتھوں سرانجام دی جارہی ہجومی دہشت گردی کی جانب حکومت کو متوجہ کرنے کیلئے پی ایم او کو مکتوب لکھے تھے۔ کیا یہ حق اظہار رائے یا آئین میں بخشے گئے انصاف کیلئے آواز اٹھانے کے حق کو چھین لینے کی بے حیا کوشش نہیں ہے؟
مگر مملکت ہند میں اس وقت یرقانی قوتیں اقتدار پر قابض ہیں اور ان کے دورِ حکمرانی میں سب کچھ جائز ہے۔ یہ جو بھی کریں وہ سب عین قانون کے مطابق ہوگا، مگر ان کی سیاہ حرکتوں پر لب کشائی کرنے والے قابل گردن زدنی قرار دیے جائیں گے اور ان کی زباں بندی کی کوششیں تیز تر کردی جائیں گی۔ مجھے یاد آتا ہے گزشتہ سال ایک دلت خاتون رہنما ساوتری بائی پھولے نے یرقانی خیمہ کو طلاق دینے کے بعد موقر صحافتی ادارہ این ڈی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا مرتب کردہ جمہوری قانون نافذ نہیں ہے، بلکہ درپردہ منو اسمرتی جیسا کالا قانون رائج ہے۔ لہذا اب یہ خیال خام ذہنوں سے نکال دیا جائے کہ مسلمانوں کو کہیں سے بھی عدل وانصاف کی توقع رکھنی چاہئے،المیہ یہ ہے کہ اپنے نظریات اور کوتاہ فکری کو ملک پر مسلط کرنے کیلئے حکومت نے ان تمام خود مختار اداروں پر اپنے خونیں پنجے گاڑ دیے ہیں جنہیں غیرجا نبدارانہ کام کرنے اور نا انصافیوں کےخلاف آزادانہ فیصلے لینے کا اختیار حاصل تھا۔
چناں چہ سی وی سی، سی آئی سی ، سی اے جی ، ای سی اور سپریم کورٹ کے کولیجیم کو کچلنے کے سبھی بیہودہ اقدامات کو دنیا گزشتہ چھ برسوں سے مستقل دیکھتی آ رہی ہے۔مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ اب جو فیصلے ہوں گے وہ توقع کے برخلاف بھی ہوسکتے ہیں اور اسی صورت حال کو قابو میں رکھنے کیلئے مسلم فریق کی جانب سے شاید یہ میٹنگیں منعقد کی جارہی ہیں۔اس شک کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی مخلص قیادت موجود نہیں ہے جس کوملت اسلامیہ کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو، لہذا ندوة العلماءمیں منعقدہ میٹنگ پر سوال اٹھنے بدیہی ہیں ،جو قائدین اس میٹنگ میں شامل ہیں ان کی اکثریت بابری مسجد قضیہ کے نام پر خوب خوب فیضیاب ہوئی ہے، کسی کو وزارت ملی، کسی کو مایہ و دولت تو کسی کے حصے میں بے دریغ سربلندی و شہرت آئی۔ اگراس طویل محاذ جنگ میں ابھی تک کوئی پسپا نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف بابری مسجد اور اس کی بہیمانہ شہادت کے بعد ملک گیر سطح پر پھوٹ پڑنے والے منظم فرقہ فسادات کی بھٹی میں جل کر تہ ِ خاک ہوجانے والے شہیدوں کے پسماندگان ہیں، جن میں کسی کو کم سنی میں یتیمی کا کر ب میسر آیا تو کسی نئی نویلی سہاگن کی مانگ ہمیشہ کیلئے سونی پڑگئی اور کھنکھناتے کنگن سے مسحور ہاتھ بیوگی کے نشتر سے صدا کیلئے چھلنی کردیے گئے۔کسی بزرگ کے بڑھاپے کی لاٹھی چھن گئی تو کسی ابھاگن ماں کا لخت جگراس کی گود سونی کرکے موت کی ابدی نیند سوگیا۔ لہذا بابری مسجد کا درد کس قدر شدید ہوسکتا ہے یہ ان فرزانہ تقدیر کے خاندانوں سے معلوم کیجئے جن کا کوئی سگا بابری مسجد کے نام پر شہر خموشاں میں سلادیا گیاہے۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے مختلف حصوں اور ریاستوں میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی میں لگ بھگ دوہزار مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اگر بات شروع کی جائے 1853ایودھیا فرقہ ورانہ فسادات سے جو دراصل اسی بابری مسجد تنازع کاہی شاخشانہ تھا تواس وقت سے 2002کے گجرات مسلم کش فسادات تک شہید کئے گئے مسلمانوں کی تعداد پچاس ہزار بھی سے تجاوز کرجائے گی۔ قصہ مختصر یہ کہ اتنی ساری خونریزیوں اور طویل ترین گفت و شنید کے باوجود جب یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے پیچیدہ ہوتا چلا گیا تو آج اس قضیہ سے متعلق کوئی بھی میٹنگ ، یا نشست وبرخاست کو مثبت کیسے مانا جائے گا اور اپنے قائدین کے ہاتھوں ہمیشہ فریب کا شکار بنائے گئے مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ کیوں کر نہ ہو گا ۔لکھنو¿ میں جو میٹنگ ہوئی ہے اس سے تو اسی اندیشے کو تقویت مل رہی ہے کہ ہو نہ ہو اس کے پیچھے مسلم عوام کو چھلنے کی کوئی سازش کار فرما ہے۔یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ وقت بڑے سے بڑے شاہینوں اور کھلاڑیوں کو بے نقاب کردیتا ہے ، ظلم کی سیاہ شب میںآر ایس ایس سے سرگوشی کرنے اور پینگیں بڑھانے والے عناصر کو مشیت خداوندی نے بارہا جگ ظاہر کیا ہے اور ان کی ترکیبیں ناکارہ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ اسی سرزمین تہذیب لکھنوکی شاعرہ نکہت نسیم کے بقول
بس احترام میں پنجرے کے پر سمیٹے ہوں
جو پر پساردوں پنجرے کی تیلیاں اڑجائیں
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں