مفتی احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی
نئی دہلی، انڈیا
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپناقرب ،اپنی رضا حاصل کرنے اورزندگی کو روحانیت سے معمور کرنے کے لیے عبادات کے احکامات بھی دیے ہیں ۔اوردینی تقاضوں کو پورا کرنے کامکلف بھی بنایاہے۔اگر انسان کی زندگی اطاعت الہی اور روحانیت سے خالی ہوجائے تو بے کیف وبے نورہوجاتی ہے اوراپنے خالق ومالک کی اطاعت سے آراستہ ہوتی ہے تو پرکیف بھی ہوتی ہے اور پرسکون بھی ہوتی ہے ۔ اور اپنی زندگی کےحقیقی لطف کو پانے والا انسان ہیفکام یاب کہلاتاہے۔یہی وہ رازہے جو عبادت واحکام اوررب کی فرمابرداری میں پنہاں ہے۔اور اسی بات کو آیت قرآنی :”واعبدواربکم وافعلواالخیر لعلکم تفلحون“(سورہ حج 77)اورقران کی 40 دیگر آیتوں میں صرف فلاح یابی کےعنوان سے بیان کیاگیاہے۔(کہ اپنے رب کی عبادت اورنیک کام کواپناشعار بنالو فلاح پاجاؤگے)۔اورقرآن میں 29 مقامات پر”فائز ون“[کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے]۔
242.آیات میں تقوی شعاری اورخوف خدا کے ذریعہ اپنے دل کی دنیاکو سنوارنے کی تاکیدکی گئی ہے اور جو اس دولت کو پالیتاہے اسے متقین کہا گیا ہے ۔اسی طرح دوسروں کے حقوق کی رعایت اورانصاف کرنے والوں کو ”مقسطین“۔۔اللہ کی طرف لولگائے رکھنے والوں کومنیبین۔۔رب کے پیغام پر لبیک کہنے والوں کو۔مؤمنین۔حق پرستوں کو صادقین۔ وفاشعاروں کو عاھدین۔اپنی غل
طی پرنادم وشرمسارہونے والوں کو توابین۔اللہ کے حدود کےپاسداروں کوحافظین۔اپنے خالق کےحاضروناظر ہونےکے احساس کے ساتھ ڈرنے والوں کو خاشعین۔ ایسے ہی راکعین ، ساجدین،سائحین،آمرین بالعروف ناھین عن المنکر اوران ساری صفات کے حاملین کو عابدین و زاہدین کے خوب صورت القاب سے رب ذوالجلال والاکرام نے نوازاہے۔{ان تمام میں الف اور ت لگادیں۔اللہ کی تمام نیک مائیں بہنیں بھی شامل ہیں )
ان تمام خصلتوں کوپانے والا ایک کامل انسان بنتا ہے۔اس کے لیے رب نے بہت سی عبادات کو رات ودن کی گردش سے جوڑاہے۔دن کے اجالے اور راتوں کے سناٹے کو بھی یہ فضیلت بخشی ہے ۔’’أقم الصلوۃ لدلوک الشمس إلی غسق اللیل وقرآن الفجر ضإن قرآن الفجرکان مشھودا ض ومن اللیل فتھجد بہ و نافلۃ لک ۔۔۔الخ۔“(سورہ اسرا ٕ٧٨۔۔٧٩)
ایام اور مہینوں کو بھی اورالگ الگ اوقات کوبھی۔جن میں بندہ بطور خاص رب کی عبادت کے ذریعہ اس روحانی مقام کوپاسکتاہے۔بعض کو لازم قرار دیا اور بعض کو صرف اہمیت بتاکر اپنے بندوں کی بشری کمزوریوں پہ ترس کھاتے ہوئے ان کی مرضی اوراختیار پہ چھوڑ دیا ۔میری بھلائی اورمیری ہی مرضی۔۔ذراغورتوکیجیے کہ وہ کتنارحیم وکریم ہے۔۔”إن ربکم لر ؤف رحیم“(سورہ۔نحل۔٧)
انھیں بابرکت اور باسعادت ایام میں عشرہ ذی الحجہ،عشرہ آغاز حج اورعرفہ ہے۔جس کی عظمت واہمیت ہمارے سامنے قسم کھا کر اللہ تعالی اجاگرکررہاہے۔”والفجر ولیال عشرضوالشفع والوترضواللیل إذا یسرضھل فی ذلک قسم اللذی حجر“(سورہ الفجر۔١۔۔٧)۔۔۔۔
اب عشرہ ذی الحجہ میں تین طرح کی بدنی عبادات کے ذریعہ اس فضیلت کو پایاجاسکتاہے۔
نمبر ١۔۔دس تاریخ تک روزہ کااہتمام کرنا۔
نمبر۔٢۔رات کو نوافل اورتہجد کا اہتمام کرنا۔
نمبر۔٣۔حسب توفیق تلاوت قرآن میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا۔
نمبر۔٤۔بطورخاص یوم عرفہ کا روزہ رکھنا،اس کے بعد قربانی کے ایام، تشریق ونحر شروع ہوجائیں گے ۔جن میں بخاری کی روایت کے مطابق اللہ تعالی کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ جانور قربان کرنے کاعمل محبوب ہے۔ اس لیے ۔اس کی کوشش حتی المقدور کرنی چاہیے ۔اس میں کسی قسم کی کوتاہی روارکھنا درست نہیں ہے ۔’’قدافلح من تزکیضوذکراسم ربہ فصلیضبل تؤثرون الحیاۃ الدنیاضوالآخرۃ خیروأبقی۔“ (سورہ اعلی)
یہاں تزکیہ کا مفہوم یہ ہے کہ اعلی درجہ کا تزکیہ تو یہ ہے کہ انسان کفروشرک چھوڑکر ایمان لے آیے اوراپنے قلب کو شرک کی نجاست سے پاک کرلے۔ اس کے بعد مزید صاف ستھرے انسان کے سانچے میں خودکو ڈھالنے کے لیے۔اگر برے اورناشائستہ حرکتوں کا عادی ہے تو انہیں ترک کرکے اچھے اخلاق کاعادی بن جائے۔ اوربرے اعمال چھوڑکر اچھے اعمال کرنے لگے۔اورفلاح پاجانے کامطلب ہے دنیا اورآخرت دونوں میں دینی لحاظ سے کامیاب ہونا۔
اس مقام کو پانے کے لیے اللہ تعالی نے عبإدات واحکام کا۔فرائض و واجبات اور سنن و نوافل کا مکلف بندوں کوبنایا ہے ۔اگر ان کی پابندی بندہ کرے گاتو تزکیہ کے مطلوبہ مقام کو مکمل طریقے پر پانے والا ہوجائے گا،ورنہ بس ادنی درجہ کا انسان ہی ہوکر رہ جا ئے گا۔
عرفہ کاروزہ اورتکبیر تشریق۔
عشرہ ذی الحجہ میں ایک محبوب اور پسندیدہ عمل عرفہ کاروزہ ہے ۔یہ روزہ اپنی فضیلت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس نے عرفہ کاروزہ رکھا ۔گویا اس نے پورے سال روزہ رکھا۔اور اس کے نامۂ اعمال سے اس ایک روزہ کی وجہ سے پچھلے ایک سال کی خطا مٹادی جائے گی اور اگلے ایک سال تک ثواب ملتارہے گا ۔چنانچہ ترمذی شریف میں نبی کریم ﷺ سے مروی الفاظ ہیں :”أن النبی ﷺ قال:صیام یوم عرفۃ إنی أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی بعدہ والسنۃ التی قبلہ“(ترمذی کتاب الصوم ۔باب فی فضل الصوم یوم عرفۃ)۔اس کے علاوہ پورے ابتدائی عشرہ میں روزہ کا اہتمام کرناچاہیے۔
اب عرفہ کا دن ہی تکبیر تشریق کی ابتدا ٕ کا دن ہے اور راجح قول کے مطابق عرفہ کی فجر سے ہے۔اور اس کے بعد ١٣ ذی الحجہ کی عصر کی نماز کے بعد اختتام پذیر ہوجاتاہے۔ اس کی مشروعیت اور وجوب کی واضح دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:’’واذکروااللہ فی أیام معدودات‘‘ (سورہ بقرہ آیت۔٢٠٣)مفسر قران حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اس آیت میں مذکور’’أیام معدودات‘‘سے مراد ایام تشریق بیان کیاہے۔اور علماء کا ایام تشریق میں تکبیر کےعمل کے صحابہ تابعین اور سلف سے آج تک معمول بہ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ۔البتہ اس واجب عمل کو سنت سے بھی تعبیر کیاگیا ہے’’فالصحیح أنہ واجب وقد سماہ الکرخی سنۃ ثم فسرہ بالواجب۔فقال :تکبیر التشریق سنۃ ماضیۃ ،نقلھا أھل العلم۔ وأجمعوا علی العمل بھا ۔واطلاق اسم السنۃ علی الواجب جائز ۔۔۔ودلیل الوجوب قولہ تعالی:’’واذکروا اللہ فی أیام معدودات‘‘۔اورحدیث میں مذکور’’روی عن النبی ﷺ أنہ قال:ما من أیام أحب إلی اللہ تعالی العمل فیھن من ھذہ الایام۔فأکثروا فیھا من التکبیر والتھلیل والتسبیح‘‘سے واجب ہونے پراستدلال کیاہے۔نیز یہ پہلو بھی یہاں پیش نظر رہنا چاہیے کہ ایام تشریق میں تکبیر صرف حاجیوں کے لیے نہیں ہے ۔جیساکہ بعض حضرات خیال کرتے ہیں اور لوگوں کو اس سے روکتے ہیں ،بل کہ حاجی،غیر حاجی شہری، دیہاتی،جماعت اور بغیر جماعت فرض نماز اداکرنے والوں کے لیے ہےاور بآواز بلند ہے ۔البتہ خواتین اگر مساجد میں امام مسجد کے پیچھے با جماعت نماز ادا کررہی ہوں تو ان پر واجب ہے ورنہ نہیں۔۔اس پر بھی ابن عربی نے اجماع نقل کیاہے۔’’قدأجمع فقھا ٕ الأمصار والمشاھیر من الصحابۃ والتابعین رضی اللہ عنھم علی ان المراد بہ التکبیر لکل واحد۔۔۔۔۔۔وقد ذکرنا فی المتن عن علی وعمر وبن عباس وابن مسعود بأسانید صحاح أنھم کبروا من غداۃ عرفۃ إلی آخر أیام التشریق ۔وھذا یؤید حکایۃ الاجماع (دیکھیے اعلا ٕ السنن۔علامہ ظفراحمد تھانوی جلد ٨ ص١٤٨۔۔١٤٩۔نیز ص ١٥٢۔نیز حدیث کے نمبرات:٢١٤٣۔٢١٤٤۔٢١٤٥۔٢١٤٦۔٢١٤٧۔٢١٤٨٢١٤٩۔)
مرحومین کی طرف سے قربانی:
اس بارے میں حنفیہ،مالکیہ۔اور حنابلہ کے یہاں مرحومین کی طرف سے قربانی جائز اور درست ہے ۔اس میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ خود نبیﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے ایک قربانی اپنی پوری امت کی طرف سے دی اور امت میں زندہ مردہ سب شامل ہیں۔۔”وقد صح أن رسول ﷺ۔ضحی بکبشین أحدھما عن نفسہ۔والآخر عمن لم یضح من أمتہ۔“(بیہقی۔جلد٩ ص٢٦٧ ۔ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔)۔نیز صحابہ کا عمل بھی خاص کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کارہاہے ۔انھوں نے حضور ﷺ کے وصال کے بعد ان کی طرف سے قربانی کاعمل جاری رکھا۔البتہ شافعیہ میت کی طرف سے قربانی کے جائز ہونے کے لیے میت کی وصیت یاوقف کو لازم قرار دیتے ہیں ۔گویا ان کے یہاں بھی میت کی طرف سے جائز ہے ۔اگرچہ وصیت کی قید کے ساتھ ہے۔لہذا یہ موقف ائمہ اربعہ کا ہے، میت کی طرف سے بھی قربانی مباح ہے۔(دیکھیے۔موسوعہ۔جلد٥۔ص١٧٦)
بھینس کی قربانی:
ہرسال جب قربانی کے ایام آتے ہیں تو یہ سوال کھڑا ہوجاتا ہے یا اسے ہوادینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھینس چونکہ دور نبوی میں نہیں تھی۔ اس لیے اس کی قربانی درست نہیں ہے ۔
یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ بھینس بھی اہلی جانور ہے ۔اور بقر کی ہی ایک کالی نسل ہے ۔ جسے عربی میں’’جاموس‘‘ کہاجاتاہے اور یہ” گاومیش“ کا معرب ہے ۔اس بات کو تمام اہل لغت بھی مانتے ہیں اور عربوں کاعمل بھی ہے۔چنانچہ بہت سے عرب حضرات جو قربانی کے دنوں میں بھارت میں رک جاتے ہیں وہ بھینس کی ہی قربانی کرتے ہیں ۔ظاہرہے وہ قربانی کرتے ہیں کوئی تفریحی عمل تو نہیں کرتے۔۔لہذااب امت کا یہ اجماعی عمل قرار پاچکاہے ۔اور بھیس کو پالتو گایوں اور اہلی جانور تسلیم کیاجاتاہے ۔اس لیے ۔اس میں کسی تردد اوراختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔اور بھینس کی قربانی جائزودرست ہے۔(موسوعہ۔ج۔٥۔ص١٤٤۔)۔اللہ تعالی امت کی قربانی قبول فرمائے ۔آسانی کامعاملہ فرمائے ۔رکاوٹ کو دور کرے ۔اس مبارک لمحہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرما ئے ۔’’ومن یعظم شعائراللہ فإنھامن تقوی القلوب‘‘ ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں