قسط نمبر (22)
تصنیف:
مرد کی طرح عورت کا بھی احرام ہوتا ہے ، بس فرق اتنا ہے کہ مرد کو سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر ڈھانکنا ناجائز ہے ۔ اور عورت کو سلا ہوا کپڑا پہننا اور سرچھپانا واجب ہے اور چہرہ کا چھپانا ناجائز ہے۔
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ قالَ: اِنَّ اِحرامَ الرَّجُلِ فی رأسِہِ و اِحرامَ المرأۃِ فی وجھِھا۔ (رواہ الدارقطنی والبیھقی)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مرد کا احرام اس کے سر میں ہے اور عورت کا احرام اس کے چہرے میں ، یعنی مرد سر نہ چھپائے اور عورت چہرہ نہ چھپائے۔
عورت کو چاہیے کہ احرام کی حالت میں چھوٹا سا رومال سر میں باندھ لے تاکہ سر نہ کھلے جس کا چھپانا عورت پر واجب ہے۔ اگر غیر محرم کا اس کے پاس سے گذر ہو تو چہرہ کو اس طرح سے چھپائے کہ منھ پر کپڑا نہ لگنے پائے۔
عن عائشۃَؓ قالتْ: کانَ یَمُرُّونَ بِنا و نحنُ معَ رسولِ اللّٰہِ ﷺ محرمات، فاذا جاوزوا بِنا سَدَلتْ اِحدانا جِلبابِھا مِنْ رأسِھا علیٰ وجْھِھَا فاِذا جاوزونا کَشَفْنَا۔ (رواہ ابو داود)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ لوگ ہمارے پاس سے گذرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام میں تھے تو جب لوگوں کا گذر ہمارے پاس سے ہوتا تو ہم میں سے ایک اپنی چادر کو سر سے چہرہ پر لے آتے ۔ پھر جب آگے بڑھ جاتے تو چہرہ کو کھول دیتے۔
اور بخاری کی روایت میں ہے :
وَلاتنتَقِبُ المرأۃُ الْمحرمۃَ
احرام والی عورت نقاب نہ لگائے۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ برقع وغیرہ اس طرح نہ لگائے کہ منھ پر کپڑا لگے ۔ عورت کو اجنبی مرد کے سامنے بے پردہ ہونا منع ہے ، اس لیے کوئی ایسی چیز پیشانی کے اوپر اس طرح لگاکر کپڑا ڈالے کہ کپڑا چہرہ کو نہ لگے۔
مسئلہ: عورت کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہننا جائز ہے ، خواہ رنگین ہو یا بلا رنگ؛ لیکن زعفران اور کسنبہ کا رنگا ہوا نہ ہو۔ اگر اس سے رنگا ہوا ہو تو اتنا دھو دے کہ اس کی خوشبو جاتی رہے۔
مسئلہ: عورت کو احرام میں زیور، موزے، دستانے پہننا جائز ہے اس لیے کہ یہ سلے ہوئے کپڑوں کے حکم میں ہے اور سلا ہوا کپڑا عورتوں کو پہننا جائز ہے ۔
عن سعد بن ابی وقاصٍ انہ کانَ یامر بناتِہِ بِلُبسِ القفازینِ فی الاحرام (رواہ الشافعی)
حضرت سعد بن وقاصؓ اپنی بیٹیوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے کا حکم دیتے تھے۔ لیکن نہ پہننا اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ
ولاتلبس القفازین
یعنی عورت دستانے نہ پہنے۔
مسئلہ: عورت کو تلبیہ زور سے پڑھنا منع ہے، اتنی آواز بلند کرے کہ خود کو سنائی دے۔
مسئلہ: عورت طواف میں نہ اضطباع کرے اور نہ رمل۔ یعنی نہ تو چادر داہنی بغل میں کو نکال کر بائیں کندھے پر ڈالے اور نہ سینہ نکال کر اکڑ کر چلے ۔ اور نہ سعی میں میلین اخضرین کے درمیان دوڑے؛ بلکہ اپنی چال سے چلے۔ ہجوم کے وقت صفا و مروہ پر بھی نہ چڑھے اور نہ ہجوم کے وقت حجر اسود کو چھوئے، نہ ہاتھ لگائے ، نہ بوسہ دے اور طواف کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم میں بھی نہ پڑھے؛ بلکہ جہاں میسر ہو ، وہیں پڑھے۔
مسئلہ: عورت کو بالوں کو منڈوانامنع ہے ، اس لیے احرام کھولتے وقت تمام بال کو پکڑ کر ایک انگلی سے کچھ زیادہ بال اپنے ہاتھ سے قینچی سے کاٹ ڈالے، تاکہ سر کے بالوں کا اکثر حصہ کٹ جائے۔
مسئلہ: حیض کی حالت میں عورت کو طواف کے علاوہ باقی تمام افعال کرنا جائز ہیں۔
عن عائشۃؓ قالت: خرجنا مع النبی ﷺ لانذکُرُ الا الحجَ، فلما کُنَّا بِسَرِفٍ طمثتُ فدخلَ النبی ﷺ و أنا ابکی، فقال: لعلکِ نفستِ؟ قلتُ: نعم، قال: فان ذالک شئی کتب اللّٰہُ علیٰ بناتِ اٰدمَ فافعلی ما یفعلُ الحاجُّ غیرَ أن لاتطوفی بالبیتِ حتّٰی تطھری۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم حج ہی کا ذکر کرتے تھے ، پس جب موضع سرف پہنچے تو مجھے حیض آگیا۔ میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں رو رہی تھی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شاید تم کو حیض آگیا ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر مقرر کردیا ہے ۔ سو جو حاجی کرتے ہیں وہ سب کرو ؛مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرو ، یہاں تک کہ پاک ہوجاؤ۔
اگر احرام سے پہلے حیض آجائے، تو غسل کرکے احرام باندھ لے جیسا کہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا : اور سب افعال کرے ؛ البتہ طواف اور سعی نہ کرے ۔ پاک ہونے کے بعد طواف اور سعی کرے، اس لیے کہ سعی بغیر طواف کے درست نہیں ہے؛ البتہ اگر طواف سے فارغ ہونے کے بعد حیض آیا تو اب سعی کرسکتی ہے۔
مسئلہ: حیض کی وجہ سے طواف زیارت اگر اپنے وقت سے متاخر ہوجائے تو دم واجب نہ ہوگا۔
مسئلہ: اگر واپسی کے وقت حیض آگیا اور طواف ووداع نہ کرسکی، تب بھی دم واجب نہ ہوگا۔
عن ابن عباسؓ قال: أمَرَ الناسَ أن یکونَ أخرعھدھم بالبیت الا انہ خفف عن المرأۃ الحائض (متفق علیہ)
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ لوگوں کو حکم دیا کہ ان کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو، مگر یہ کہ حائضہ عورت سے اس کی تخفیف ہوگی (بخاری ، مسلم)
یعنی حائضہ پر طواف وداع واجب نہیں اور باقی تمام آفاقیوں پر واجب ہے۔ بہتر ہے کہ حائضہ بھی پاک ہوکر طواف کرے۔
خنثیٰ مشکل یعنی جس کا مرد اور عورت ہونا معلوم نہ ہوتا ہو ، تمام احکام میں عورت کی طرح ہے ، اس کو کسی اجنبی مرد یا عورت کے ساتھ تنہائی جائز نہیں ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں