محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
علامہ اقبالؒ نے نیرنگی فطرت کا راز کھولتے ہوئے کہا ہے کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
فطرت کی بوقلمونی میں قوموں کی حالت بھی مستثنیٰ نہیں ہے، اس لیے ان کے عروج و زوال کی کہانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
ہر زمانے کے ارباب دانش و فکر نے اپنی قوم کے زوال کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوم کو ان سے واقف کرایا ہے۔ چنانچہ علامہ قبال اپنے دور میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی؛ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اِس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اُس کے معانی سے روشناس کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔ (وحدتِ امت، ص: 39۔40، ط: مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور 1985ء)
اب تک ملت اسلامیہ کے جن جن دانشوروں نے مسلم قوم کی حالت زار پر غور کیا ہے، مشترکہ طور پر ان سبھوں نے زوال کے اسباب بتانے کے ساتھ ساتھ اس کے انجام سے بھی باخبر کیاتھا؛ لیکن اس قوم کی غفلت کا تسلسل بتلاتا ہے کہ ہم نے ان مفکرین کی کسی بھی بات پر توجہ دے کر عملی اقدامات نہیں کیے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں کہ اب صرف ہم زوال پذیر نہیں؛ بلکہ دنیا کی سب سے ذلیل ترین قوم بن چکے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
حریم ملت اسلامیہ ہند، قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے ۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز سوموار دیوبندمیں منعقد جمعیۃ یوتھ کلب کے تعارفی و مظاہرہ پروگرام سے خطاب کے دوران پوری دنیا میں مسلمانوں کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا مقام ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں ہم ذلیل اور رسوا نہ ہوگئے ہوں۔ اگر بے عزتی کا نام لیا جائے تو ہمارے نام کے ساتھ لگ چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ احساس ختم ہوگیا ہے ۔ ہم خود اپنے منھ سے اپنی تعریف کرلیتے ہیں۔ اپنا جلسہ ہوتا ہے، اپنی مجلس ہوتی ہے ، اپنی تعریف کرنے والے اپنے ساتھی ہوتے ہیں، وہ قائد بھی بنادیتے ہیں، وہ امیر بھی بنا دیتے ہیں، فرما روا بھی بنادیتے ہیں؛ سب کچھ بنادیتے ہیں۔ لیکن سچائی اس سے بہت پرے ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ذلت و رسوائی ہم اپنے دامن میں لے کے گھوم رہے ہیں۔ بالکل گھوم رہے ہیں اور کہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور اپنے احوال کو اپنے حالات کو اپنے ایٹی ٹیوڈ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
یہ تو قوم کی بات ہے، قوم کے قائد کے بارے میں مولانا مدنی کہتے ہیں کہ
’’ لوگ نعرے لگاتے ہیں کہ قائد ملت فلاں فلاں فلاں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ بھیا قوم تو ذلیل ہورہی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ قائد ملت۔ جس قائد کی قوم ذلیل ہورہی ہو وہ قائد باعزت کیسے ہوسکتا ہے!۔ ‘‘
مفکرین ملت کے ان اقوال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندستانی سماج و حالات میں مسلمانوں کی حالت کا تجزیہ کیا جائے، تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ پہلے جہاں مسلمان ہونا عزت و افتخار کی بات ہوا کرتی تھی، آج مسلمان کہلانا اور دکھنا ذلت وخواری کا عنوان بن چکا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے بارے میں غیروں کا نظریہ نہیں؛ بلکہ مسلمان خود اپنی نگاہ میں ذلت و رسوائی محسوس کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم دو تین عملی نمونہ پیش کرتے ہیں:
(۱) مسلمان اپنے اکثریتی محلہ میں اسلامی تشخص و شعار کو کسی قدر اپناتے ہیں، لیکن جب اکثریتی طبقہ کے محلوں میں رہتے یا جاتے ہیں، تو اپنی شناخت چھپانے میں ہی عزت سمجھتے ہیں۔
(۲) عصری تعلیم گاہوں اور یونی ور سیٹیوں کا رخ کرنے والے ایسے افراد جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلامی لباس و شعار میں گذرتا ہے ؛ حتی کہ اس زندگی میں اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتے، لیکن اس ماحول سے نکلتے ہی دوسرے ماحول سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اثر پذیری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خود کو مسلمان دکھنے ، دکھانے اور کہلانے میں بھی شرم محسوس کرنے لگتے ہیں۔
(۳) یہ سچ ہے کہ اسلامی شعار و ہیئت اکثریتی طبقہ کے لیے اور پنڈت کے لباس و تشخص اقلیتی طبقہ کے لیے اجنبیت پیدا کرتے ہیں؛ لیکن محض اجنبیت کی بنیاد پر اپنے وجود سے شرم محسوس کرنا اور اپنے تشخصات کو ذلت و نکبت کا باعث سمجھنا ، فکری دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے!!۔
(۴) مسلمانوں کے دو ظاہری تشخصات ہیں: چہرے پر داڑھی اور ٹوپی کرتا لباس ۔ اور غیروں کے کئی شناخت ہیں، جن میں داڑھی صفا چٹ، ہاتھ میں رکشہ بندھن کے دھاگے، مرد کے ہاتھ میں کڑے اور چوڑیاں، گلے میں عورتوں والے ہاراور شرٹ پتلون عمومی لباس۔ میں نے زندگی میں آج تک کسی غیر مسلم کو نہیں دیکھا کہ وہ چہرے پر سنتی داڑھی، سر پر ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہن کر کسی معاشرہ میں رہتا ہو، لیکن لاکھوں مسلمان ہندوانہ شعار و لباس میں آپ کو ہرجگہ نظر آئیں گے؛ حتیٰ کہ بعض افراد غیروں کی مداہنت میں یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ تشقہ لگانے اور مندروں میں بھی پھول چڑھانے سے نہیں چونکتے ۔
زمینی حقائق اور بھی ہیں۔ یہ تو مشتے نمونے از خرورے ہیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ پہلے قوم بحیثت قوم زوال پذیر ہوتی تھی، لیکن آج ہم بحیثت فرد عملی اور فکری دونوں اعتبار سے اس قدر پست ہوچکے ہیں کہ اسے اس کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتا ہے کہ ع
اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر
مسلمان ہونا کل بھی عزت کی بات تھی ، آج بھی عزت کی علامت ہے اور کل بھی عزت کا مرکز رہے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صحیح معنی میں مسلمان ہوجائیں اور یہ عہد کرلیں کہ ہم محض نام کے نہیں ؛ بلکہ کردار و عمل والے مسلمان بن کر رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سچا پکا مسلمان بنائے اور مسلمانوں کی ساری عزت و رفعت ہمیں دوبارہ عطا فرمائے، آمین۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں