نفرت کا جرم، محبت کا ایک سفر

0
1495
All kind of website designing

افرازل کے قتل کے بعد جو ڈر و خوف اس جیسے لوگوں میں پھیلا ہوا تھا اسے دور کرنے کی خاطر ہمارا یہ سفر ان کے گھر والوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی خاطر ہے 

ہرش مندر (انڈین ایکسپریس یکم مارچ 2018ء) ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین

اس نئے سال میں ہم نے اپنے کاروانِ محبت کے سفر کا آغاز بنگال سے کیا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں جہاں ہمارے سفر کی گردش نہ پہنچی تھی جہاں پر نفرت کی لہریں پھیلی ہیں۔ اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ہمارا کارواں کم سے کم ہر ریاست کو ایک مہینہ دے تاکہ ظلم و تشدد و بربریت سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے زخموں پر ہمدردی کا مرہم رکھ سکیں۔ ہم ستمبر 2017ء سے اب تک آٹھ ریاستوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ جہاں ہم متاثرہ خاندانوں کو تسکین و دلاسہ دیتے ہیں۔ ملک میں ہمارے علاوہ دیگر اور کئی لوگ بھی ہیں جو ان متاثرہ متضرر افراد کی دیکھ بھال ، نگرانی اور ان کی فکر بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنے سفر کے دوران ملنے والے حقائق کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچاتے ہیں تاکہ نہ صرف اتحاد و یکجہتی برقرار رہ سکے بلکہ ہم ملک کے باضمیر لوگ، نوجوان، صحافیوں، وکلاء، قلمکار، فوٹوگرافر، ٹرین یونین، نئے فلمساز، ریسرچ اسکالرس، طلبہ کو ان کے حقوق و امن سے متعلق جو کارواں میں شامل ہوں اور اس طرح وہ ہمارے ساتھ کلکتہ میں پہنچ سکیں۔ 
مجھے اس سال اس کارواں کے دوران جھٹکہ اس وقت لگا جب میں افرازل کے گھر گیا۔ روزگارکے لئے منتقل ہوکر آنے والے ورکرس کی زندگی کا جس طریقے سے خاتمہ کیا جاتا ہے خصوصاً پچھلے سال جو قتل ہوا جس کے بعد ہی مجھے جانے پر معلوم ہوا کہ کس طرح جارحانہ انداز میں مشتعل ہجوم نے ڈنڈے مار مار کر قتل کیا تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس تمام واقعہ کی فلمسازی بھی 6 دسمبر 2017ء کو راجسمند میں ہوئی۔ ہمیں وہاں جانے پر معلوم ہوا ضلع راجسمند کی طرح راجستھان کے دیگر کئی حصوں میں بھی اس قسم کے واقعات جو منتقل ہونے والے لوگوں پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے جس میں مالدہ وغیرہ میں بیشتر بنگالی مسلم جو کام کاج کے لئے یعنی تعمیری مکانات اور روڈ کے لیے یہاں آتے ہیں۔ وہ تنہا یہاں بہت سخت مزدوری ہر سال دس مہینے تک کیا کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے گھر بار والوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ تاکہ انہیں پرورش کرسکیں، اپنے بچوں کو پڑھاسکیں اور خاندان کی کفالت کرسکیں۔ اس قتل کے واقعہ کے چار دن کے بعد ہی لوگ خوف و دہشت کی وجہہ سے یہاں سے منتقل ہوگئے۔ ہم راجسمند میں افرازل کے داماد سے ملے، جس سے پولیس والوں نے خواہش کی تھی کہ وہ یہاں سے منتقل نہ ہو، بلکہ قیام پذیر رہے، تاکہ تحقیقات میں مدد مل سکے۔ اس لئے ہم نے طے کیا تھا کہ کارواں کے لئے ضروری ہے کہ مالدہ میں افرازل کے خاندان والوں سے ملاقات کریں۔ مالدہ کے سفر کے دوران ہمیں سرسوں کے کھیتوں سے گزرنا پڑا۔ جو پھولوں سے لدے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ نئی دھان کی کھیتی سے گزرتے ہوئے ہمیں سجاد پور گاؤں کی گلیوں سے افروزل کے گھر جانا پڑا۔ اس دشوار گزار اور لمبے سفر کا نتیجہ یہ ملا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو افرازل کے خاندان کے لوگ پکی اینٹوں کے بنائے ہوئے گھر میں تھے۔ اندر جانے کے بعد ہمیں افرازل کی بیوہ گل بہاربی بی اور اس کی تینوں لڑکیوں سے ملاقات ہوئی، اس لئے کہ افروزل کو کوئی اولاد نہ تھی۔
ہم نے اہل خاندان کو بتایا کہ ہم کون ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ بیوہ کے بڑے داماد مشرف جو ہم سے قتل کے بعد راجسمند میں ہی مل چکے تھے۔ انہوں نے ہمیں پہچان لیا۔ افروزل کی بیوہ ٹھہرے ہوئے جھیل کی طرح پُرسکون تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر دباؤ، بوجھ کے آثار نمایاں تھے۔ جس کی وجہہ سے وہ وقفہ وقفہ سے روتی بھی تھی۔ اس نے کہا کہ ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہئے۔ سوائے اس کے کہ قاتلوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے جنہوں نے اس کے شوہر کو بے رحمی اور بے دردی سے بلا کسی وجہہ کے قتل کیا۔ صرف اس لئے کہ ان کا مذہب اسلام ہے۔ مرحوم کی لڑکیوں نے اپنے باپ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے ساری زندگی ان کی نگرانی و نگہداشت اور پرورش کے لئے صرف کی۔ جنہوں نے اپنی تمام بیٹیوں کو تعلیم سے آراستہ کیا اور دو لڑکیوں کی شادیاں بھی کیں۔ سب سے چھوٹی لڑکی حبیبہ خاتون 16 برس کی ہے جو دسویں جماعت میں پڑھتی ہے جس کی خواہش مزید تعلیم جاری رکھنے کی بھی ہے۔ جسے وہاں کے ایک پرائیویٹ اسکول نے اس کے والد کے قتل کے بعد اسے داخلہ دے رکھا ہے۔ 
ان کے کہنے کے مطابق پچھلی عیدالاضحی کے موقع پر افرازل گفتگو کی تھی۔ لیکن دوسری ہی صبح کو انتقال کرگئے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو صبح ساڑھے آٹھ گفتگو کی تھی۔ اور اپنی چہیتی بچیوں کے بارے میں پوچھ تاچھ بھی کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا چھوٹی لڑکی اسکول گئی ہے؟ جبکہ ان کی بیوی نے ان سے کھانے کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔ جس کے جواب میں افروزل نے انہیں کہا تھا کہ وہ اس ہفتہ کے آخر میں ان سے ملنے کے لئے گاؤں آئے گا۔ یہ ان کی آخری گفتگو تھی، جو ان کے مابین ہوئی تھی۔ 
ان کی بڑی لڑکی جیموتس نارا بیگم بار بار روتی جارہی تھی کہ میرے والد بہت اچھے آدمی تھے، ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے اس لئے ہماری نگرانی کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ قاتلوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ میں نے اس بات سے متفق ہوتے ہوئے ان سے کہا وہ قاتلین سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ( اگرچہ کہ مجھے معلوم تھا کہ اس میں کسی کو بھی موت کی سزا نہ ملے گی)۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ سخت سزا ملنی چاہئے، ان تمام لوگوں کو، انجمنوں کو اور ان قائدین کو بھی جو اپنے عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور وہی لوگ سب سے زیادہ بڑے مجرم ہیں بمقابلہ قاتلین۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے ان تمام واقعات کو بڑھاوا دیا۔ جس کی وجہہ سے غیض و غضب، نفرت بڑھتی گئی اور لوگ اندھے جوش میں بڑھ کر تمہارے والد کو قتل کیا۔ میں نے انہیں چند باتیں یہ بھی بتائی کہ ہمیں اس بات کی بھی اطلاع ہے کہ کس نے تمہارے والد کو قتل کیا ہے۔ ( چونکہ ہم ان کے خاندان ہی سے نہیں بلکہ راجسمند کو بھی جاچکے تھے)۔ 
افرازل کے مکان کے باہر بہت سارے لوگوں کی بھیڑ بھی جمع ہوچکی تھی، جن میں سے بہت سوں کی تعداد منتقل ہوکر آنے والے مزدوروں کی تھی۔ جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں ہمارا کوئی بھی نہیں ہے۔ نہ کوئی زمین و جائیداد۔ بہت ہی کم لوگوں کی یہاں پر کوئی زراعت والی کھیتی بھی ہے۔ یہاں کوئی فیکٹری نہیں ہے۔ زندہ رہنے کے لئے ہمیں یہاں سے باہر روزگار کی تلاش میں جانا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح وہ باہر کے کام کاج و روزگار سے چھ سے سات ہزار روپئے ہر مہینہ کماکر اپنے خاندان والوں کے لئے بھیج سکتے ہیں۔ 
افرازل کے قتل کے بعد بہت سے لوگ راجستھان سے لوٹنا شروع ہوئے۔ اس لئے کہ یہاں وہ بھی خوف و دہشت کے ماحول میں تھے وہ کس طرح کام کرسکتے تھے؟انہوں نے کہا کہ قبل اس کے راجستھان میں ہم نے اس قسم کا تشدد کبھی نہ دیکھا تھا۔ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں کئی مسلمانوں کا ان دنوں قتل ہوا ہے۔ اس طرح ہم یہاں خوف و دہشت میں زندگی گزار رہے تھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ کون ہم پر حملہ آور ہوگا۔ لیکن جب معلوم ہوجاتا تھا ہم کسی نہ کسی طرح یہاں سے چلے جاتے تھے۔ یہاں سے لوگوں کا روزگار چھوٹنے کا مطلب یہ ہوتا کہ ہمارے خاندان فاقوں پر مجبور ہوجاتے اور اس طرح ان کے خاندان کے بچے نہ پڑھ سکتے ، نہ ان کے بچیوں کی شادیاں ہوسکتی تھیں۔ اگر ایسا معلوم ہوتا تو ہم راجستھان کو چھوڑ کر ملک کے کسی دوسرے حصے میں کام کاج کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ 
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے حالیہ دنوں میں ایک بہت اہم اور خوش آئند اعلان کیا ہے کہ حکومت ان مزدوروں کو سالانہ 200 دن کسی طریقے سے ہو مزدوری مہیا کرے گی۔ اور یہ مزدوری بھی ان کے دیہاتوں کے اطراف و اکناف میں ہی مہیا کی جائے گی۔ بشرطیکہ لوگ یہاں رہنا پسند کریں ۔ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ ایک قسم کا ماڈل ملک بھر میں کیا جانا چاہئے کہ جہاں مختلف ریاستوں سے آنے والے ملازمین اس قسم کے کاری گر وں و مزدوروں کو مہیا ہونا چاہئے۔ ہندوستان بھر میں سو ملین ایسے مزدور ہیں جو کام کاج کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکل کر مختلف ریاستوں میں روزگار تلاش کرتے ہیں۔ 
بالغ مزدور جو سخت محنت و مزدوری کرتے ہیں اور کم اجرت کا کام کرتے ہیں انہیں اپنی اجرت کے بارے میں کوئی تیقن نہیں ملتا۔ اور کوئی کمپنی بھی انہیں کپڑے و غذا مہیا بھی نہیں کرتی ہے۔ وہ کسی طرح اپنے اہل و عیال کو پرورش کریں گے جو ان کے روزگار کے مقام سے کافی دور رہتے ہیں۔ ان حالات میں اگر انہیں یہاں ڈر و خوف میں رہنا پڑے گا تو شائد وہ قتل کردئے جائیں گے۔ صرف اس بناء پر کہ ان کا مخصوص مذہب سے تعلق ہے۔ اس طرح ان کی زندگی اس خطرناک مہم جوئی میں کیونکر گزر سکتی ہے اور یہ تمام حالات ان مزدوروں کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here