عبدالعزیز
بہت سے واقعات اور سانحات کی سنگینی اور بربریت ایسی ہوتی ہے جس کے اظہار سے زبان و قلم دونوں عاجز ہوتے ہیں۔ کٹھوعہ اور اناؤ کے شرمناک اور وحشت ناک واقعات کچھ ایسے ہی ہیں۔ بہت دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ ان دونوں واقعات پر کچھ لکھوں مگر نہ قلم ساتھ دے رہا تھا اور نہ زبان کو طاقت مل رہی تھی کہ ان واقعات کی وحشتناکی کو الفاظ کی شکل دے سکوں۔ اور جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اور جو کچھ دل میں ہے اسے کاغذ پر اتار سکوں۔ اس وقت پورے ہندستان میں ہندو ہوں یا مسلمان، سب ان گھناؤنے واقعات پر خاص طور سے آصفہ پر جو کچھ گزری ہے چیخ پڑے ہیں ، اس کے باوجود حیوانیت کے محافظ اور سپہ سالار آصفہ کو ایک غیر مذہب کی بچی بتاکر اس پر جو بربریت اور ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا گیا ہے اس کی ننھی سی زندگی کو جس طرح کچل کچل کر اپنے ہوس اور خواہشات کا نشانہ بنایا گیا کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ہر ایک کیلئے مشکل ہورہا ہے مگر جو لوگ حیوانیت کے دوست اور انسانیت کے دشمن ہیں ان کی بے حیائی کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں تک کہنے میں شرم محسوس نہیں کر رہے ہیں اور نہ انسانیت ان کے آڑے آرہی ہے۔ وہ نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اچھا ہوا اس کی عصمت لوٹی گئی اور اسے قتل کر دیا گیا ورنہ وہ آتنکوادی بن جاتی۔
اس واقعہ کو رونما ہوئے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوا نہ کشمیر میں کسی کو پتہ چلا اور نہ ہی ہندستان کے کسی اور حصہ میں کسی معلوم ہوا۔ سنگھ پریوار اور پولس اہلکار مل کر اس واقعہ کو دفن کرچکے تھے۔آصفہ ایک خانہ بدوش بکرال قبیلہ کی لڑکی تھی جو برادری ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتی رہتی ہے۔ انسانیت کے یہ دشمن آصفہ کی برادری کے بھی دشمن تھے۔ ان کو ہر طرح کی اذیت دیتے تھے۔ اسی برادری کا ایک جوان جسے پڑھنے لکھنے کا موقع مل گیا وہ کسی طرح وکالت کے امتحان میں پاس ہوگیا اور وہ دہلی میں پریکٹس کرتا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی برادری پر آفت آئی ہوئی ہے اور اسی برادری کی ایک پھول سی بچی آصفہ کو اغوا کیا گیا۔ مندر میں لے جاکر اس کو ہر طرح سے جسمانی اذیت دی گئی، اس کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی پھر اسے قتل کرکے لاش کو پھینک دیا گیا تو اسے غیرت ہوئی ،وہ دہلی چھوڑ کر جموں آگیا۔ اس نے تحریک چلائی ۔ دو تین بار پولس حراست میں اسے جانا پڑا،پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔ بالآخر آصفہ کے ظلم و بربریت کی داستان جموں و کشمیر کے ایک ایک گھر کے فرد کو معلوم ہوگئی ، پھر ہندستان کے کونے کونے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور آج ہر طرف احتجاج اور جلسہ و جلوس اور ریلی نکل رہی ہے۔ بعض ایسی ٹی وی اینکر جو بی جے پی کا مالا جپتی تھیں وہ بھی آج بی جے پی کی مدافعت کرنے کے بجائے بی جے پی والوں کو لعنت اور ملامت کرنے پر مجبور ہیں۔
آنند سون داس جو’ ٹائمز آف انڈیا‘ کے سینئر ایڈیٹر ہیں وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’ایک غریب، کمزور اور لاچار آدمی جو مشکل سے زندگی گزارتا ہے۔ جو بے اثر اوراثر و رسوخ سے محروم ہے۔ ایک دن اس کی آٹھ سالہ لڑکی غائب ہوجاتی ہے۔ وہ ہر جگہ اس کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ اس کے پاس ایسے ذرائع و وسائل نہیں تھے کہ وہ ٹھیک سے تلاش کرسکے۔ وہ کمزور اور لاغر تھا، مگر بچی کے غائب ہونے کی وجہ سے اس پر مجنونانہ کیفیت طاری تھی۔ آخر کار اسے وہ مل گئی۔ مگر بچی کے بجائے بچی کی لاش ملی۔ ممکن ہے ایک دو یا دو سے زیادہ نے اس کی تعذیب کی ہو اور اس کی عصمت لوٹی ہو۔ وہ پولس کے پاس فریاد لے کر گیا کیونکہ افراد نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا مگر پولس نے منہ موڑ لیا اور وہ خالی ہاتھ واپس آگیا۔اس نے عدالت کا رخ کیا۔ عدالت نے اپنا دروازہ اس کیلئے بند کرلیا۔ اس نے غصہ میں بھرے ہوئے سیاہ کوٹ میں ملبوس وکلاء کو دیکھا۔ وہ ڈرا اور سہما۔
میں ایسے دنوں میں کٹھوعہ میں تھا۔ ایک خانہ بدوش کا ایک خاندان جو ناقابل بیان غم و رنج میں ڈوبا ہوا تھا، ایسے بہت سے ہندستانی ہیں جو مشکلات اور سخت حالات کا سامنا کرتے ہیں جب ایسے لوگوں کو پہلے دو اہم ذرائع سے حق و انصاف کیلئے رابطہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولس اور عدالت یہ سب ہیں مگر ان لاچاروں کیلئے ان کا دروازہ بند رہتا ہے۔ ایک نہیں کئی وجہوں سے یہ دو ادارے ان کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ ملک کے شہریوں کی اکثریت کو انہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس غم زدہ خانہ بدوش خاندان نے مایوس ہوکر راسنا گاؤں کو چھوڑ دیا۔ ان کیلئے یہاں جو نفرت کا ماحول ہوگیا تھا اس سے نپٹنا مشکل تھا۔ ڈر اور خوف کی ایسی فضا تھی جس میں زندگی گزارنا دشوار تھا۔ ان کی برادری بکروال (Bakarwal) کا ایک فرد نے مجھے بتایا کہ لڑکی (آصفہ) کے باپ کو دھمکی دی گئی کہ اگر اس مقام پر رہا تو اس کے جانوروں، بھڑ بکریوں اور گھوڑے کو جلا دیا جائے گا اور اس کی عارضی پناہ گاہ کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ کسی طرح میں ان سے اودھم پور میں ملا۔ جموں سے کشتور تک تلاش کرتے کرتے پہنچا۔ گرمیوں کے زمانے میں یہ لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں میدانی علاقہ میں چلے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو سیاست جموں و کشمیر میں گرم تھی اس کے بارے میں جانتے تھے۔ ایک جوان آدمی جس کی عمر 20سال کی رہی ہوگی ایسا لگتا تھا کہ اس کو سب باتوں کا علم ہے۔ وہ میری طرف مڑا یہ کہتے ہوئے کہ بی جے پی وزراء لال سنگھ اور سی پی گنگا نے استعفیٰ دے دیا، اچھا ہوا۔ پھر میں نے ایک بھیڑ کی طرف رخ کیا۔ اس سے عمر میں کچھ زیادہ اس شخص سے پوچھا کہ کیا پولس پر آپ لوگوں کو بھروسہ ہے؟ اس نے توقف سے کام لیا۔ اس کی آواز میں کچھ گنگناہٹ تھی۔ اس نے کہا ’’نہیں‘‘۔ عدالت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر اس کا جواب وہی تھا جو پولس کے بارے میں تھا۔اس نے اوپر کی طرف تاکا سورج چمک رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو میجا، ممکن ہے وہ خدا کا مشاہدہ کیا ہو۔
عام طور پر پولس اہلکار نے پہلے بکروال کی درخواست یا پٹیشن کو دیکھ کر کہا ہو کہ جو کچھ کہہ رہے ہو وہ جھوٹ ہے۔ اس لئے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی، لیکن جب لڑکی کی لاش ملی اور یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی جس میں آٹھ افراد ملوث تھے پھر پولس حرکت میں آئی۔ پولس میں یقیناًاستثنائی طور پر کچھ اچھے لوگ ضرور ہیں، لیکن ہندستانی پولس کرپٹ اور بے ایمان قسم کی ہے۔ یہ بات سروے اور چھان بین سے اچھی طرح دنیا کو پتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ پولس کے پاس کوئی واقعہ درج کرانے نہیں جاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تھانہ جانے سے کیا ہوگا۔ پولس تو کچھ کرے گی نہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ زانی مصیبت زدگان کے سرپرستوں یا والدین سے کیس درج کرنے کیلئے رشوت طلب کرتے ہیں۔ اناؤ میں عصمت دری کا جو واقعہ رونما ہوا اور لڑکی کا قتل ہوا وہ بہت عجیب و غریب اور شرمناک ہے۔ ایک بار کیس کورٹ کو ٹرانسفر کیا گیا اور مصائب پر مصائب آئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پنجاب کی ایک نچلی عدالت کا تماشہ دیکھا۔ آٹھ سال ہوئے ہوں گے ۔ میری ٹیم میں ایک رپورٹر تھا۔ اکثر میں جب دہلی سے امرتسر کیلئے فلائٹ لیتا ہوں گرداس پور کورٹ جانے کیلئے پھر ٹیکسی پکڑتا ہوں۔ عدالت میں پہنچ کر رجسٹر پر دستخط کرتا ہوں۔ پانچ منٹ میں سب ختم ہوجاتا ہے۔ پھر میرا وکیل کہتا ہے آج سماعت نہیں ہوگی کیونکہ ایک گواہ آج نہیں آیا۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بیمار ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ملزم کے ساتھ گھر پر کچھ پرابلم ہے۔ میں تعجب اور حیرت میں پڑ جاتا ہوں کہ اگر میرے پاس آنے جانے کے اخراجات نہ ہوتے تو میں کیا کرتا۔ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے سینئر ایڈیٹر نے ایسی بہت سی مثالیں اپنے مضمون میں لکھی ہیں۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ ایک شخص آخر کیا کرے گا؟ ان دو اہم اداروں سے جن کی ڈیوٹی ہے لوگوں کے مسائل کو حل کرنا۔ جموں میں ایک خاص قسم کی صورت حال درپیش ہے۔ بکروال خاندان کی بچی کے گینگ ریپ (اجتماعی عصمت دری) اور قتل کے معاملے میں ایک طرف کہا جاتا ہے کہ سی بی آئی پر بھروسہ کرنا مشکل ہے اور دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ کرائم برانچ پولس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں ایجنسیوں کے بارے میں لوگ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی بات بیان کرتے ہیں۔ ایک پارٹی نہیں چاہتی ہے کہ مقدمہ جموں کورٹ میں پیش کیا جائے ،جبکہ دوسری پارٹی کہتی ہے کہ جموں کورٹ ہی میں مقدمہ پیش ہونا چاہئے۔ یہ ایک ایسا ایشو ہے جو پولس اور عدالت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی مداخلت بھی ہوتی ہے اور آدمیوں کی کمی بھی بہت ہے اور ماحول بھی خوفناک اور دہشت زدہ ہے۔ اس حالت میں جموں کی بکروال برادری کی لڑکی کے باپ یا اناؤ کی عصمت دری کی مصیبت زدہ لڑکی کو کیا کہا جاسکتا ہے۔ دونوں بے یارو مددگار ہیں۔ لاچار و بے بس ہیں۔ ان لوگوں پر جو مصیبت کی گھڑی آئی ہے یہ لوگ آخر کیسے اس مصیبت سے باہر نکل سکتے ہیں۔ یہ ملک کی ذمہ داری ہے کہ ان کو مصائب اور مسائل سے باہر نکالے اور ان کی تلافی کرے۔ حکومت کو غفلت برتنا یا کاہلی سے کام لینا غلط ہوگا کیونکہ اس کے جو ادارے ہیں وہ غیر مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔ دیر سویر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ملبے میں دب سے جائیں گے یا پاش پاش ہوجائیں گے۔
سینئر ایڈیٹر ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے جو کٹھوعہ اور اناؤ کے مصیبت زدگان کی تصویر پیش کی ہے۔ اسے سن کر دل دہل جاتا ہے، کہاہے کہ ملک میں اوروں کے ساتھ بھی کم و بیش ایسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ مگرآصفہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ آج جو انسانیت کے دشمن سنگھ پریوار والے کر رہے ہیں وہ کم تشویشناک نہیں ہے، بلکہ شرمناک اور افسوسناک ہے۔ اس سے ملک و قوم ساری دنیا میں بدنام ہوگی اور صورت حال بد سے بدتر ہوتی جائے گی جسے ایک دن قابو کرنا مشکل ہوگا۔
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں