میم ضاد فضلی
بہار کے مشہورچارہ گھوٹالہ میں آرجے ڈی سپریمو لالو پرساد ان دنوں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔لالویادو کی صحت بگڑنے کی وجہ سے دہلی کے آل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(AIIMS)میں ان کا علاج کرایاجا رہا ہے۔ لاکو پرساد کو چارہ گھوٹا لو ں کے چار واقعات میں سزا دی گئی ہے ۔دمکا ٹریزری سے غلط طریقے سے رقم نکالنے کے کیس میں لالو پرساد کو 7۔7 سال کی دو سزا سنائی گئی ہے۔ ایک انڈین پینل کوڈ کے تحت اور دوسری سزااس بدعنوانی کی روک تھام کیلئے قدم نہ اٹھانے سے متعلق جرائم کی ایکٹ کی شکل میں انہیں قیدو بند جھیلنی ہوگی، جبکہ باقیماندہ 2 مقدموں میں ابھی تک سزا نہیں سنائی جاسکی ہے۔ ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور بی جے پی جلد ہی ان کے خلاف باقی معاملوں میں بھی سزا کا اعلان کروادیں۔ لالو پرسادکو دی جانے والی سزا پر ان کے بیٹے تیجسوی یادو سمیت آر جے ڈی کے سبھی عہدیداران اور پارٹی کا یو تھ ونگ مسلسل یہ الزام لگارہا ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یوکے ذریعہ منصوبہ بند طریقے سے لالو یادو کو ختم کرنے کی سازش کے تحت یہ کارروائی انجام دیگئی ہے ۔ قارئین میرے اس جملے کو ذہن میں محفوظ رکھیں کہ یہ کاروائی انتہائی سازشی اورگھنونے سیاسی انتقام کا شاخسانہ ہے۔ اس مو ضوعپرمعروف انگریزی اخبار ٹیلی گراف کی ایڈیٹر مانینی چٹرجی نے ایک فکر انگیز اور چشم کشا
ادارتی مضمون لکھا ہے، جس میں انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ نتیش کمار ،ان کی پارٹی جے ڈی یو اور بی جے پی سمیت اونچی ذات کے بھگوا ئی کیڈرو کی مذموم حرکتو ں کے باوجودعام لوگوں کے دلوں میں لالو پرساد کی مقبولیت ہنوز برقرار ہے،لالو کنبہ اور آرجے ڈی کیلئے حوصلہ بخش بات یہ ہے کہ نتیش کمار اور بی جے پی کے اس حدتک چلے جانے کے بعد بھی عام بہاریوں ،اوبی سی اور اقلیتو کا بھروسہ لالو یادو پر آج بھی قائم ہے۔محترمہ چٹرجی نے اپنے ادارتی کالم میں ملک کے اندر سلیکٹیو جسٹس یعنی ٹارگیٹیڈ جسٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اپنے اس اندیشے کو مانینی چٹر جی نے کئی شواہد سامنے رکھ کر مدلل کرنے کی سعی کی ہے،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے ملک کے آئینی ڈھانچہ کوبھی زعفرانی دیمک لگ چکی ہے اور انتقام کی سیاست ہماری خود مختار عدلیہ اور انتظامیہ پر لگام ڈالنے میں سرگرم ہے۔
حالیہ دنوں میں کچھ انصاف پسند اور باحوصلہ میڈ یااہلکاروں کی بدولت بے نقاب ہونے وا لے کچھ گھپلوں ،گھوٹا لوں اور سیاسی رشتہ داری نبھانے کیلئے انسانیت کے قاتلوں بے گناہ اور نہتے بچوں ،ماؤں اور بزرگوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے غنڈوں ،دہشت گردوں کو دی جانے والی معافی اور ان کیخلا ف عدالتوں میں جاری مقدمات بھاجپائی حکومتوں کے ذریعہ واپس لئے جانے کے اعلانات کو دیکھیں تو لالو پرشاد یادو کو ملنے والی سزا سے عدلیہ کے ٹارگیٹیڈیعنی منصوبہ بنداستعمال کا شک پختہ ہو جاتا ہے۔لالو یادو کو دی جارہی سزاکو تیجسوی اگرجے ڈی یو اور بی جے پی کی سازش کہہ رہے ہیں تو اس پر یہ ضرورکہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے باپ سے وفاداری اور اقربا پروری کی وجہ سے یہ الزام لگارہے ہیں، لیکن بی جے پی کے مرکزی حکومت میں آنے کے بعد ملک کے اندر گھوٹالوں اور بدعنوانیوں کے کئی واقعات روشنی میں آئے ہیں۔ مگر اسی تفتیشی ایجنسی اور عدلیہ کی حالیہ معاملوں میں ڈھلمل کارروائی یہ سرگوشی کررہی ہے کہ بی جے پی کے ہاتھ میں پاور آنے کے بعد سلیکٹیو جسٹس کی غلط روایت ڈالی جارہی ہے جو آنے والے دنوں میں ملک کے جمہوری ڈھانچے کو بری طرح توڑ مروڑکر رکھ دے گی ۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ملک کی تاریخ کے سب سے اندوہناک بنک گھوٹالے کیمجرم نیرو مودی، وجیہ مالیا، جے شاہ امت شاہ پٹیل ،ویاپم اسکیم وغیرہ جیسے اربوں روپے کے گھوٹالے میں مودی سرکار اور بی جے پی کی ریاستی سرکاریں کیا کررہی ہیں اوران گھوٹالوں کی چھان بین میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے اورای ڈی یا سی بی آئی نے اب تک کون سے تیر مارے لئے ہیں یا ہاتھ ہاتھ پر دھرے کیوں بیٹھی ہوئی ہے ؟اگر اس مجرمانہ غفلت کا جا ئزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ لالو یادو کیخلاف جو کارروائی ہوئی ہے وہ سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے اور اس معاملے میں ٹارگیٹیڈ جسٹس کا استعمال شرمناک طریقے سے کیاگیا ہے۔
ما نینی چٹرجی لکھتی ہیں کہ نیرو مودی اور وجے مالیا ہزاروں کروڑروپے لوٹ کر ملک سے فرار ہوگئے ۔ بلکہ مذکورہ دونوں بنک لٹیروں کو تو حکومت کی امان میں ان کے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچا یا گیا ہے۔ان بھگوڑوں نے ملک کوجتنی بڑی اقتصادی چپت لگائی ہے اس کے مقابلے میں لالو یادوکو جتنی رقم کی بدعنوانی کے الزام میں سزادی گئی ہے وہ تو کوڑی برابر بھی نہیں ہے۔لا لوکے ایک مقدمہ میں 37.7 کروڑ ، 89 لاکھ،دوسرے معاملے 37.62 کروڑ اور آخری مقدمہ میں 3.76 کروڑکی بد عنوانی پر یہ سزا سنائی گئی ہے۔اس کے برعکس اگرنیرو مودی ،وجئے مالیہ اور ویاپم گھوٹالے کو دیکھیں جس میں ملک کو اربوں روپے کی چوٹ پہنچائی گئی ہے ، اس کے مقابلے میں تولالو یادو پرلگائی گئی بدعنوانی کی رقم پا سنگ برابر بھی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں ویاپم گھوٹالہ او ر امت شاہ کے ریاست گجرات کا وزیر داخلہ رہتے ہوئے جو فرضی انکاؤنٹر ہوئے اس جانچ میں ایجنسیوں کی مشتبہ کار کردگی بھی اسی سلیکٹیو جسٹس کی غلط بنیاد ڈالے جانے کی طرف اشارہ کرتاہے۔ویاپم گھوٹالہ ایک بڑا شرمناک اسکینڈل تھاجس نے سیکڑوں طالب علموں کے مستقبل کو تباہ کردیا۔داخلے کیلئے 50 لاکھ سے 1 کروڑ تک کی رشوت لی گئی،جس کی وجہ سے محنتی ،باصلاحیت اور داخلہ کے مستحق طالب علموں کے ساتھ فراڈ کیا گیا اس معاملے میں سی بی آئی نے کتنی غیر جانبداری دکھائی اور سیاست کی غلام بن کر حقائق پر پردہ ڈالتی رہی یہ معاملہ بھی تفتیش طلب ہے۔اس گھوٹالے میں ماخوذ بھاجپائی وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو کلین چٹ دیدی گئی، جب کہ چوہان کابینہ کے ایک وزیر لکشمی کانت شرمااس کیس میں ملزم تھے اوراسی گھوٹالے میں 19 مہینے تک جیل کاٹ رہے تھے،انہیں سیاسی وفاداری کافائدہ پہنچا تے ہوئے ضمانت دیدی گئی اور بی جے پی نے دوبارہ پارٹی میں اسی بدعنوان لیڈر لکشمی کانت شرما کو باعزت طریقے سے واپس لے لیا ۔
یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے جس طرح سے سی بی آئی کاہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا ہے اس نے کسی بھی جرم کی غیر جانبدارانہ اور مثبت تحقیقات پرسوالیہ نشان لگا دیے ہیں ۔ فرضی انکاؤنٹر مقدمہ میں گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف سی بی آئی کی تیار کردہ چارج شیٹ میں سہراب الدین شیخ، کوثر بی، تلسی رام پرجا پتی کو ظالمانہ طریقے سے قتل کئے جانے کے کئی مضبوط اور ٹھوس ثبو ت مووجود تھے، لیکن جیسے ہی گجرات مسلم نسل کشی کے مشتبہ ملزم نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنائے گئے اور امت شاہ بی جے پی کے قومی صدر نامزد کئے گئیاس مقدمہ کو خصوصی عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سی بی آئی نے دوبارہ اپیل کرنے کی جرأت ہی نہیں کی۔ان ساری مکروہ حرکتوں کے باوجود گودی میڈیا نے گجرات حکومت کو’’ جنگل راج ‘‘ سے مخاطب نہیں کیا ،جبکہ پسماندہ طبقات ،غریبوں کمزوروں اور اقلیتوں کی مضبوطی فراہم کرنے والی لالو سرکارکو ’’جنگل راج ‘‘ کا تمغہ پہناکر بدنام کردیا گیا۔حالاں کہ یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے کہ لالو یادو کی حکومت سے پہلے بہار میں فرقہ ورانہ فسادات کا شرمناک سلسلہ چلا کرتا تھا جسے لالو یادو نے پوری طاقت کے ساتھ روک دیاتھا۔رام جنم بھومی کے نام پر ملک میں نفرت کے رتھ پر سوار ہوکر آگ لگارہے لال کرشن اڈوانی کی اس نامراد کوشش کو لالو یادو نے ہی روک دیاتھا۔ لالو پرسادکی یہی وہ سیکولر شبیہ تھی جس نے ریاست کے غریب ومزدور طبقات کے دلوں میں جگہ بنا لی تھی۔آج جب عدالت نے لالو یادو کو حیران کن سزا سنائی ہے تو اس پر عوام میں مختلف قسم کے اعتراضات اوراندیشوں کا اظہاردیکھا جارہا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لالو پرساد کو چائی باسہ کے37.62 کروڑ کے کیس میں 5 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے،جبکہ دمکاکے 3.7 کروڑ روپے گھوٹالیمیں 14 برس کی سزا کس ایکٹ کی بنیاد پر سنائی گئی ؟
اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو چائی باسہ معا ملہ میں سزا طویل ہونی چاہئے اس لئے کہ وہاں دمکا کے مقابلے کئی گنازیادہ رقم کا گھوٹالہ ہواتھا۔مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اب سلیکٹیوجسٹس یعنی ٹارگیٹیڈ جسٹس کی گندی تاریخ لکھی جارہی ہے ،جس سے ایک سارے ملک کی بدنامی ہوگی اور ہم دنیا میں کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
09911587378
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں