محمد یاسین جہازی
علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے کہ
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو
قوموں کی زندگی اور ان کی موت کا سارا دارومدار ان کے تخیل پر موقوف ہے۔ انسان کی زندگی، اس کی بلندی اور کامیابی و کامرانی اس کے مزاجی رخ اور فکری نہج پر مبنی ہے ۔ اگر انسان کی فکر کا دھارا صحیح سمت میں بہہ رہا ہے ، تو اس کی زندگی کی ڈگر صحیح سمت میں رواں دواں ہے اور اگر اس میں کچھ کمی ہے ، کجی ہے گڑبڑی ہے ۔ تو یاد رکھیے کہ اس کی دنیا بھی بربادہے اور آخرت تو بالیقین تباہی کے دہانے پر ہے۔ جب یہ مسئلہ اتنا اہم ہے تو شریعت اسلامیہ جو کہ ایک دین فطرت ہے دینی الٰہی ہے ، خدا کا آخری پیغام ہے، اس کے لیے ناممکن تھا کہ وہ اس پہلو سے انسان کی راہ نمائی سے دست کشی اختیار کرتا۔ چنانچہ اس پہلو سے بھی انسان کی رہنمائی اور دست گیری کی ہے ۔
فطرت کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت کھل کے سامنے آئے گی کہ انسان کے مزاج و تخیل میں تغیر و انقلاب پیدا کرنے والی تین بنیادی چیزیں ہیں۔
(۱) عقائد کسی انسان کے اندر فکری انقلاب اور تغیر و تبدل پیدا کرنے میں عقائد کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے ۔ یہ عقیدے انسان کو سب سے زیادہ مضبوط بھی بناتے ہیں اور اس کے آگے انسان مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور بھی نظر آتے ہیں ۔ صحیح عقیدے انسان کو قوت فراہم کرتے ہیں جب کہ غلط عقیدے انسان کو کمزور سے کمزور تر بنادیتے ہیں۔ ہمیں اللہ کی وحدانیت کا یقین ہے ، اس خدائے بزرگ و برتر کے ایک ہونے پر ہمارا ایمان ہے ۔ اس ایمان و یقین کو کوئی متزلزل کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے ۔ ہماری یہ پیشانی صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سامنے جھکنے کے لیے ہے، لہذا دنیا کی ساری طاقت اکٹھی ہوجائے اور اسے اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکانے پر مجبور کرے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ یہ ہے کہ پتھر میں بھگوان بستا ہے، یہ پتھر ہی ہماری تقدیر طے کرتا ہے تو اس غلط عقیدے کے ہاتھوں وہ اتنا کمزور ، لاچار اور بے بس ہے کہ وہ اتنا بھی سمجھنے سوچنے پر قدرت نہیں رکھتا کہ جس کے سامنے کے بتاشے کو مکھی اڑا لے جائے، تو اسے نہیں روک سکتا، بھلا ہماری تقدیر کا مالک کیسے بن سکتا ہے۔ اور یہ کمزوری محض اس غلط عقیدے کی دین ہے۔ لہذا اسلام نے انسان کی رہ نمائی کرتے ہوئے اسے صحیح عقائد عطا فرمائے ہیں تاکہ ان سے قوت پاکر دنیا کا سب سے پاور فل شخص بن جائے اور ان تمام غلط عقیدوں کا یکسر خاتمہ کردیا ہے جو کسی بھی درجے میں انسان کو کمزور بناتے ہیں۔
(۲) اعمال انسان کے فکری انقلاب پیدا کرنے والی دوسری بنیادی چیز اعمال ہیں۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ عمل انسان کے اندر ایک تعلق پید اکرتا ہے ، خواہ وہ عمل اس کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایک شخص مسلسل کوئی عمل کرتا ہے تو اس عمل کا تعلق اس کے اندر اپنا تاثر پیدا کرتا ہے اور یہی تاثر اس کے ذہن و فکر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان گناہ کا کام کرتا ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی نیک کام کرلیتا ہے ، تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی نیک کام نہیں کرتا ، بلکہ مزید گناہوں پر گناہ کرتا چلاجاتا ہے، تو گناہ کی وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور جب انسان کا دل ہی بدل جائے تو اس کے ذہن بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامی نے صحیح اعمال اور غلط اعمال کی نشاندھی کرکے انسان کی رہ نمائی کا کامل فریضہ انجام دیا ہے۔
(۳) ماکولات و مشروبات یہ تیسری بنیادی چیز ہے ، جو انسان کے اندر تغیر و انقلاب پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ بالکل مشہور بات ہے ، کیوں کہ ہم سب کا تجربہ و مشاہدہ ہے کہ جب ہم کوئی ٹھنڈ تاثیر والی چیز کھاتے ہیں تو ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں ، اسی طرح جب کوئی گرم اثر والی چیز کھاتے ہیں تو اس کا اثر بھی ہمارے جسم و ذہن پر پڑتا ہے۔برف سے ٹھنڈک اور انڈے سے گرمی حاصل کرتے ہیں ۔ یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کھانے پینے سے جس طرح ہمارے جسم کی ظاہری نشو ونما ہوتی ہے ، اسی طرح ماکولات و مشروبات کے کے باطنی اثرات ہوتے ہیں ، جو اپنی خاصیت اور تاثیریت کے لحاظ سے ذہنوں اور فکروں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں ، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اس لحاظ سے بھی ہماری بھرپور رہ نمائی کی ہے اور ہمیں یہ بتایا ہے کہ کیا کھانا حلال ہے اور کیا کھانا حرام ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مزاج و تقاضے پر چلنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو
قوموں کی زندگی اور ان کی موت کا سارا دارومدار ان کے تخیل پر موقوف ہے۔ انسان کی زندگی، اس کی بلندی اور کامیابی و کامرانی اس کے مزاجی رخ اور فکری نہج پر مبنی ہے ۔ اگر انسان کی فکر کا دھارا صحیح سمت میں بہہ رہا ہے ، تو اس کی زندگی کی ڈگر صحیح سمت میں رواں دواں ہے اور اگر اس میں کچھ کمی ہے ، کجی ہے گڑبڑی ہے ۔ تو یاد رکھیے کہ اس کی دنیا بھی بربادہے اور آخرت تو بالیقین تباہی کے دہانے پر ہے۔ جب یہ مسئلہ اتنا اہم ہے تو شریعت اسلامیہ جو کہ ایک دین فطرت ہے دینی الٰہی ہے ، خدا کا آخری پیغام ہے، اس کے لیے ناممکن تھا کہ وہ اس پہلو سے انسان کی راہ نمائی سے دست کشی اختیار کرتا۔ چنانچہ اس پہلو سے بھی انسان کی رہنمائی اور دست گیری کی ہے ۔
فطرت کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت کھل کے سامنے آئے گی کہ انسان کے مزاج و تخیل میں تغیر و انقلاب پیدا کرنے والی تین بنیادی چیزیں ہیں۔
(۱) عقائد کسی انسان کے اندر فکری انقلاب اور تغیر و تبدل پیدا کرنے میں عقائد کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے ۔ یہ عقیدے انسان کو سب سے زیادہ مضبوط بھی بناتے ہیں اور اس کے آگے انسان مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور بھی نظر آتے ہیں ۔ صحیح عقیدے انسان کو قوت فراہم کرتے ہیں جب کہ غلط عقیدے انسان کو کمزور سے کمزور تر بنادیتے ہیں۔ ہمیں اللہ کی وحدانیت کا یقین ہے ، اس خدائے بزرگ و برتر کے ایک ہونے پر ہمارا ایمان ہے ۔ اس ایمان و یقین کو کوئی متزلزل کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے ۔ ہماری یہ پیشانی صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سامنے جھکنے کے لیے ہے، لہذا دنیا کی ساری طاقت اکٹھی ہوجائے اور اسے اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکانے پر مجبور کرے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ یہ ہے کہ پتھر میں بھگوان بستا ہے، یہ پتھر ہی ہماری تقدیر طے کرتا ہے تو اس غلط عقیدے کے ہاتھوں وہ اتنا کمزور ، لاچار اور بے بس ہے کہ وہ اتنا بھی سمجھنے سوچنے پر قدرت نہیں رکھتا کہ جس کے سامنے کے بتاشے کو مکھی اڑا لے جائے، تو اسے نہیں روک سکتا، بھلا ہماری تقدیر کا مالک کیسے بن سکتا ہے۔ اور یہ کمزوری محض اس غلط عقیدے کی دین ہے۔ لہذا اسلام نے انسان کی رہ نمائی کرتے ہوئے اسے صحیح عقائد عطا فرمائے ہیں تاکہ ان سے قوت پاکر دنیا کا سب سے پاور فل شخص بن جائے اور ان تمام غلط عقیدوں کا یکسر خاتمہ کردیا ہے جو کسی بھی درجے میں انسان کو کمزور بناتے ہیں۔
(۲) اعمال انسان کے فکری انقلاب پیدا کرنے والی دوسری بنیادی چیز اعمال ہیں۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ عمل انسان کے اندر ایک تعلق پید اکرتا ہے ، خواہ وہ عمل اس کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایک شخص مسلسل کوئی عمل کرتا ہے تو اس عمل کا تعلق اس کے اندر اپنا تاثر پیدا کرتا ہے اور یہی تاثر اس کے ذہن و فکر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان گناہ کا کام کرتا ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی نیک کام کرلیتا ہے ، تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی نیک کام نہیں کرتا ، بلکہ مزید گناہوں پر گناہ کرتا چلاجاتا ہے، تو گناہ کی وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور جب انسان کا دل ہی بدل جائے تو اس کے ذہن بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامی نے صحیح اعمال اور غلط اعمال کی نشاندھی کرکے انسان کی رہ نمائی کا کامل فریضہ انجام دیا ہے۔
(۳) ماکولات و مشروبات یہ تیسری بنیادی چیز ہے ، جو انسان کے اندر تغیر و انقلاب پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ بالکل مشہور بات ہے ، کیوں کہ ہم سب کا تجربہ و مشاہدہ ہے کہ جب ہم کوئی ٹھنڈ تاثیر والی چیز کھاتے ہیں تو ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں ، اسی طرح جب کوئی گرم اثر والی چیز کھاتے ہیں تو اس کا اثر بھی ہمارے جسم و ذہن پر پڑتا ہے۔برف سے ٹھنڈک اور انڈے سے گرمی حاصل کرتے ہیں ۔ یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کھانے پینے سے جس طرح ہمارے جسم کی ظاہری نشو ونما ہوتی ہے ، اسی طرح ماکولات و مشروبات کے کے باطنی اثرات ہوتے ہیں ، جو اپنی خاصیت اور تاثیریت کے لحاظ سے ذہنوں اور فکروں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں ، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اس لحاظ سے بھی ہماری بھرپور رہ نمائی کی ہے اور ہمیں یہ بتایا ہے کہ کیا کھانا حلال ہے اور کیا کھانا حرام ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مزاج و تقاضے پر چلنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں