کیاتین طلاق بل کیخلاف احتجاج کا موسم یہی ہے؟
میم ضاد فضلی
میں نے اب لکھنا کم کردیا ہے ،اس لئے کہ یہ دور چاپلوسی کا ہے جو مجھے نہیں آتی اورایسے دور میں کسی بھی قسم کی کمیوں ،کوتاہیوں پر انگشت نمائی کرنا ،انسانیت کے لئے نقصاندہ ثابت ہونے والے کسی بھی مسئلہ پر سنجیدہ تنقید کو بھی آج کے بڑے لوگ اپنی انااور پگڑی کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نویسوں کو دشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہوتا،جب کسی مبصر کی چھٹی حس کسی بڑے صاحب کے کسی قدم کو ملک اورسیاست کے موجودہ تناظر میں خلاف مصلحت سمجھتاہے تو وہ مبصر اس کی جانب رہنمائی کرتاہے،اوراس قدم سے آئندہ ہونے والے نقصانات پر اپنا اندیشہ ظاہر کرتا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ صحافتی تجزیہ نگاروں کی کسی سے کوئی ذاتی پرٗ خاش نہیں ہوتی،نہ زمین جائیداد کا جھگڑا ہوتاہے۔بلکہ اس تبصرہ کے پس پردہ وہی مقاصد ہوتے ہیں جو میں نے قدرے وضاحت کے ساتھ مندرجہ بالا سطور میں پیش کردیا ہے۔
مذکورہ تفصیل کے بعد طلاق کے ملتوی بل کے سلسلے میں لکھنا ضروری ہو گیاہے۔اس سے پہلے کہ طلاق ثلاثہ کے پینڈنگ بل پر کچھ خامہ فرسائی کی جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر کو پھر
پیش کردیا جائے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اس بل کا کیا نتیجہ برآمد ہونے والا ہے۔مورخہ 5جنوری 2018کو یہ خبر آئی کہ سرمائی اجلاس میں تین طلاق سے متعلق بل کے لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد راجیہ سبھا میں ملتوی رہ جانے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے پاس اسے قانونی شکل دینے کیلئے بہت ہی محدود متبادل رہ گئے ہیں۔ اس بل کے مستقبل کے بارے میں راجیہ سبھا کے سابق جنرل سکریٹری وی کے اگنی ہوتری نے بتایاتھا کہ حکومت کے پاس ایک متبادل موجود ہے کہ وہ آرڈیننس جاری کردے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ ایسا کرنا ایوان بالا کی بے عزتی کے مترادف ہوگا۔ایک مرتبہ میں تین طلاق کو فوجداری جرم بنانے کے بندوبست والے بل کو سرمائی اجلاس میں لوک سبھا سے پاس کیا جا چکا ہے ، لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کے مطالبہ پر بضد رہنے کی وجہ سے اس کو پاس نہیں کیا جاسکا۔ حالانکہ حکومت نے اس کو ایوان میں پیش کردیا ہے اور یہ فی الحال ایوان بالا کی ملکیت ہے۔
یہ بات بھی فراموش نہیں کی جا نی چاہئے کہ مسلمانوں کے عائلی مسئلے میں بی جے پی بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی دل چسپی مسلم خواتین سے ہمدردی کی بنیاد پرنہیں ہے،البتہ یہ ایک زعفرانی فراڈ ہے۔دراصل یہ ایک سیاسی بساط ہے جس پر کچھ مسلم عورتیں مہرہ بناکر بٹھادی گئی ہیں اور انہیں مودی کی جانب اس کی اجر ت بھی دی جاچکی ہے۔ایڈوکیٹ نازیہ الہی خان جو اس مودی مشن کی سرخیل رہی ہیں انہیں بھی زعفرانی شلوار قمیص مل چکی ہے اور عشرت جہاں جس کوپیادے کے طور پر لایا گیا تھا وہ بھی بھگوابریگیڈ کی جانب سے نوازی جاچکی ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ جس تین طلاق پر اس نے سپریم کورٹ تک کا سفرطے کیاتھاسراسر وہ مسلمانوں کے عائلی قانون کیخلاف ایک زعفرانی سازش تھی ۔اس لئے کہ اس موضوع پربعد میں جوخبریں موصول ہوئیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عشرت جہاں کے شوہرنے کبھی اس کو تین طلاق دیاہی نہیں تھا۔عشرت جہاں کے شوہر مرتضی انصاری نے اس بات سے یکسر انکار کردیا کہ انہوں نے کبھی اپنی بیوی کو فون پر تین طلاق دیا ہے۔ مظلوم مرتضیٰ انصاری نے صحافیوں کے سامنے یہ بات کہی ہے کہ اس نے طلاق دینے کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔حالانکہ عشرت جہاں نے عدالت میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے شوہر نے دوبئی سے فون پر تین طلاق دیتے ہوئے انہیں اپنی زوجیت سے خارج کردیا ہے۔ انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘ سے بات کرتے ہوئے مرتضی انصاری نے کہا کہ وہ آج بھی عشرت جہاں کو اپنے گھر میں ساتھ رکھنے کیلئے تیار ہے، بشرطیکہ وہ اپنے کردار میں تبدیلی پیدا کرے۔ دوسری طرف عشرت جہاں جس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2015 میں اس کے شوہر مرتضی انصاری نے دوبئی سے فون پر تین طلاق دیاتھا، تاہم عدالت عظمیٰ میں عشرت جہاں کا دعویٰ بے بنیاداورجھوٹا ثابت ہوچکا ہے۔ مرتضی انصاری نے جن کا تعلق ریاست بہار کے ضلع نوادا کے پکری براما سے ہے،’’دی ہندو‘‘ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی بھی تین طلاق کا لفظ استعمال کیا ہی نہیں ہے اور وہ آج بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے کیلئے تیار ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کولکتہ کے بجائے مرتضی کی والدہ کے ساتھ بہار میں رہے اور اپنے کردار میں تبدیلی لائے جس پر خوداس کے شکم سے نکلی بیٹی نے بدچلنی کا الزام لگایا ہے ۔مگر جب کوئی گمراہ عورت ،جسے دنیااوردولت کالالچ ہو وہ اگر کسی کے بہکاوے میں ایسے قدم اٹھالے جس سے ملت کی پریشانی میں اضافہ ہوتاہو تو اس سے ہوس پسندوں کو کبھی کوئی جھجھک نہیں رہی ہے۔بہرحال ملت اسلامیہ کوملک بھرمیں جس ذہنی اضطراب میں مبتلاکرنا تھا وہ کام کیا جاچکاہے ۔البتہ عارف محمد خان جنہوں نے مودی کی ’’چھتر چھایا میں آنے کیلئے پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی مودی اور بی جے پی انہیں اس کام انعام کب ،کیااور کتنا دیگی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
قارئین کرا م! شاید آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگی کہ تین طلاق کیخلاف جس بل کو راجیہ سبھا میں پینڈنگ رکھا گیا ہے ،اس کو بھنانے کیلئے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں یہ دعوے کررہی ہیں کہ ان کے دباؤ اور شدید مخالفت کی وجہ سے اس بل کو فی الحال موقوف رکھاگیا ہے ۔ ایوان زیریں میں شریعت پر پارٹی گائڈ لائن کوترجیح دینے والے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے مولانا اسرارالحق قاسمی نے کم اور ان کے دستار بردار چیلوں نے ضرورت سے زیادہ شور قیامت بپا کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو احمق بنانے کیلئے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ حضرت نے راجیہ سبھا میں کانگریس پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتوں کے قائدین کے ہاتھ پیر جوڑ کر اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ راجیہ سبھا میں اس بل کی مخالفت ضرور کریں۔ویسے مولانا کے عقیدتمند ناعاقبت اندیش جتھوں نے گزشتہ تقریباً چار برسوں میں خوب کرتب دکھایے ہیں۔بارہا اخبارات میں ایسی خبریں دیکھ کراہل شعور نے دانتوں تلے انگلی دبالیں کہ مولانا اسرارالحق قاسمی کے پارلیمنٹ میں دہاڑنے کی پریس ریلیز چھپوائی جاتی رہیں،اور طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے وقت میں یہ خبریں آیا کرتی تھیں جب پارلیمنٹ میں کوئی کارروائی ہوہی نہیں رہی تھی ،نہ کوئی سیشن چل رہا تھا۔اس سے بڑی کرتب بازی اور کیا ہوسکتی ہے۔دراصل یہ مادیت پرستی اور سرمایہ حاصل کرنے کا دورہے ،بلکہ حکومت کی غریب دشمن پالیسیوں نے تو اس درجہ بدتر حالت کردی ہے کہ صرف دو وقت کی روٹی کے بدلے میں ہی آپ جتنا بھی اپنی تشہیر کیلئے پروپیگنڈہ ٹیم جمع کرنا چا ہیں بآسانی کرسکیں گے۔ فرغائے مدارس وجامعات کے بے شمار بے روزگار نوجوان آپ کو مل جائیں گے جو چند ہزار ماہانہ اجرت پر آپ کو شہرت کی بلندی تک پہنچادیں گے۔اس کے علاوہ نو آموز فضلاء کی جامد عقیدتمندی بھی ان حضرتوں کادفاع کرنے کیلئے سینہ سپر مل جائے گی۔
میں نے گزشتہ 28 فرور ی 2017کو جب ایوان زیریں میں مولانا اسرارالحق قاسمی اور مولانا بدرالدین اجمل سمیت مسلم پرسنل لاء بورڈکی کارکردگی پر تبصرہ کیا تھا تو ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔مولانا اسرارالحق قاسمی اور مولانا بدرالدین اجمل کی دفاعی ٹیم نے انگشت نمائی کرنے والوں کی انگلیاں کاٹ لینے اور لکھنے والوں کے قلم چھین لینے کی کوشش شروع کردی۔میں نے گزشتہ بارہی لکھا تھا کہ جب آپ اس ایوان میں ’’مون برت‘‘پر بیٹھے رہے ،پھرآپ نے ایوان بالا کے اراکین اور کانگریس پارٹی کو بل کی مخالفت کرنے پر مجبورکیسے کرلیا،ایں چہ بوالعجبی است۔مولانا شعبدہ بازی چھوڑ دیجئے۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ 10جن پتھ اور24اکبر روڈ میں مسلم کانگریسیوں کی کتنی وقعت ہے،بڑے عہدوں پر فائز اعلیٰ کمان کے سامنے سجدے کی حدتک جھکتے ہوئے اوروفادارپالتوکی طرح دم ہلاتے ہوئے ہم نے درجنوں صاحبان جبہ و دستار کواپنی کھلی آ نکھوں سے وہاں دیکھاہے۔ اس مجرمانہ غفلت کے ملزم مولانا بدرالدین اجمل بھی ہیں ،وہ لاکھ بہانے تراش کریں ،مگرواقعہ کے بین السطور سے جو چیز جھلک رہی ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ دونوں رکن پارلیمنٹ کامعاملہ پہلے سے ہی منصوبہ بند تھا۔اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ساری باتیں دنیاکے سامنے آئینہ کی طرح صاف ہوچکی ہیں،حتی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سیاست سازی کا بھانڈابھی پھوٹ چکاہے۔
راجیہ سبھامیں بل پینڈنگ ہونے پر جولوگ اور سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو رجھانے میں لگ گئی ہیں انہیں اس خام خیالی میں نہیں رہنا چاہئے ۔ ملت اسلامیہ کا باشعور اور بیدارطبقہ اچھی طرح یہ بات جان چکاہے کہ اس بل کو طاق پررکھنے کی وجہ اپوزیشن کا دباؤ نہیں، بلکہ مودی حکومت کی مجرمانہ سازش ہے۔جسے راجیہ سبھامیں اس وقت عام کیاجائے گا ،جب ایوان بالا میں اس کی تعداد کانگریس سے بڑھ جائے گی اورعام انتخابات کے دن انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہوجائیں گے،جو عنقریب ہو نے والا ہے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس وقت عام انتخابات کا وقت قریب ہوگا اور اس کے ذریعہ وہ گمراہ مسلم عورتوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی راہ آسان کرلیں گے۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کو اچھال کرمودی اینڈ کمپنی ہندوووٹوں کو پولرائز کرنے میں بھی بڑی حد تک کامیاب ہوجائے گی۔
میں نے مندرجہ بالا سطور رقم کرنا اس لئے ضروری سمجھاکہ مختصر وقت کی خاموشی کے بعد ایک بار شریعت بچانے کے نام پر بورڈکے جنرل سکریٹری کے آبائی شہر مونگیر میں کل احتجاج کیا گیا۔خبروں کے مطابق تحفظ شریعت کمیٹی مونگیر کے زیراہتمام خواتین کی ریلی نکلی جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ شہر اور مضافات شہرکی خواتین نے حصہ لیا، ریلی میں خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہم تمام خواتین پوری قوت کے ساتھ یک آواز ہوکر سرکار پر واضح کرتی ہیں کہ تمہارے جھوٹے طلاق بل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ہر حال میں شریعت اسلامی پر چلیں گے، اور ہر مرحلہ میں مسلم پرسنل لابور ڈ کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ طلاق ثلاثہ بل بالکل غیر ضروری ، اسلامی شریعت اور ملکی آئین کے قطعی خلاف ہے، جو ملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شریعت اسلامیہ پر عمل کریں ۔حکمت اور تدبر کے ساتھ موجودہ حالات کا مقابلہ کریں اوراس بل کے خلاف اپنی ناراضگی کا خاموشی اور حکمت کے ساتھ اظہار کریں ۔ایک واٹس ایپ گروپ پرریلی کی تصویر کا کیپشن یہ تھا۔۔۔۔
’’ نوادہ میں انصارنگرمیں پزوراحتجاجی اجلاس وریلی امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور مسلم پرسنل لاء بورڈکے جنرل سکریٹری کے نمائندہ کی شرکت‘‘۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی ریلیوں سے موجودہ اقلیت دشمن حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا ہے۔اس کے برعکس کیامودی سرکاری اس بل کے تنازعے کو بھناکر ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے میں کامیاب نہیں ہوجائے گی ؟ہماری اس طرح کی سبھی سرگرمیوں کو اکثریتی اور منووادی طبقہ بھلی بھانتی دیکھ رہا ہے ،کیااس بھیڑ کو دکھاکر بھاجپائی شعبدہ باز ہندو ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے؟
آخر اس نازک وقت میں جب ہماری خاموشی ہی حکومت کیلئے مثبت جواب ہے ،پھر کس کے اشارے پر اور کس کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ سب کیا جارہا ہے۔یہ بات یاد رکھئے کہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے دین اور شریعت کیخلاف چاہے جتنی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔مگر وہ مرتے دم تک اپنے دین و شریعت کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔
میری کمزور آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھاہے جب لگ بھگ 75برس تک دنیا کی عظیم طاقت روس کے زیر نگیں ریاستوں میں اذان کی آوزیں نہیں گونجیں،قرآن کریم کی تلاوت اور مذہب پر عمل کو ناقابل معافی جرم قرار دیکر مسلمانوں کو ان کے مذہب اور ایمان سے دور کردینے کی سازش کی گئی ۔بالآخر ایک دن وہ بھی آیا جب15 مختلف جمہوریتوں پر مشتمل سوویت یونین راتوں رات ٹوٹ گیا اور یہ بکھراؤ اتنا بڑا تھا کہ 25 برسوں کے بعد آج بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔
20 ویں صدی میں تاریخ، معیشت، نظریات اور ٹیکنالوجی کو متاثر کرنے والا سوویت یونین جس طرح سے اچانک ایک رات میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔سنہ 1917 میں کمیونسٹ انقلاب سے پیدا ہونے والے سوویت یونین میں کم از کم 100 قومیتوں کے لوگ رہتے تھے اور ان کے پاس زمین کا چھٹا حصہ تھا۔ایک ایسی سلطنت جس نے ہٹلر کو شکست دی، جو امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں مبتلا رہا اور جوہری طاقت کی دوڑ میں بھی شامل رہا۔ اس نے ویتنام اور کیوبا کے انقلابات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سو یت یونین نے ہی خلا میں پہلا سیٹلائٹ بھیجا اور پہلا انسان بھی۔
قصہ مختصر یہ کہ جب روس کاسورج غروب ہوا تو اسی خدابیزار مملکت سے تقریباً نصف درجن سے زائد مسلم ممالک وجود میں آئے اور پچھتربرس تک امت کے جن جیالوں نے اسلام کو اپنے سینوں میں محفوظ کررکھا تھاوہ سب کے سب اپنی مساجد کو آباد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اگر مودی سرکار بھی اسی قسم کے ناپاک ارادے رکھتی ہے تو مسلمانان ہند بھی ترشول کی انیوں اپنے معبود کا کلمہ بلند رکھنے کا قابل جذبہ رکھتے ہیں۔لہذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری جانب سے ایسا کوئی موقع نہ دیاجائے جس سے سنگھ وبی جے پی کا پولرائزیشن کا منصوبہ کامیاب ہوجائے۔ملک کے مسلمانوں بورڈ کے پرچم بردار کو سیاسی مندروں میں منڈلاتے ہوئے خوب دیکھاگیا ہے جب کپل سبل فروغ انسانی وسائل کے وزیر ہوا کرتے تھے۔بورڈ کے انہیں اعلیٰ منصب بردار نے مودی سے نیاز حاصل کرنے کی حتی المقدور پوری کوشش کی تھی مگر اے! بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
قارئین ہم ہندوستانی مسلمان اس وقت آزمائش کے نازک دور سے گزر رہے ہیں اور ایسے موقع پر اسلام نے ضبط وتحمل اورصبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے سا تھ ہے۔
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں