آزادی ہند میں جمعیۃ علماء ہند

0
1776
All kind of website designing

۱۸۵۷ء کی جنگ، تحریک آزادی ہند کاایک انقلابی آغازہے ۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق جدوجہد آزادی کے حوالے سے حالات کا نقشہ یہ تھا کہ اس وقت تین پارٹیاں میدان عمل میں سرگرم عمل تھیں۔ پہلی پارٹی کا نام ہے انڈین نیشنل کانگریس۔ اس پارٹی کی تشکیل ۲۸؍ دسمبر ۱۸۸۵میں ایک انگریز Allan Octavian Hume نے کی تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنایا جائے تاکہ وہ برٹش حکومتوں کی زبان اور اس کے دستور کو سمجھ سکیں اور انگریزی تعلیم پاکر انگریزیت کے رنگ میں رنگ جائیں۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ نتیجہ اس کے برعکس سامنے آیا۔ کل تک جو ہندستانی ناخواندگی کی بنیاد پر ملک کے حالات اور انگریزوں کے سیاسی مکاریوں سے ناواقف تھے ، وہی ہندستانی جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئے، تو انھیں احساس ہوا کہ انگریزوں نے ہندستان پر جابرانہ و ظالمانہ قبضہ کررکھا ہے اور ہماری زندگی ان کی غلامی کی ذلت کی رہین ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہندستانیوں کا شعور بیدار ہوا اور ان کے دلوں میں جنگ آزادی کے شرربار جذبے انگڑائیاں لینے لگے ۔ دوسری پارٹی ایک مخصوص طبقے کے نام پربنائی گئی ، جس کا نام تھا آل انڈیامسلم لیگ ۔ اس پارٹی کا وجود ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ لیگیوں کا ماننا تھا کہ انگریزہیوم نے آل انڈیا کانگریس پارٹی اس لیے بنائی تھی تاکہ انگریزوں کے بعد ہندستان پر ہندو راج قائم ہوسکے۔ لہذا مسلمانان ہند کو انگریزوں کے بعد ہندووں کی غلامی سے بچانے کے لیے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے، چنانچہ اس جماعت نے اس وقت کے حالات کے مزاج اور مستقبل کے خوف ناک نتائج کو سمجھے بغیر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کی تشکیل کی کوشش شروع کردی اور یہی ایک کوشش اس جماعت کا بنیاد مقصد بن گیا۔ ہندستانیوں کو غلامی سے نجات دینے کے لیے ایک اور تحریک اٹھی ۔ اس تحریک کا نام تھا : جمعیۃ علماء ہند ۔ ویسے کلینڈر کے اعتبار سے اس کی تشکیل تو۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء میں ہوئی، لیکن اگر اس کی پوری تاریخ اور اس فکر کی جڑ کو تلاش کریں گے، تو اس کا سلسلہ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی سے جاملے گا۔ جب مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں شکست ہوئی، تو اس کے اسباب پر غور کرتے ہوئیحجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ اس قوم سے اپنے آباو اجداد کے پرسودہ ہتھیار سے لڑنا ناممکن ہے، اس کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان علم دین کے ہتھیار سے لیث ہوں اور یہی ایک ایسا ہتھیار ہے، جو ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلاسکتا ہے۔ اور ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔چنانچہ اس کے بعد حجۃ الاسلام نے اپنے طریقۂ کار کو بدلتے ہوئے دیوبند کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ۳۰؍ مئی ۱۸۶۶ ء میں ایک ادارہ قائم کیا، جو دارالعلوم دیوبند کے نام سے عالمی شہرت اختیار کرچکا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد جہاں تعلیم و تعلم تھا ، وہیں ملک کی آزادی کے لیے رجال کار بھی تیار کرنا تھا۔ چنانچہ تاریخ شاہد عدل ہے کہ اس ادارے کے فارغین نے جہاں دینی سلسلے کو آگے بڑھایا، وہیں جنگ آزادی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کا قیام بھی ان کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ان بنیادی باتوں کے بعد آئیے اب مختصرا اس وقت کا جائزہ لیتے ہیں، جس وقت ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان یعنی جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جنگ آزادی کے لیے جتنی بھی تحریکیں میدان عمل میں اتریں ، ان کا دائرۂ کاریاتو ان کے مسلکی افراد تک محدود تھایا پھر آزادی کے نام پر اپنے خاص نظریے کو تھوپنے کی کوشش تھی۔بطور خاص آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی مسیحائی کے لیے خوب صورت نام کا سہارا لے کر فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینے میں مصروف عمل تھی۔ اور ان میں کچھ تحریکیں ایسی بھی تھیں، جن کا کردار صاف طور پر ملک سے غداری پر مبنی تھا۔ ان کے لیے تو انگریز گویا ایک مسیحا اور نجات دہندہ تھا۔ المختصر جدوجہد آزادی جاری تھی، مگر کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ہوکر محض ایک ہندستانی ہونے کی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جائے۔ملک کا یہی نقشہ تھا کہ۲۳ نومبر ۱۹۱۹ء میں بمقام دہلی ’’خلافت کانفرنس ‘‘ ہوتی ہے، جس میں ملک کے کونے کونے سے علمائے کرام تشریف لاتے ہیں۔ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں کی تنظیم سمجھی جانے والی آل انڈیامسلم لیگ علما کی قیادت سے محروم ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اگر بروقت علمائے کرام مسلک و مشرب کے اختلاف سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت کے ساتھ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، تو اس ملک سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔چنانچہ اسی محفل میں ید بیضا لیے بیٹھے اہل اللہ اور خرقہ پوش متقی علمائے کرام نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس تنظیم کی نیو رکھی اور اس کا نام ’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ رکھا۔ چنانچہ اس جماعت نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے،ملک کی مکمل آزادی کے لیے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی ۔آئیے اس عنوان کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی حوالہ دیکھتے ہیں کہ ۱۹۱۹ء میں (جو کہ جمعیۃ علماء ہند کا سن قیام ہے) اس نے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ اسی سال جدوجہد آزادی کی پاداش میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ اور امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کو گرفتار کر لیا گیا، جن کی رہائی کے لیے بھرپور جدوجہد کی گئی۔۱۹؍ جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جسے ۶؍ ستمبر کو کلکتہ میں منعقد جمعیۃ کے خصوصی اجلاس میں اس کی بھرپور تائید کی گئی اور پھر ۱۹؍تا ۲۱؍ اکتوبر دہلی میں منعقد دوسرے اجلاس عام میں یہ اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ سے ہر طرح کے تعلقات کا بائکاٹ کیا جائے اور اسے ایک مذہبی فریضے کے طور پر ناجائز اور حرام قرار دیا۔اس تجویز میں یہ کہاگیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس کامل غور کے بعد مذہبی احکام کے مطابق اعلان کرتا ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنے حرام ہیں، جس کے ماتحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں۔ (۱) خطابات اور اعزازی عہدے چھوڑ دینا۔ (۲) کونسلوں کی ممبری سے علیحدگی اور امیدواروں کے لیے رائے نہ دینا۔ (۳) دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا۔ (۴) کالجوں اسکولوں میں سرکاری اِمداد قبول نہ کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق قائم نہ رکھنا۔ (۵) دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا۔ (۶) عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان مقدمات کی پیروی نہ کرنا۔ ملک کے بگڑتے حالات ؛ بطور خاص فرقہ پرستی کی ذہنیت کو پنپتے دیکھ کر اسی سال یہ فیصلہ کیا کہ آزادی کی لڑائی مذہب کے بجائے برادران وطن کے ساتھ اتحاد و ربط پیدا کرکے لڑی جائے ، چنانچہ اس نے خود بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا اور جدوجہد آزادی کی دیگر منتشر قوتوں کو بھی کانگریس کے پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ ۸؍ جولائی ۱۹۲۱ء میں بمقام کراچی خلافت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی ؒ نے شرکت کی اور جمعیۃ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے تمام تعلقات قطع کرنے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ہی ترک موالات کے فتوی کو بھی ضبط کرلیاگیا۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند خاموش نہیں بیٹھی اور ۱۸؍ تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۱ء لاہور میں تیسرے اجلاس عام کا انعقاد کیا اور اس کھلے اجلاس میں اعلان کیا کہ ترک موالات کی تحریک جاری رہے گی، چاہیے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ جمعیۃ کے اس عزم کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس فتویٰ کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت پر پابندی بھی لگادی، لیکن جمعیۃ نے اس کے باوجود اسے بار بار شائع کیا اور تقسیم کیا۔۹، ۱۰؍ فروری ۱۹۲۲ء کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس کیا اور یہ فیصلہ لیا کہ لوگ بڑھ چڑھ کر انفرادی سول نافرمانی میں حصہ لیں۔ ۲۴؍ تا ۲۶؍ اپریل ۱۹۲۲ء میں بمقام گیا چوتھا اجلاس عام کیا اور کونسلوں سے بائکاٹ کرنے کی تجویز پاس کی۔جمعیۃ علماء ہند کی برادران وطن کے ساتھ متحدہ جدوجہد انگریزوں کو ایک آنکھ نہ بھائی ، تو پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے ہندو مسلم کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور جذبۂ آزادی کو ختم کرنے کے لیے غیر مسلموں میں شدھی سنگھٹن کھڑا کیا اور مسلمانوں میں قادیانیت کا فرقہ ( جو پہلے سے ہی ارتدادی کام انجام دے رہا تھا ) اور دیگر فرقوں کو کھڑا کیا، لیکن جمعیۃ علماء ہند نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا مشن جاری رکھا۔۳؍ جنوری ۱۹۲۳ کو کوکناڈ میں پانچواں اجلاس کیا اور مکمل آزادی کے مطالبے کو دہرایا۔۱۱؍ تا ۱۴؍ مارچ کلکتہ میں ساتواں اجلاس عام کیا اور ترک موالات کی تحریک کو جاری رکھتے ہوئے مکمل آزادی تک جدوجہد کرنے کا عہدو پیمان لیا۔۱۹۲۷ء میں حکومت ہند کے دستور میں تبدیلی کے نام پر جذبۂ آزادی کو سرد کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن بنائی۔ جمعیۃ نے اس کے مقصد کو بھانپتے ہوئے کمیشن کا مکمل بائکاٹ کیا ۔۱۹۲۸ء میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ’’نہرو رپورت ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ برطانوی حکومت کو دی۔ اس رپورٹ میں مکمل آزادی کے بجائے برطانوی حکومت کے تحت آئینی مراعات حاصل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ رپورٹ کے جائزے کے لیے ایک سب کمیٹی بھی بنائی ، جس نے ترمیمی مسودہ بھی تیار کیا۔ اس میں مکمل آزادی سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہ ہونے کی وکالت کی گئی۔۱۹۲۹میں گاندھی جی کے ذریعے چلائی جارہی تحریک ’’تحریک نمک سازی‘‘ میں جمعیۃ علماء ہند نے بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۳۰ ء میں تحریک سول نافرمانی کو دوبارہ شدومد کے ساتھ چلائی گئی ، جس کی وجہ سے حکومت بوکھلاہٹ کی شکار ہوگئی اور صدر جمعیۃ حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ اور ناظم عمومی حضرت مولانا احمد سعید صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ۳۱؍ مارچ تا یکم اپریل۱۹۳۱ء کراچی میں دسواں اجلاس عام کیا گیا، جس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششوں پر زور دیا گیا اور اسی سال آزاد ہندستان کا دستوری خاکہ پیش کرنے کے لیے حکومت کے سامنے ایک فارمولہ پیش کیا ، جو تاریخ میں ’’مدنی فارمولہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں سول نافرمانی تحریک دوبارہ شروع کی گئی اور ساتھ ہی کانگریس کی جنگی کونسل کی طرح ایک ادارہ قائم کیا، جس کانام ’’ادارۂ حربیہ‘‘ رکھا۔ ۱۹۳۳ء میں بمقام مرادآباد مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا اور یہ فیصلہ لیا کہ کامل آزادی ملنے تک جدوجہد جاری رہے گی۔۱۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء میں ملک کے حالات کے پیش نظر ایک لاکھ افراد پر مشتمل ایک احتجاجی جلوس نکالاگیا، جس کی قیادت حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ نے کی اور انھیں دفعہ ۱۴۴؍ کی خلاف ورزی کرنے کے نام پر گرفتار کرلیا گیا۔ اگست ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پاس کرانے میں جمعیۃ علماء ہند کو بڑی کامیابی ملی۔ واضح رہے کہ اس ایکٹ میں مدنی فارمولہ کی تجاویز شامل کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مذہبی مراعات حاصل ہوسکیں۔جب تقسیم وطن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا،جس کی اصل یہ تھی کہ وطن کی تعمیر مذہب کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے، چنانچہ خود کو مسلمانوں کی مسیحا کہلانے والی تنظیم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک خدا کی پرستش کرنے والی قوم کروڑوں خداوں کو ماننے والی قوم کے ساتھ ایک ساتھ کیسے رہ سکتی ہے ، کیوں کہ قومیں سرحد سے بنتی ہیں، چنانچہ لیگ نے مسلمانوں کے لیے اسلامی سلطنت کے خوب صورت نام پر پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا؛ لیکن جمعیۃ علماء ہندکے اکابرین نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا کہ جس قسم کے لوگ اور جس طریقے سے پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، اس میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہے، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی اور تقسیم کے بجائے ’’ متحدہ قومیت‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔یہ ۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے ۔یہ نظریہ پیش کرنا تھا کہ لیگیوں نے جمعیۃ علماء ہند اور اس کے اکابرین کے ساتھ بدتمیزیوں اور گستاخیوں کا ایک طوفان کھڑا کردیا، جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کو زیادتیوں کا نشانہ بنایاگیا ، انھیں گالیاں دی گئیں ، ان کا مذاق اڑایا گیا اور شیخ الاسلام کے بجائے انھیں شیخ الاصنام کہنے لگے۔ ان الزام تراشیوں میں صرف عوام نہیں ؛ بلکہ بڑے بڑے خواص بھی مبتلا تھے، جس پر اس وقت کے جنرل سکریٹری مولانا احمد سعیدصاحب نور اللہ مرقدہ نے پیش قیاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لیگی مدنی صاحب کے ساتھ گستاخیاں کر رہے ہیں، ان سے حضرت مدنی کا تو کچھ بگڑنے والا نہیں، البتہ لیگیوں کا نام و نشان ضرور مٹ جائے گا۔ آج تاریخ شاہد ہے کہ بدتمیزی کرنے والوں کے نام تک باقی نہیں رہے اور حضرت کا نام آج بھی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں اور ہندستانیوں کی گردنیں ان کے احسانات کے بارگراں سے خم کھائی ہوئی ہیں۔۱۹۴۱ ء میں آزادی کے متوالوں نے ایک تحریک بنائی ، جس کا نام تھا ’’ ستیہ گرہ‘‘ ۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی مکمل حمایت کی۔ اسی سال یہ طے کیا گیا کہ سول نافرمانی تحریک میں تشدد کے بجائے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ۱۹۴۲ء میں جمعیۃ علماء ہند نے آزادی کی تحریک کو مہمیز کرتے ہوئے یہ نعرہ دیا کہ’’ انگریزو!ہندستان چھوڑود‘‘۔ اور مکمل آزادی کے لیے ریاستوں کی مکمل خود مختاری کی قرارداد منظور کی۔ حالات کے پیش نظر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے جگہ جگہ حصول آزادی کے موضوع پر تقریریں شروع کردیں، جن کے نتیجے میں آپ کو پھر گرفتار کرلیاگیا اور ساتھ ہی انگریزوں نے آزادی کے مجاہدین کی عام گرفتاری بھی شروع کردی، جس کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے دفعہ ۱۲۹؍ ڈیفینس آف انڈیا رولز کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ عام گرفتاری بند کرے۔۱۹۴۳ء میں پھر شدت کے ساتھ قیام پاکستان کے نظریے کی مخالفت کی اور اس کے بھیانک نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ اسی دوران فرقہ پرستی اور مسلم فرقہ پرستی بھی عروج پر تھی، جمعیۃ نے ان دونوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیااور لوگوں سے یہ اپیل کہ وہ خوب صورت نام سے دھوکہ نہ کھائیں اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔تقسیم ہند کے نظریہ کا طوفان جب کسی طرح سے بھی نہ تھما، تو ۱۹۴۵ء میں اس کے متبادل نظریہ ’’ مدنی فارمولہ ‘‘ پیش کیا ۔اسی سال جمعیۃ نے ایک اہم کام یہ کیا کہ آل مسلم پارٹیز کی کانفرنس بلائی اور مسلم پارلیمنٹری بورڈ سے کہاکہ وہ مرکزی و صوبائی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑا کرے۔ تمام روپوش مجاہدین آزادی سے پابندی اٹھالینے اور ان کی عام رہائی کی بھی کوشش کی۔۱۹۴۶ء میں برٹش حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادی ملک، آزادی مذہب، کلچر، زبان، اس کی رسم الخط، مذہبی تعلیم و تبلیغ ، مذہبی عقائد و اعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف جیسے مسائل کو مسلمانوں کے فنڈا مینٹل رائٹس کے طور پر منظور کرے اور حکومت ان میں مداخلت کرنا بند کرے۔قیام پاکستان کی مخالفت پر مسلم لیگ بدستور اکابرین جمعیۃ کی شان میں گستاخی اور بد تمیزی کرتے رہے۔۲۰؍ فروری ۱۹۴۷ء میں برطانوی وزیر اعظم کے اعلان آزادی کا خیر مقدم کیا ؛ البتہ انتقال اختیارات کے طریقے کو واضح نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ فرقہ وارانہ تقسیم اور پنجاب کو دو حصوں مسلم و غیر مسلم پنجاب میں تقسیم کرنے کی سخت مذمت کی۔آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مذہبی و قومی تحفظ کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے تمام مسلم تنظیموں سے مل کر کوئی فیصلہ کرنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں نے اس کی طرف سے لاپرواہی برتی اور ضد سے کام لیا، تو آزاد ہندستان میں ان کے لیے کوئی مناسب مقام نہ ہوگا (کاروائی مجلس عاملہ ۱۰ تا ۱۳ مارچ ۱۹۴۷)۔ برطانیہ نے تقسیم کا جو پلان پیش کیا تھا، اس میں نہ تو مکمل آزادی کا ذکر تھا اور نہ ہی ہندستان کی وحدت کاتذکرہ تھا۔ اس سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ’’ اس پلان کی وجہ سے مسلمانان ہند تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اور تقریبا پانچ کروڑ مسلمان ایک ایسی اکثریت کے حوالے کردیے گئے ہیں، جس کی تعداد پچیس کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی یہ تباہی ان کی گمراہانہ رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس نقصان دہ تقسیم کو ہی قبول کرنا تھا ، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا جب کہ مسٹر گاندھی اور مسٹر راج گوپال آچاریہ اس تقسیم کی پیشکش کر رہے تھے یا جب کہ کیبنٹ مشن سے گفتگو ہورہی تھی ، لیکن اس وقت پاکستان کو ’’چھلکا‘‘ اور سایہ کہہ کر مسٹر جناح نے رد کردیا ۔ اگر یہ چھوٹا اور بے حقیقت پاکستان اس وقت قبول کرلیا جاتا، تو مسلمان یوں تباہ و برباد نہ ہوتے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کانگریس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے اس تقسیم کو منظور کرکے ملک کے مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اپنے اصول سے کھلا انحراف کیا ہے۔ ‘‘ (کاروائی مجلس عاملہ ۲۴؍ جون ۱۹۴۷)۔ لیکن جوں ہی زبردست جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ۱۵؍ اگست کو ہندستان کی آزادی کا اعلان مسرت ہوا، تو اسی وقت تقسیم کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات نے ساری خوشیوں کو خاک میں ملادی۔ اکابرین جمعیۃ نے قبل از تقسیم، تقسیم کے نتیجے میں پیش آنے والے جن بھیانک اور خوف ناک خطرات کی پیش قیاسی کی تھی، وہ ایک ایک کرکے پوری ہونے لگی۔ ایسے نازک وقت میں بھی جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا اور آگ و خون کی اس ہولی کو روکنے کی انتھک جدوجہدکی اور انھیں اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کا حوصلہ بخشا۔پھر ۲۷، ۲۸؍ دسمبر۱۹۴۷ کو لکھنو میں منعقد ہونے والی آزاد کانفرنس سے فرقہ وارانہ پارلیمانی سیاست سے دستبرداری اور تعمیری پروگرام کا اعلان کیا۔ یہاں پر ہم تاریخ سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ سوال تاریخ سے کرنا جتنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ یہ سوال ہر ہندستانی مسلمان خواہ وہ کسی بھی شعبہ حیات سے وابستہ ہو یا پھر کسی بھی مسلک و مشرب کا ترجمان ہواپنے آپ سے کرے ۔اور پھر تاریخ اس کا جو جواب دے گی ، اس کی روشنی میں اپنے کردار کے تعلق سے خود سے اور اپنی خودی سے سوال کرے کہ اس محسن کے لیے اب تک ہمارا رویہ کس طرح کا رہا ہے ؟ اگر ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ رہا ہے، تو ان کے لیے نیک مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اس رویے سے باز آجائے اور خود کو اس کے لیے وقف کردے ۔ اور اگر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ نہیں بلکہ دوستانہ رہا ہے، تو یہ اس کے لیے خوش آئند بات ہے، لیکن اس کو بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ یہ دوستانہ تعلق محض ظاہر پرستی پر مبنی ہے ، یا اس کا واقعیت و حقیقت سے بھی کچھ تعلق ہے؛ اگر اس کا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق حقیقی بنیادوں پر قائم ہے، تو اسے سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ معاملہ صرف ظاہر پرستی تک محدود ہے ، تو اس کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ بھی اپنے کردار کا جائزہ لے اور پھر اسے واقعیت میں بدلنے کا عزم کرے کہ یہی خود کے ساتھ ، تاریخ کے ساتھ اور اس محسن کے ساتھ انصاف ہوگا۔ وہ سوال یہ ہے کہ ۱۸۸۵ میں تشکیل کانگریس پارٹی تمام برادران ہند کی نمائندہ پارٹی کہلاتی ہے، جو تحریک آزادی میں سرگرم عمل ہے۔ پھر ۱۹۰۶ میں فرقہ واریت کی سوچ پر مبنی ایک جماعت وجود میں آتی ہے، جسے آل انڈیا مسلم لیگ کا نام دیا جاتا ہے، جو بعد میں تقسیم ہند کی وکالت کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہب کے نام پر پاکستان بنانے کی جدوجہد شروع کردیتی ہے، جس سے فرقہ پرستی کے نظریات میں شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر ۱۹۱۹ میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آتا ہے، جو ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتی ہے۔ اور وہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم ہندستان کی مٹی پر پیدا ہوئے ہیں، یہی ہمارا اصلی وطن ہے اور اسی زمین میں ہم دفن ہوں گے۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود آج برملا یہ کہاجاتا ہے کہ ہندی، ہندو، ہندستان، مسلم بھاگو پاکستان ۔ تو ذرا غور رکیجیے کہ اگر ۱۴؍ جون ۱۹۴۷ ؁ء کو کانسٹی ٹیوشن ہاؤس دہلی میں کانگریس کے اجلاس میں پیش کی گئی تقسیم ہند کی تجویزپر اے۔ آئی۔ سی۔ سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی)کے تقریباً چھ سوارکان کی ہم نوائی و حمایت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند بھی دستخط کردیتی ، تو بھلا بتائیے کہ آج ہندستان میں مسلمانوں کے لیے فخر اور حق کے ساتھ جینے کے لیے کیا جواز رہ جاتا؟ علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند نے ہندستان میں مسلمانوں کے قومی اور ملی امتیازات و تشخصات اور ان کے دینی و سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جو کارنامے پیش کیے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ دعویٰ خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا کہ آج ہندستان کے کونے کونے میں جومساجد، مدارس ، مکاتب، خانقاہیں ،دینی ادارے، مذہبی تحریکات کی آزادی، تبلیغی مشن، چہروں پر داڑھیاں، سروں پر ٹوپیاں، جسم پر برقعے اوراسلامی تہذیب کو اختیارکرنے کا حق حاصل ہے ، وہ سب کے سب جمعیۃ علماء ہند کی کاوشوں کی رہین منت ہیں۔ ان تاریخی حقائق کے بعد بھی اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک ہندستانی مسلمان ہوتے ہوئے وہ جمعیۃ کا احسان مند نہیں ہے، تو اسے ناسپاس اورحقیقت بینی سے معذور کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ المختصر جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے ملک و قوم کے لیے حالات کے تقاضے کے پیش نظرجو کار ہائے نمایا ں انجام دیے ہیں، وہ ناقابل فراموش ہیں؛ بالخصوص تحریک آزادی ہند میں جو کردار اس نے ادا کیے ہیں، ان کا انکار سراسر تاریخی شہادتوں کو جھٹلانے کے مرادف ہے!!

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here