مسلمان بہر صورت شریعت پر عمل کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔
طلاق ثلاثہ سے متعلق قانون کے پس پشت مسلمانوں پر کسی نہ کسی طرح یونیفارم سول کوڈ کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حکومت ہٹ دھرمی کا رویہ اپناتے ہوئے انصاف اور رائے عامہ کو طاقت کے ذریعہ روندنے پر آمادہ نظر آتی ہے جو کسی بھی جمہوریت کے لیے باعث شرم ہے۔
نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک روزہ اجلاس اختتام پذیر
نئی دہلی۔ ملک کی موجودہ صورتحال اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے اہم بنیادی مسائل کے تناظر میں مسلمانان ہند کی سب سے قدیم، متحرک اور فعال تنظیم جمعیۃ علما ء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس مرکزی دفتر نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی، پیرطریقت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری، جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی، جمعیۃ علماء آسام کے صدر اور ممبرپارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی، جمعیۃ علماء ہند قانونی مشیر ایڈوکیٹ مولانا نیاز احمد فاروقی سمیت ملک بھر سے جمعیۃ علماء ہند کے اراکین مجلس عاملہ و مدعوئین خصوصی نے شرکت کی۔
اجلاس میں طلاق ثلاثہ پر حکومت کی طرف سے قانون سازی اور یوپی میں لاؤڈ اسپیکر سے متعلق جاری کردہ ہدایات سمیت کئی قومی وملی مسائل پربحث و تمحیص کے بعد اہم فیصلے کیے گئے۔
اجلاس میں طلاق ثلاثہ بل پر حکومت کی جانب سے ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کی سخت تنقید کرتے ہوئے مجلس عاملہ نے اسے ناقابل قبول اور مسلمانوں کے لئے ناقابل عمل قراردیا، اس سے متعلق مجلس عاملہ کے اجلاس میں ایک اہم تجویز منظور ہوئی ، جس میں صاف لفظو ں میں کہا گیا کہ دستور ہند میں دیے گئے حقوق کے تحت مسلمانوں کے مذہبی اور عائلی معاملات میں عدالت یا پارلیامنٹ کو مداخلت کا ہرگز حق نہیں ہے ، لہذا اگر پارلیامنٹ کوئی ایسا قانون بنائے گی یا حکومت ہند کی طرف سے ایسا کوئی آرڈیننس لایا جائے گا جس سے شریعت میں مداخلت ہو تی ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے ہرگز قابل عمل نہیں ہو گا اور مسلمان بہر صورت شریعت پر عمل کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔
مجلس عاملہ کے ذریعہ منظور کردہ تجویز میں مسودہ قانون کو مسلم مطلقہ خواتین کے ساتھ ناانصافی قراردیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت اس کا قوی امکان ہے کہ مطلقہ خواتین ہمیشہ کے لیے معلق ہوجائیں اور ان کے لیے دوبارہ نکاح اور ازسرنو زندگی شروع کرنے کا ر استہ یکسر قطع ہو جائے، اس طرح طلاق کے جواز کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ مرد کے جیل جانے کی سزا عملی طور پر عورت اور بچوں کو بھگتنی پڑے گی۔ مزید برآں جس قوم کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے ان کے نمائندوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، نیز مختلف مذہبی مکاتب فکر، شریعت کے ماہرین اداروں اور تنظیموں نے اس مسئلے کے حل کے لیے شریعت کے دائرے میں جو تجاویز پیش کی ہیں، انھیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ حکومت ہٹ دھرمی کا رویہ اپناتے ہوئے انصاف اور رائے عامہ کو طاقت کے ذریعہ روندنے پر آمادہ نظر آتی ہے جو کسی بھی جمہوریت کے لیے باعث شرم ہے۔ مجلس عاملہ نے بالاتفاق کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کے پس پشت مسلمانوں پر کسی نہ کسی طرح یونیفارم سول کوڈ کو تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کا مقصد خواتین کے ساتھ انصاف کے بجائے مسلمانوں کو مذہبی آزادی سے محروم کرنا ہے جو ہر گز منظورنہیں ہے۔
مجلس عاملہ نے تجویز میں تمام مسلمانوں سے پر زور اپیل کی ہے کہ وہ بالخصوص طلاق بدعت سے پوری طرح احتراز کریں اور شریعت کے حکم کے مطابق نکاح طلاق اور دیگر عائلی معاملات کو طے کریں تاکہ اس بہانے سے حکومتوں کو دخل اندازی کا موقع نہ مل سکے۔ خانگی تنازعات کی صورت میں محاکم شرعیہ کے ذریعہ فیصلہ کا راستہ اختیار کریں اور سرکاری عدالتوں اور مقدمہ بازی سے احتراز کریں۔
اس تجویز کے تناظر میں مجلس عاملہ کی کارروائی پر روشنی ڈالتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی نے کہا کہ سرکار مسلمانوں پر شریعت کے خلاف قانون ہر گز نہ تھوپے، سرکار جس طرح کا رویہ اختیار کررہی ہے وہ درحقیقت جمہوری اقدار کی پامالی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آ ج کے اجلاس میں یوپی میں لاؤڈ اسپیکر سے متعلق جاری کردہ ہدایات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے متعلق ایک تجویز میں یہ کہا گیا کہ ’’الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے لاؤڈاسپیکر کے استعمال سے متعلق حالیہ احکامات کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس سبھی مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مساجد کے لاؤڈاسپیکروں کی انتظامیہ سے اجازت لینے کے لیے قانونی کارروائی پوری کریں اور اگر کسی جگہ کوئی پریشانی پیش آئے تو مرکزی اور صوبائی جمعیۃ کے ذمہ داروں سے رابطہ کریں اور حکومت یوپی سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملے میں فرقہ وارانہ تفریق نہ ہونے دیں بلکہ سبھی فرقو ں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرتے ہوئے یکساں طور پر قانون کا نفاذ کرے۔
مجلس عاملہ کے اجلاس میں تنظیم کے سوسال مکمل ہونے پر جشن صدسالہ تقریبات پر بھی گفتگو ہوئی، اس سے متعلق سرگرمی تیز کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی نیز طے پایا کہ اگلے سال 22، 23 اور 24 فروری 2019ء کو تاریخی شہر دیوبند میں صدسالہ کا اختتامی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
مجلس عاملہ نے قضیہ فلسطین پر امریکہ اور اسرائیل کے رویے کی سخت مذمت کی اور فلسطینی عوا م کے ساتھ یگانگت اور یک جہتی کا اظہار کیا، مجلس عاملہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ذریعہ دورہ ہند پر بھی تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند کو فلسطینی کاز کی حمایت کی دیرینہ پالیسی پر قائم رہنا چاہیے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں