سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی
اپنے اسلام دشمن اور وطن مخالف بیانات ،نفرت انگیزشرارت اور بدتمیزی کی حد تک سنگھ کے منصوبوں کو تحفظ دینے میں پیش پیش،ملت کی درجنوں املاک پر ناجائز طریقے سے قابض ،حتی کہ قبرستانوں اور مسجدوں تک کو بیچ کھانے کے الزمات میں ماخوذ ،خورد برد اور لوٹ کھسوٹ کے کئی معاملے کے مجرم، چارج شیٹیڈ یہ ننگ دین اور عدالت کو مطلوب مجرموں کی فہرست میں شامل شیعہ وقف بورڈ کے نام نہاد چیئر مین وسیم رضوی نے اب اپنے سنگھی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے مدارس اسلامیہ ہند پر بھونکنے کی جرأت کی ہے۔وسیم رضوی نے کہا ہے کہ ہندوستان کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ،اسے فوراً بند کیا جانا چاہئے ۔مدرسوں کو سی بی ایس ایس اور آئی سی ای ایس کی بھی منظوری ملنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مدرسوں میں غیر مسلم طلباء کو داخلہ دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ رضوی نے کچھ اس طرح سے تحکمانہ لہجہ میں مدارس اسلامیہ کو مخاطب کیا ہے کہ لگتاہے کہ ان سارے مدارس اسلامیہ کو اس کے ابا نے قائم کیا ہے اور وہاں زیر تعلیم یتیم و نادار اور غریب مسلمان بچوں کو جو روٹی اور تعلیم دستیاب کرائی جارہی ہے وہ بھی رضوی کے ابا ہی فراہم کررہے ہیں۔رضوی نے آخر کس حق کی بنیاد پر مدارس سے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے یہاں غیر مسلم طلباء کو بھی داخلے دیں۔اس سوال کا جواب ہم تھوڑی تفصیل کے ساتھ درج ذیل سطور میں نقل کریں گے۔ سب سے پہلے ان سارے مطالبات کو ایک بار سمجھ لیجئے جو مدارس سے وسیم رضوی نے کیا ہے۔اس ناپاک ذریت نے مدارس اسلامیہ پر یہ الزام لگاتے ہوئے کہ یہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے ،لہذا مدارس کو بند کردینا چاہئے اور وہاں کلی طور پر سرکاری اکیڈمیوں اور سنگھ کے شیشو مندر جیسے نظامہائے تعلیمات نافذ کئے جانے چاہئیں۔رضوی نے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا ہے۔ اس دوران اس نے مدارس اسلامیہ پر الزامات کی جھڑی لگاتے ہوئے کہا ہے کہ’مدرسے انجینئر، ڈاکٹرنہیں بلکہ دہشت گردوں کو پیدا کرتے ہیں‘۔
رضوی نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ مدرسوں کو سی بی ایس سی ،آئی سی ایس ای بورڈ میں شامل کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ مدرسوں میں غیر مسلم طالب علموں کو بھی پڑھانے کی اجازت ملنی چاہیے۔
رضوی کے اسلام دشمن بیان پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے تمام مسالک کے مسلمانوں ، ملی دانشوروں اوردینی رہنماؤں نے سخت نوٹس لیا ہے اور خود مولانا کلب جواد نے وسیم رضوی کی مذ مت کرتے ہوئے فی الفور اس کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔مولانا کلب جواد نے کہا ہے کہ اگر وسیم رضوی کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ سڑک پر کر احتجاج کریں گے۔ان کا کہناہے کہ اس قسم کے بیان سے ملک میں امن امان کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ رضوی کے جارحانہ اور نفرت انگیز بیان سے اتر پردیش میں فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے،لہذ اگر ریاستی حکومت اتر پردیش کے امن وامان کو بحال رکھنا چاہتی ہے تووسیم رضوی کو فوراً گرفتار کرے اور اس کے خلاف سخت سے سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ورنہ ہم دہلی اور لکھنؤ کی سڑکوں پر اتر کر احتجاج کریں گے۔انہوں نے کہا کہ رضوی کا الزام بے بنیاد ہے،اور ریاستی حکومت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کرپشن کا مجرم ثابت ہونے کے باوجود رضوی کو آزادی کیوں دی ہوئی ہے اور اس کی بے لگامی پر آئینی کارروائی کرنے سے گریز کیوں کیا جارہا ہے۔ اسی طرح آج وسیم رضوی کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایک دیگر شیعہ عالم مولانا ادیب حسن رضوی نے کہا ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی مدرسہ میں دہشت گردی یا نفرت کی تعلیم نہیں دی جاتی ،بلکہ ہر جگہ حب الوطنی ،بقائے باہم اور امن دوستی کی ہی تعلیم دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’مدارس کے خلاف آواز اٹھانے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ مدارس اسلا میہ نے 1857 کی جنگ میں مفتی محمد عباس جیسا مجاہد آزادی دیا جس نے برطانیہ کی غلامی کو کبھی قبول نہیں کیا۔ گاندھی جی کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی جیسے لوگ وطن کی آزادی کیلئے پیش پیش تھے اور قیدو بند کی صعوبتیں جھیلی تھیں، ان سبھی کا تعلق مدرسوں سے ہی تھا۔مدرسے کے پڑھے ہوئے لوگ پروفیسر ہیں۔ مدرسے کی تعلیم حاصل کرکے مولانا پروفیسر بدرالحسن جیسے نابغہ روزگار افرادبا ہر آ ئے جنہوں بی ایچیو میں شعبہ فارسی کو بلندیوں تک پہنچایا۔ مدارس اسلامیہ نے ہی محمد ظہیر اور مختار محسن جیسے پی سی ایس اس قوم کو دیے ہیں۔
انہوں نے کہاہے کہ وسیم رضوی بتائیں کہ اتنے سالوں میں انہوں نے وقف بورڈ کے لئے کیا کیا ہے۔ اپنی کرسی کے لئے جنہوں نے کبھی اعظم خاں کواپنا آقا تسلیم کیاتو اب یوگی کے قدموں میں سجدے کررہے ہیں۔ وسیم رضوی یہ سوچتے ہیں کہ اس ذلیل حرکت سے وہ بی جے پی میں اپنے لئے جگہ بنا لیں گے۔ آر ایس ایس بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ جوشخص آج کرسی کے لئے اپنی قوم کے ساتھ غدار ی کرنے سے گریز نہیں کر رہا ہے وہ کل اپنی کرسی کے لئے آر ایس ایس کے ساتھ بھی فراڈ کرے گا اور اس کی موقع پرستی ،خود غرضی اور ملت فروشی اس کو کسی بھی حدتک لے جاسکتی ہے۔دریں اثنا آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمینکے صدر اسد الدین اویسی نے سخت لفظوں میں اس بیان کی مذمت کی ہے۔اسد الدین اویسی نے کہا کہ وسیم رضوی سب سے بڑا جوکر اور موقع پرست انسان ہے ،جس نے اپنی روح اور اپنے ضمیر کو آر ایس ایس کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے۔ میں اس شخص کو چیلنج کرتا ہوں کہ شیعہ یا سنی کے کسی ایک مدرسہ کیخلاف اپنے جھوٹے الزام کو ثابت کرے، جہاں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر اس کے پاس ثبوت ہے تو شہرت کی ہوس مٹانے کے بجائے ان ثبوتوں کو وزارت داخلہ کے پاس لے کرجا نا چاہئے۔
مذکورہ بالا الزامات اور ردعمل کے بعد چند سوالات ہیں جنہیں موجودہ پس منظر میں وسیم رضوی سے پوچھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں اس کے پاس کوئی ثبوت ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ رضوی جیسے بدنام زمانہ ضمیر فروش کے پاس مدارس اسلامیہ کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ہوسکتا ،اگر اس بدذات کے پاس کوئی ثبوت ہوتاتو یہ میڈیا میں گلے پھاڑنے کے بجائے کسی عدالت میں عرضی داخل کرچکا ہوتا۔ویسے بھی کافی پہلے لگ بھگ 2005میں ہی رضوی کے ابا حضور اور ہندوستان کی اقلیتوں کے نمایاں دشمن لال کرشن اڈوانی نے تحریری اعتراف کیاتھا کہ ہندوستانی مدارس کسی بھی قسم کی ملک مخالف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔خیال رہے کہ یہ بیان اڈوانی نے اس وقت دیا تھا جب وہ ملک کے نائب وزیر اعظم تھے۔بعد کے دنوں میں یا اس سے پہلے بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزامات میں جن مدارس کے طلبا اور فضلائے مدارس کو ایجنسیوں کے ذریعہ اٹھا یا گیا ،عدالتوں میں چلنے والی طویل سماعتوں اورجرح کے بعد ان میں سے بیشتر باعزت بری کئے گئے اور یہ بات بھی سامنے آ گئی کہ مدارس اور علماء و طلبائے مدارس کو بدنام کرنے کیلئے ایجنسیاں کس حدتک جھوٹے ،بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں تیار کرتی ہیں اور اس میں ویلن (دہشت گرد)کا کردار نبھانے کیلئے کسی بے گناہ کواٹھا لیا جاتا ہے اور گودی میڈیا کو مسالہ سے بھرپور ڈرامہ فراہم کرادیا جاتا ہے۔
ان تفصیلات کے بعد میں وسیم رضوی پوچھنا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کا قاتل کس مدرسے کا فارغ تھا ؟بتاؤ!درجنوں بے گناہ انسانوں کے قاتل کرنل پروہت،سادھوی پرگیہ اورابھینو بھارت کے دیگر پانچ دہشت گرد نے کس مدرسہ سے سند فراغت حاصل کی تھی۔وسیم رضوی کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اسیما نند، بھیاجی راموجی ،سالسکر اور اس کے دیگر کئی ساتھی جو مالیگاؤں ، اجمیر در گا ہ او ر سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں میں مجرم ثابت ہوچکے ہیں ،ان سبھوں کو کس مدرسے میں دستار فضیلت باندھی گئی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب دہشت گردوں کی یہ طویل فہرست اور دہشگردی کے الزامات سے باعزت بری کئے جاچکے فرغائے مدارس کی فہرست کا بغور جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ مدارس ہمیشہ محب وطن اور امن دوست ہندوستانی پیدا کرتے ہیں ۔اس کے برعکس سنگھ کی پاٹھ شالائیں اور شیشو مندر نفرت کی تعلیم گاہیں ہیں، جہاں پڑھنے اور پلنے والے زیادہ تر موت کے سوداگر ہواکرتے ہیں۔وسیم رضوی کی مجبوری یہ ہے کہ اس پر کرپشن اور بدعنوانی کے جرائم ثابت ہوچکے ہیں اور کبھی بھی اس کی گرد ن تک عدلیہ اور انتظامیہ کے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں۔لہذا اس نے سہارا اور سپورٹ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی اور سنگھ کو خوش کرنے والے بھونپو بجائے ہیں۔مگر چوروں ،لٹیروں اورڈ کیتوں کو ایک نہ ایک دن اس کے کئے کی سزا مل کے رہتی ہے۔وسیم رضوی تم بھی بہت دن تک بچ کر نہیں رہ سکتے، جیل جانے کیلئے تیار رہو۔
09911587378
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں