میم ضاد فضلی
دنیا جانتی ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔مظلوم فلسطینی عوام آج تک اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔امریکہ کے ذریعہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بیت المقدس کی مسلم شناخت کو ختم کردیا جائے۔اس اعلان کے بعد تیزی کے ساتھ یہودی یروشلم اور فلسطین میں منتقل کیے جائیں گے اور اسرائیلی جارحیت میں اضافہ ہوگا۔ اس مسئلے میں عالمی امور کے ماہرین اورجنگی جرائم کے تجزیہ نگاروں کی رائے متفق ہوگی کہ ڈونلڈ ٹر مپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے خلیج عرب میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کا اشارہ دید یا ہے۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس آمرانہ ویکطرفہ فیصلے کیخلاف جو جنگ شروع کی جا رہی ہے اس جنگ میں مظلوم فلسطینیوں کا عملی مددگار بن کر سامنے کون آتا ہے اور کون اپنے اجداد کی منافقانہ عیاری کی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس جنگ سے صرف آنکھیں ہی نہیں موندلیتاہے ،بلکہ اس جنگ سے خود کو دست بردار رکھنے کیلئے البیلے بہانے بھی پیش کرتا ہے اور ممکن ہے کہ یہ سب ترکیبیں اس کے اپنے آبائی آقا امریکہ اور اسرائیل ہی کے ذریعہ سکھائی جائیں۔ویسے اس جنگ کیلئے اسرائیل وامریکہ کے ذریعہ بساط بچھائی جاچکی ہے،مہرے بھی پھیکے جاچکے ہیں،صحرائے عرب ایک بار پھر اسرائیل اور امریکہ کے ذریعہ بچھائی گئی آگ پر تپ رہا ہے۔ مسلمانان عالم کیلئے اپنے اور پرایوں کو پہچاننے کا یہ غنیمت موقع ہے اور اپنی کرسی کیلئے ملت کے جذبات واحساسات کو مصلحت کی بھٹی میں ڈال کر منافقانہ چالیں چلنے والے مسلم حکمرانوں اور مسلم مملکتوں کے اصلی روپ کو دیکھنے اور پرکھنے کا بھی اس سے بہتر اور مناسب موقع شاید آنے والے دورمیں نہیں مل سکے گا۔دریں اثناء مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے سفارتخانہ منتقل کرنے کے اعلان پر ترکی سمیت عالم اسلام نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کو امن کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اور خطے میں تشدد بڑھنے کے خدشات کا اظہار کیا ہے، جبکہ چین اور برطانیہ نے بھی امریکی صدر کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کھول دیئے ہیں، جبکہ فلسطین کا کہنا ہے کہ فیصلہ امن کوششوں کے لئے ’’موت کا بوسہ‘‘ ہے۔ طیب اردگان اور اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ القدس کی حیثیت تبدیل کرنے کی ناپاک جسارت قبول نہیں، دریں اثنا رجب طیب اردگان کی تحریک پر13دسمبر2017کواو آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا اور امید کے مطابق وہی ہو اکہ سعودی عرب اور اس کے 24حواری ممالک کی دجل کاریوں کی وجہ سے اجلاس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکے، ورنہ ترکی کی طرح آج کم ازکم 20-25ملکوں نے بھی اگر اپنا سفارتخانہ بند کرنے اور اسرائیل اقتصادی و سفارتی تعلقات منقطع کردینے کی دھمکی دی ہوتی تو صورت حال اور زیادہ حوصلہ افزا ہوگئی ہوتی اور امریکہ اسرائیل کو اپنے آمرانہ فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا۔مگر جن نام نہاد مسلم حکمرانوں نے اقتدراکے لالچ میں مسیح دجال کے لشکر کو مرحبا کہنے کا پختہ ارادہ کررکھا ہے ،وہ طاقتیں مظلوم فلسطینیوں کے ہمراہ کھڑی بھی کیسے ہوسکتی تھیں۔
میرے کئی دور اندیش دوستوں نے سعودی عرب کے منافقانہ رویے پر میری تنقید کو مسلکی بغض قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔مگر یہ حقیقت اب صیغہ راز میں نہیں رہی کہ حرمین الشریفین پر غاصبانہ طریقے سے قابض یہود نواز آل سعود کیخلاف سچ بولنے والوں کی زباں بندی کا یہ خوبصورت آلہ ہے اور اسی لفظی تراش خراش کا سہارا لے کر حجازی حکمرانوں کی بہیمیت و سفاکیت پرپردے ڈالے جاتے ہیں اور یہ سارا تماشہ حب علیؓ یا بغض معاویہ کی صورت نہیں کیا جاتا،بلکہ اقصائے عالم میں عربی فنکاروں کی منافقت کا دفاع کرنے کیلئے اس ٹیم کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں،جس کا خوبصورت نام دعاۃ یا مبعوث رکھ دیا گیا ہے۔مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ سب اسی یہود نواز عیاشوں کے گماشتے ہیں اور دعاۃ کے بھیش میں دنیاکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ذمہ داری ان کے فرائض منصبی کا اہم حصہ ہے۔لہذا جو کوئی بھی حجازپر قابض ظالموں کیخلاف لب کشائی کرے گا،ان کے مظالم پرمذمت کرے گااسے اس جھنڈ کا نشانہ بننا پڑے گا اور الحمد للہ ہم اس کیلئے ہمیشہ تیار بیٹھے ہیں۔ہمیں نہ کبھی منصب کی پرواہ رہی ہے اورنہ مجھے کبھی چند روزہ دنیا کے متاعِ بے وفاکی ارزانی کی کوئی تمناجادۂ حق سے روکنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔بہر حال مملکت سعود اور اس کے چوبیس حواری ممالک کے ابن الوقت فرمانرواؤں کا اصلی روپ ساری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔مگر شاعر کا قول ہے کہ ’’ ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔اور ابابیلوں سے کام لے لینے والا معبود فرعون کے گھر میں ہی موسیٰ کی پرورش کا انتظام کردیتا ہے۔
چناں چہ یروشلم کو ٹرمپ کے ذریعہ اسرائیل کا دارالحکومت اعلان کئے جانے کے بعد جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی تو 128ووٹوں کے ساتھ دنیاکی بڑی اکثریت نے امریکہ واسرائیل کی دادا گیری کو بے دست پا کردیا۔خبروں کے مطابق21دسمبر2017کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کرلی جس میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیے، 35 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ نو نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ شہر کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ ’باطل اور کالعدم‘ ہے اس لیے منسوخ کیا جائے۔اس سے قبل گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ مذکورہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔رائے شماری سے پہلے فلسطینی وزیرِ خارجہ نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ دھونس اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے ممکنہ طور پر منظور ہونے والی اس قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو ’جھوٹ کا گڑھ‘ قرار دیا تھا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں