محمد عارف عمری
وسئی روڈ ویسٹ، ضلع پال گھر،مہاراشٹر
غالباً 1968 کی بات ہے جبکہ میں سات سال کا تھا کہ والد محترم مولانا مستقیم احسن اعظمی مدظلہ کی خواہش پر نانا مرحوم مولانا داؤد اکبر اصلاحی رح مجھے اپنے ساتھ مدرسۃ الاصلاح لیکر چلے گئے اور میری ابتدائی تعلیم کا آغاز وہیں پر ہوا، اگلے سال باقاعدہ مکتب سوم میں داخلہ ملا، اس وقت مدرسۃ الاصلاح کے عربی درجات میں جو حضرات زیر تعلیم تھے، ان سے اسی زمانے سے ایسی انسیت پیدا ہوئی کہ وہ تعلق اب بھی باقی ہے، ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی ،ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی، مولانا محمد شعیب اصلاحی قاسمی، مولانا نیاز احمد اصلاحی قاسمی، مولانا سہیل احمد اصلاحی، مولانا اجمل اصلاحی، مولانا سلطان احمد اصلاحی وغیرہم سے اسی بدء شعور کی واقفیت ہے
اسی زمانے میں مولانا سلطان احمد اصلاحی رح اپنے دو بھانجوں قیام الدین اور ضیاء الدین کو مدرسہ پر لیکر آئے جو تقریباً میرے ہم عمر تھے،قیام الدین اصلاحی مرحوم سے میری واقفیت اسی وقت سے ہے، پھر انقلاب زمانہ کے اثر سے مدرسۃ الاصلاح کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مولانا آزاد تعلیمی مرکز اسرہٹہ، جونپور منتقل ہوگئی، اور میرا بھی اپنے ہم عمروں کا ساتھ چھوٹ گیا، کئی برس کے بعد دوبارہ مدرسۃ الاصلاح درجہ عربی سوم میں داخل ہوا تو قیام الدین عربی ششم میں تھے، اور ہمارے سینئر تھے، اس لئے یک گونہ حجاب اور احترام کا پہلو غالب رہا. اس کے دو سال بعد برادر محترم مولانا محمد طاہر مدنی صاحب کی تحریک پر مدرسۃ الاصلاح کے چند طلبہ نے جامعہ دار السلام عمر آباد کا رخ کیا، جس میں قیام الدین اصلاحی مرحوم اور میں دونوں ایک درجے کے فرق کے ساتھ وہاں داخل ہوئے او ایک دوسرے سے کافی گھل مل گئے، قیام الدین مرحوم نہایت ذہین تھے اور اپنے موقف پر جمنے کا ملکہ رکھتے تھے، جس زمانے میں ہم لوگ عمرآباد میں زیر تعلیم تھے، پاکستان میں فوجی انقلاب آیا تھا اور ضیاء الحق صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف عدالتی کارروائی کا حکم دے رکھا تھا جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی، میں اس وقت ضیاء الحق صاحب کے موقف کا حامی تھا اور قیام الدین مرحوم پوری قوت کے ساتھ بھٹو صاحب کو سزا نہ دئے جانے کی وکالت کرتے تھے اور اس کو پاکستان کا بڑا خسارہ سمجھتے تھے، بنگور سے ایک اخبار مسلمان نام کا نکلتا تھا، جس میں اس موضوع پر گرماگرم بحث ہوا کرتی تھی، چنانچہ میں نے اپنے موقف کی تائید میں اس اخبار کو ایک مراسلہ بھیجا جو شائع ہوا تو قیام الدین مرحوم نے اس کی مخالفت میں بھٹو مرحوم کے دفاع میں مراسلہ بھیجا اور وہ بھی شائع ہوا،
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں درجات کا تفاوت بھی باقی نہ رہا، اور ہم دونوں نے الگ الگ کلیات میں داخلہ لیا، انھوں نے کلیۃ الشریعہ کا انتخاب کیا اور میں نے کلیۃ اللغۃ کا، رہائش بھی ہم دونوں کی الگ الگ تھی لیکن ذہنی ہم آہنگی اس قدر تھی کہ تعلیم کے علاوہ بقیہ اوقات میں ایک دوسرے سے روزانہ ملاقات لازمی ہوا کرتی تھی،
قیام الدین مرحوم بڑے بذلہ سنج اور برجستہ گو تھے، بعض اوقات ایسا برمحل جملہ کہتے کہ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجاتے اور کئی دنوں تک اس کی گدگدی محسوس ہوتی، مدرسۃ الاصلاح کے احاطے میں مولانا امین احسن اصلاحی رح پر سیمینار تھا، میں اور وہ دونوں ایک جگہ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، مولانا امین احسن اصلاحی رح کے شاگرد رشید جناب خالد مسعود رح بطور خاص اس سیمینار میں شرکت کیلئے پاکستان سے آئے ہوئے تھے، افتتاحی شیشن میں خطاب کرتے ہوئے ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور کچھ بول نہ سکے، میں نے قیام الدین سے کہا کہ شدت جذبات کی بنا پر موصوف اپنی بات پوری نہیں کرسکے، قیام الدین نے برجستہ کہا کہ موصوف کی گفتگو غیر مرتب تھی، آنسوؤں کے سیلاب میں انھوں نے جان بچالی،
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہو کر ہندوستان آئے، قیام الدین مرحوم نے اپنے ماموں مولانا سلطان احمد اصلاحی رح کی نگرانی میں علی گڑھ میں اقامت اختیار کی اور ادارہ علوم القرآن سے وابستہ ہوئے اور میں نے اعظم گڑھ، دار المصنفین کو اپنا مرکز علمی بنایا، سال دو سال کا عرصہ گزر ہوگا کہ قیام الدین مرحوم نے قطر میں وزارتِ داخلہ میں ملازمت اختیار کر لی اور ایک طویل عرصے تک وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ اسی دیار میں آخری سانس لی، اس اثنا میں مرحوم اپنے دوستوں سے کبھی بھی لا تعلق نہیں رہے، 2002 میں میری بڑی بچی کو طبیہ کالج علی گڑھ میں داخلہ کی تیاری کے لئے مسئلہ درپیش آیا تو میں نے ان سے رابطہ کیا حالانکہ وہ قطر میں تھے، بڑی بشاشت کے ساتھ اپنے گھر آنے اور وہاں ٹھہرنے کی پیشکش کی، اتفاق ایسا کہ بچی کے ساتھ اس کی والدہ اور سب بھائی بہن علی گڑھ جانے کو تیار ہوگئے، قیام الدین مرحوم کی غیر موجودگی کے باوجود ان کی اہلیہ محترمہ اور بچوں نے جس طرح ہمارا خیال رکھا اس کا نقش دل میں ثبت ہے
علی گڑھ میں میرے بچے ایک سال مقیم رہے، بچی کا طبیہ کالج میں داخلہ ہوگیا اور اس نسبت سے برسوں علی گڑھ جانا ہوتا رہا، قیام الدین مرحوم سے تو ایک دو مرتبہ ہی وہاں ملاقات رہی، لیکن ان کے بچوں نے ہمیشہ ایسی اپنائیت کا ثبوت دیا کہ اس وقت ان کی جدائی کے بعد ان بچوں کا تصور کرکے طبیعت غم زدہ ہوجاتی ہے،
قیام الدین مرحوم کے تعلق سے ان کے ماموں مولانا سلطان احمد اصلاحی رح سے میرے گہرے روابط ہوئے، ان کی وسعت معلومات، اچھوتے موضوعات کا انتخاب، علمی اور فکری ضروریات کے اظہار میں بے باکی اور عدم خجالت ان کا طرہ امتیاز تھا، جس پر ان کی کتابیں گواہ ہیں،
علی گڑھ کے یک سالہ قیام کے دوران دوسری شخصیت جس نے خاکسار کو کافی متاثر کیا وہ ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی رح ہیں، جن کے پڑوس میں میرے بچے مقیم تھے اور مرحوم کی شفقت اور تعلق خاطر کے اسیر تھے
افسوس کہ اب یہ دونوں بلکہ تینوں (قیام الدین اصلاحی، ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی اور مولانا سلطان احمد اصلاحی) اس عالم فانی کو الوداع کہہ گئے اور اپنے پیچھے اپنی یادیں چھوڑ گئے ہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جملہ متعلقین جن میں اپنے آپ کو بھی شامل سمجھتا ہوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں