حکیم نازش احتشام اعظمی
ہمارا ملک ابھی کورونا وائرس کی تباہ کاری سے نبرد آزماہی ہے، البتہ اس کی شدت میں حوصلہ بخش کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مگر اس کا سلسلہ ابھی پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا ہے کہ ایک بار پھر جان لیوابیماری ڈینگو نے عوام کو اپنا شکار بنانا شروع کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قومی دارالحکومت دہلی سمیت ملک کی کئی ریاستیں اس وقت ڈینگو کی لپیٹ میں آنے لگی
ہیں۔ واضح رہے کہ ڈینگو کا چھوٹا سا نظر آنے والا مچھر بہت جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، لہذا اس سے نجات حاصل کرنے اور محفوظ رہنے کے لیے بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کرناانتہائی ضروری ہے۔ عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ڈینگو نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں تباہی مچا نا شروع کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 20 ملین افراد ڈینگو بخار سے متاثر ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس بیماری کا اثر بڑوں کے مقابلے بچوں میں زیادہ دیکھا جاتا ہے۔
قومی سطح پر ڈینگو کے جو اعدادو شمار سامنے آئے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی، راجستھان، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ اور تمل ناڈو اس وباسے سب سے زیادہ متاثر ریاستیں ہیں۔ دہلی میں اب تک ڈینگو کے 1000 سے زیادہ معاملے رپورٹ ہوچکے ہیں۔ گروگرام، ہریانہ میں 25 دنوں میں 217 کیسز کی اطلاعات ہیں۔ دوسری جانب راجستھان میں گزشتہ دوماہ کے درمیان 4700 سے زیادہ ڈینگو کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے مندسور میں1277 معاملے اور گوالیار 1300 معاملے اب تک سامنے آئے ہیں،جب کہ اس بخار کے متاثر مریضوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے۔ دہلی این سی آر میں حالات اس قدر تباہ کن ہوچکے ہیں کہ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے محکمہ صحت سے اس کی تفصیلات طلب کی ہے۔
خبروں کے مطابق دہلی میں ڈینگو، ملیریا اور چکن گنیا کی شدت اور مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے تینوں میونسپل کارپوریشنوں اور دیگر شہری ایجنسیوں سے ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں معلومات مانگی ہیں۔اس معاملے سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جیوتی سنگھ کی بنچ نے کہاہے کہ مچھروں کی افزائش پر قابو پانے کے لیے حکام کی طرف سے پہلے ہی اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں پیش کی گئی رپورٹیں دیکھی ہیں۔ اس کے علاوہ بنچ نے کہا کہ وہ صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے اس عرضی کو کچھ وقت کے لیے التوا میں رکھے گا۔دوسری جانب ہریانہ کے گروگرام میں ڈینگو کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ 25 دنوں میں یہاں ڈینگو کے 217 معاملےرپورٹ ہوئے ہیں۔خیال رہے کہ آئی ٹی شہرگروگرام میں گزشتہ 5 برسوں میں پہلی بار ڈینگو کے 200 سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں۔ پانچ سال پہلے گروگرام میں ڈینگو کے 452 مثبت کیس درج ہوئے تھے۔ جب کہ اس بار اب تک یہاں ڈینگو کے 3600 مشتبہ مریض پائے گئے ہیں۔وہاں 5 لاکھ گھروں میں ڈینگو کا لاروا چیک کیا گیا ہے۔ ان میں سے 13000 گھروں کو نوٹس بھیجے گئے ہیں ،جن میں لاروا پایا گیا ہے۔ فعال معاملات میں 94 بچوں کی عمر تقریباً 15 سال ہے۔
ادھر دہلی کی پڑوسی ریاست راجستھان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ڈینگو کے معاملے کی وجہ سے انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ راجستھان کے شہر جے پور، بیکانیر اور باڑمیر میں ڈینگو بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس کی شدت کو دیکھتے ہوئے راجستھان حکومت نے 15 روزہ ڈینگو سے پاک راجستھان کے لیے بیداری مہم شروع کردی ہے، صوبے کے محکمہ صحت کو فعال کردیا گیا ہے اور محکمہ سنجیدگی اور مستعدی کے ساتھ اس کا جائزہ لے رہا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں اور کوششوں کے باوجود ریاست کی صورتحال جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق راجستھان میں اس سال جنوری سے اب تک ڈینگو کے 6700 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے 4700 کیس صرف ستمبر اور اکتوبر ماہ میں درج ہوئے۔ ریاست کے سب سے بڑے اسپتال سوائی مان سنگھ اسپتال جے پور میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور بدستور متاثرہ مریضوں کے اسپتال آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
مدھیہ پردیش کے ’’ ماما‘‘ کی حکومت کے مندسور میں ڈینگو کے کیسوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں کے ضلع اسپتال میں ڈینگو اور وائرل بخار کے مریض بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مندسور میں ڈینگو کے 1277 معاملے سامنے ہیں ،لیکن متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ گوالیار میں ڈینگو کے 1300 معاملے سامنے آئے ہیں۔ یہاں کے اسپتالوں کی افسوسناک حالت یہ ہے کہ ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ 100 سے زائد مریض اسپتال میں داخل ہورہے ہیں۔ قرب وجوار کے اضلاع سمیت یہاں 3000 سے زیادہ ڈینگو پازیٹیو مریض زیر علاج ہیں۔
سب سے مایوس کن صورت حال ڈبل انجن والی سرکار ریاست اتر پردیش کی ہے ۔ یہاں کے سہارنپور، پریاگ راج(الہہ آباد)، نوئیڈا اور غازی آباد میں ڈینگو کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ غازی آباد میں اکتوبر میں ڈینگو کے 521 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں روزانہ تقریباً 30 افراد ڈینگو سے متاثر ہو رہے ہیں۔ سہارنپور میں اب تک ڈینگو کے 210 معاملے سامنے آئے ہیں۔ نوئیڈا میں ستمبر سے اب تک 250 سے زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں یومیہ 20 معاملے سامنے آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں پریاگ راج(الہہ آباد) میں ڈینگو کے 23 کیسز کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ یہاں ڈینگو کی وجہ سے اب تک 2 لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔ اس موضوع پرڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دیر سے بارش ہونے کے باعث ڈینگو کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈینگو سے بچاؤ کے لیے تمام بڑے اقدامات کیے جارہے ہیں، اس کے علاوہ لوگوں کو آگاہ اور بیدار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم زمینی سطح پر اس کا اثر ابھی تک کہیں بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو میں بھی ڈینگو کی قہر سامانی زوروں پر ہے۔ اس سلسلے میں ریاست کے ہیلتھ سکریٹری نے تمام ضلع انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ ویکسین کے ساتھ ڈینگو کو کنٹرول کرنے پر توجہ دیں۔ تمل ناڈو میں اب تک ڈینگو کے 320 معاملے سامنے آئے ہیں۔ اسی کے ساتھ ڈینگو نے 2 لوگوں کو موت کی آغوش میں بھیج دیا ہے۔ صحت کے سکریٹری نے ضلع کلکٹروں کو لکھے گئے مکتوب میں کہاہے کہ : ’’موجودہ موسم کی وجہ سے چنئی، کانچی پورم، سیلم سمیت کئی جگہوں پر ڈینگو کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ شہروں سمیت تمام اضلاع کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ اگر مچھروں کی افزائش کے ذرائع کو کم نہ کیا گیا تو ڈینگو کوویڈ 19 سے بھی خطرناک روپ دھار لے گا ۔ مذکورہ بالا سطور میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہی مریضوں کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے، ورنہ زمینی صورت حال خاص کر دیہی علاقوں میں ڈینگو کے بڑھنے کی رفتار اس تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی، جہاں کے اعداد وشمار جمع کرنے میںضلع انتظامیہ ،محکمہ صحت اور حکومتیں ہمیشہ غیر سنجیدگی اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
2017 میں بھی ڈینگو کے متعلق حیران کن اعتراف سرخیوں میں رہاتھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ تمام تدابیر بروئے کار لانے کے باوجود ڈینگو کا اثر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت نے اُس سال بھی ڈینگو کی روک تھام کے لیے بہت سے اقدامات کیےتھے، جو سست روی کے ساتھ ہی سہی مگر آج تک جاری ہے۔ لیکن ہر سال سینکڑوں لوگ اس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم گزشتہ چند برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ڈینگو سے ہونے والی اموات اور ڈینگو کے کیسز میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ ڈینگو کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی ڈینگو بخار کے نتیجے میںزندگی کی جنگ جیتنے میں ناکام رہتے ہیں۔گزشتہ کچھ برسوں سے ڈینگو کا اثر کس طرح بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ حکومت ہند کی جاری کردہ اس تفصیل سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔سرکاری رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں 40571 افراد اس کا شکار ہوئے اور اگلے سال یعنی 2015 میں یہ تعداد دگنی ہو گئی۔ سال 2015 میں 99913 ڈینگو کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے ۔ اس کے بعد 2016 میں 129166 اور 2017 میں 150482 افراد ڈینگو سے متاثر ہوئے۔پھر 2018 میں بھی ان اعداد و شمار میںکمی واقع ہونے کے برخلاف اس میں نمایاں اضافہ ہوتا رہا۔ اب یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ڈینگو کو پھیلانے میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ڈینگو بخار دنیا بھر میں مچھروں کے ذریعے سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے اور یہ 4 اقسام کے ڈینگو وائرسز کا نتیجہ ہوتا ہے۔ڈینگو بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگو وائرس سے متاثر ہوتا ہے اوراس کے کاٹنے کے بعد انسانی جسم میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔مگر اس وہم کو ذہن سے نکال دیا جائے کہ یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد میں براہ راست نہیں پھیل سکتی۔
ڈینگو کی علامات
ڈینگوکی علامات عموماً بیمار ہونے کے بعد 4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر 10 دن تک برقرار رہتی ہیں۔ان علامات میں اچانک تیز بخار، شدید سردرد، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف، تھکاوٹ، قے، متلی، جلد پر خارش (جو بخار ہونے کے بعد 2 سے 5 دن میں ہوتی ہے) خون کا معمولی اخراج (ناک، مسوڑھوں سے خون بہنا یا آسانی سے خراشیں پڑنا) قابل ذکر ہیں۔
چونکہ ڈینگو کے علاج کے لیے ابھی تک کوئی خاص طریقہ کار موجود نہیں ہے، لہذا اس کی روک تھام کے لیے ماہرین کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے بچے ڈینگو بخار کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم تجاویز درج کی جاتی ہیں جو آپ کے بچے کو ڈینگو بخار سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ جب بچے گھر سے باہر ہوں تو مچھروں کو ان سے دور رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ریپیلنٹ(repellents) کا استعمال بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ مچھر بھگانے والے ماکیمکل جن میں(ڈی ای ایٹی) DEET (N,N-diethyl-meta-toluamide) ہوتا ہے۔ اس لوشن کو ایک بار جلد پر لگانے سے یہ ریپیلنٹ کم از کم 10 گھنٹے تک بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ آپ لیمن یوکلپٹس کا تیل بھی لگا سکتے ہیں۔گھر میں صفائی ستھرائی: گھر کو بے ترتیبی سے پاک رکھیں اور کہیں بھی پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ اگر پانی کہیں بھی جمع ہو جائے تو اسے Dettol Disinfectant Liquid جیسے مائعاتچھڑک کر جراثیم سے پاک کریں۔ جراثیم کش ادویات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ علاقہ ایڈیس مچھروں کی افزائش گاہ نہیں بنسکے گا ۔ اگر آپ کو واقعی پانی ذخیرہ کرنا ہے، تو اسے کسی ایئر ٹائٹ برتن یا کنٹینر میں محفوظ کریں۔
اضافی گھر کی حفاظت: دروازوں اور کھڑکیوں پر اسکرینوں کا استعمال کریں اور خراب دروازوں اور کھڑکیوں کی مرمت کروائیں۔ بغیر اسکرین والے دروازے اور کھڑکیاں ہر وقت بند رکھیں۔
ذاتی حفظان صحت: اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے کھانے سے پہلے، باہر سے گھرمیں داخل ہونے کے بعد اور واش روم استعمال کرنے کے بعد اپنے ہاتھ پاؤں باقاعدگی سے دھوئیں۔ اپنے بچے کی حفظان صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیٹول اینٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال کریں۔جب بھی بچے گھر سے باہر جائیں تو انہیں لمبی آستینوں کی قمیضیں اور مکمل پینٹ پہنا کر ہی باہر بھیجیں۔ لمبے لباس سے جلد پر مچھروں کے حملے کےکم ہو جائے ئیں گے ۔بچوں کے کھیلنے کے وقت کو محدود کریں، خاص طور پر شام اور فجر کے وقت انہیں باہر بھیجنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب مچھر سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔اگر آپ کے بچے کو مسلسل دو دن سے زیادہ بخار رہتا ہے تو ڈاکٹر سے بلاتاخیر رجوع کریں۔
گھر میں اے سی ہو تو اسے چلائیں، کھڑکیاں اور دروازوں میں مچھروں کی آمد نہ ہو ،اس کو یقینی بنائیں، اے سی نہیں ہو تو مچھروں سے بچاؤ کے لیے نیٹ(مچھر دانی) کااستعمال لازماًکریں۔اسی طرح مچھروں کی آبادی کم کرنے اور ان کی افزائش کی روک تھام کے لیے ماہرین صحت کی بتائی گئی تدابیر پر عمل کریں ،جیسے پرانے ٹائروں، گلدان اور دیگر چیزوں میں پانی اکٹھا نہ ہونے دیں۔ پانی میں ایڈیز مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے کون سال گھول استعمال کیا جائے وہ اوپر لکھ دیا گیا ہے۔
اگر گھر میں کسی کو ڈینگو ہوگیا ہے تو اپنے اور دیگر گھر والوں کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ احتیاط کریں۔جس متاثرہ فرد کو مچھروں کے کاٹنے سے ڈینگو ہوا ہے، وہ گھر میں دیگر افراد میں بھی اس بیماری کو پھیلا سکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ڈینگو فرد سے فرد میں راست نہیں پہنچتا، بلکہ یہ مرض ڈینگومتاثرہ کو کاٹنے والے مچھروں کے کاٹنے سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے۔
E-mail : [email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں