ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
وہ : مولانا صاحب ! موجودہ دور میں جہیز دینے اور لینے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
میں : دینا مجبوری ہوسکتی ہے ، لینا کون سی مجبوری؟ میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ، کوئی جہیز نہیں لیا ، لڑکے کو موٹر سائیکل اور بہو کو زیورات ، ڈبل بیڈ ، سنگھاردان اور دوسری چیزیں خود خرید کردیں _ میری اہلیہ نے اپنی بھتیجی کی شادی کی ،
جو ہوسکا دیا ، لیکن لڑکے والوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا _۔
وہ : “جو ہوسکا ، دیا” مطلب ، دے سکتے ہیں؟ میری چھوٹی بہن کے کئی رشتے آئے ، ہم نے جہیز دینے سے انکار کیا تو بات آگے نہ بڑھ سکی _الحمدللہ ہمارے بھائیوں کی شادی بھی ایسے ہی ہوئی ہے ، بغیر کسی لین دین کے ۔ اپنی بہنوں کا نکاح بھی اسی طرح کرنے کا ارادہ ہے ۔ ابو ڈٹے ہوئے ہیں _ کہتے ہیں : ” ہم جہیز میں کچھ نہیں دیں گے _” ۔
میں : جہیز کو وراثت کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے _ وراثت میں لڑکیوں کا حصہ ہے _ قرآن مجید میں ان کے حصوں کی صراحت کی گئی ہے _ لڑکی ایک ہو یا ایک سے زائد ، کوئی ایسی صورت نہیں جس میں ان کو حصہ نہ ملے _ اگر لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دیا جانے لگے تو انہیں جہیز سے محرومی کا احساس نہ ہوگا _ یہ صورت تو سخت ناپسندیدہ ہے کہ انہیں نہ جہیز میں کچھ دیا جائے اور نہ وراثت میں ان کا حصہ لگایا جائے۔
وہ : ہمارے یہاں جماعت کے اکثر افراد نے اپنی بچیوں کو جہیز دیا ۔ ہم سے بھی کہتے ہیں : دینا پڑتا ہے ، جب کہ ہم اس کے سخت خلاف ہیں _۔
میں : پریکٹیکل بننا چاہیے _ سماج بہت گندا ہے _ مسلمانوں کی اکثریت بہت لالچی ہے _ لڑکیوں کی شادی میں کچھ دینے میں حرج نہیں _ جو لڑکے والے صراحتاً یا اشارتاً جہیز مانگتے ہیں ، میں انہیں بہت بے شرم اور بے غیرت سمجھتا ہوں _۔
وہ : تو اب اگر اگلا رشتہ آئے تو ہم جہیز دے سکتے ہیں؟
میں : بالکل _
وہ : جی بہتر ہے _۔
میں : لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جہیز کا لین دین پسند کرتا ہوں _ میں چاہتا ہوں کہ لڑکیوں کی شادی کسی طرح جلد ہو اور سماج میں جو مصنوعی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں ان کو کسی طرح پار کیا جائے _۔
وہ : مولانا صاحب ! وہ جہیز والی حدیث کون سی ہے؟
میں : جہیز کے بارے میں کوئی حدیث نہیں _ عربی زبان میں ‘جہیز کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں ہے _۔
وہ : کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا۔
میں : بالکل غلط بات _ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بچپن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہتے تھے _ ہجرتِ مدینہ کے بعد جب آپ نے فاطمہ کا ان سے نکاح کرنا چاہا تو ان سے دریافت کیا : ” تمھارے پاس کچھ ہے؟” انھوں نے جواب دیا :” آپ تو جانتے ہیں ، میرے پاس کچھ نہیں _ ہاں ، ایک زِرہ ہے _” آپ نے فرمایا : “اسی کو فروخت کرلاؤ _” اس سے جو رقم حاصل ہوئی اسی سے آپ نے مہر دلوایا اور گھر گرہستی کا کچھ سامان خریدوایا _ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کے نکاح کے موقع پر جو کچھ انہیں دیا تھا وہ ان کے ہونے والے شوہر علی بن ابی طالب ہی کی رقم سے تھا _۔
وہ : جزاک اللہ خیراً ، مولانا صاحب ! بہت شکریہ
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں