عبدالعزیز
مسلمانوں کا اکثریتی گروہ بغیر علم و عمل کے اسلام کوسچا دین اور برتر مذہب سمجھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے کہ وہ اسے ماں باپ کا مذہب سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ دیگر ادیان سے مقابلہ۔ مسلمانوں کی اصلاح کی کوششیں بھی کم نہیں ہورہی ہیں۔ مگر مسلمانوں کا معاشرہ نہ بدل رہا ہے اور نہ مسلمانوں کی اجتماعیت کلمہ پڑھ رہی ہے۔بیسویں صدی میں اسلام کے نام پر ایک ملک وجود میں آیا تھا۔ اس کے دوحصے تھے دونوں حقیقت میں عملاً مسلم پرستی کے نام پر بنا تھا دونوں میں پہلے زبان کے نام پر جھگڑا شروع ہو ا جسے لسانی تعصب کہہ سکتے ہیں۔ لسانی تعصب اس قدر بڑھا کہ دونوں نے اسلام کے تعلق یا لگا ئو کو پس پشت ڈال دیا۔ ایک علاقہ میں ایسے لوگوں کو سزائے موت چن چن کے دی گئی جو اسلام کے حامی یا وفادار تھے ملک کو اسلام کا قلعہ سمجھ کر بچانا چاہتے تھے۔ وہاں آہستہ آہستہ جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لیا۔ اس کے حکمرانوں نے اسلام کو قصہ ماضی سمجھ کر دستور کے شروع میں جو بسم اللہ لکھا ہوا تھا اسے بھی گوارہ نہ کیا جب اس علاقے میں دوسرے علاقے کے لوگوں نے فوجی آپریشن کیا تو کچھ اش طرح جیسے ایک ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے پھر لسانی تعصب یا عصبیت جاہلیہ کی بنیاد پر ایسا خون خرابا ہوا کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے خون خرابے کے بعد اس فساد زدہ علاقہ کا دورہ کیا اور کلکتہ کی ایک مجلس میں لسانی تعصب پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک کے ایک حصے میں کربلا سے بڑا سانحہ ہوا۔ اس وقت دوسرا حصہ مکہ اور مدینہ کی بات کر رہا ہے مگر امریکہ یا ماسکو اس ملک کا قبلہ بنا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں چھوٹا تو جمعیت کہاں
جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
علامہ نے اپنے ایک کلیدی خطبہ فرمایا ’’ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی اصطلاح میں خدا کی رسی جوں ہی ہمارے ہاتھ سے چھو ٹی ہماری جماعت کا شیر ازہ بکھر گیا‘‘ اللہ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں مسلمانوں کو ہدایت کی بلکہ حکم دیا کہ ’’ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ” ( آل عمران 103) مسلمانوں کی نوے فیصد سے زیادہ لوگوں نے اللہ کی رسی ( دین کی رسی ) کواپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا ‘تفرقے میں پڑ گئے جس کو جورسی دنیا میں فائدہ مند دکھا ئی دی اسے دانت سے پکڑ لیا اور اللہ کے دین کی رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی جمعیت یا ملت کا شیرازہ بالکل بکھر گیا ۔ملت اسلامیہ کے لیے علامہ اقبال نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے وہ ہے اس کے ملی تشخص کی حفاظت اور اس کو بیدار کرنا ہے وطنیت کے عنوان سے ان کی مشہور نظم جو1908 میں شائع ہوئی تھی وہ فر ما تے ہیں :
اس عہد میں مے اور ہے جام ہے اور جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
وہ اپنے ایک مشہور خطبہ میں فر ما تے ہیں : ’’ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کو نسل و وطن کے قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ دین کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ‘‘ علامہ آگے فر ماتے ہیں’’حب الوطنی صحیح طور پر ایک قدرتی نیکی ہے اور انسان کی اخلاقی زندگی میں وہ خاص درجہ رکھتی ہے وہ انسان کا عقیدہ ہے ،اس کی تہذیب ہے اس کی تاریخی روایات ہیں، یہی وہ چیز ہیں کہ جن کے انسان کو زندہ رہنا چاہیے اور جس کیلئے انسان کو اپنی جان تک قربان کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے‘‘ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں علامہ اقبا ل نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کر تے ہوئے فرمایا : ’ مسلمان اور دنیا کی دوسری قو موں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قو میت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک اغراض اقتصادی ہے بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما تھی اس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سر چشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں وہ سب کے لیے یکساں ہیں۔ اسلام تمام مادی قیو د سے بیزاری ظاہر کرتا ہے۔ اسلام کی زندگی کا انحصار کسی خاص قوم کے خصائص مخصوصہ و شما ئل پر مختص نہیں ہے ۔ غرض اسلام زما ں ومکان کی قیود سے مبرا ہے ‘‘ علامہ اقبال نے اپنے اشعار، خطوط ، خطبات اور نگارشات سے اسلام کے اقتصادی نظام کو پیش کیا ہے اور غربت اور افلاس کے خاتمے پر شدت سے زور دیا ہے انہوں نے دیگر پسماندہ ذاتوں کو اٹھا نے کی بھی بات کی ہے۔
آہ شودر کے لئے ہندوستان غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
( نانک صفحہ339 بانگ درا)
علامہ اقبال آفاقیت کے تصور کو عام کرنا چاہتے تھے اسلام کو آفاقی نظام کا علمبردار سمجھتے تھے۔ افسوس مسلمان غیر وںکے تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر اپنی پہچان اور شناخت کھونے کے درپے ہیں۔
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں