ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاو تو آتے ہی ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، کوئی بھی انسان اچھے برے حالات سے بھاگ نہیں سکتا ، انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اچھے اور موافق حالات میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرے اور غرور و تکبر سے بچنے کی کوشش کرے اور برے حالات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل اور خوش اسلوبی سے کرے اور کبھی بھی اپنی زندگی سے بیزار اور ناامید نہ ہو جائے، کیوں کہ نہ ہی اچھے حالات ہمیشہ کے لیے رہتے ہیں اور نہ ہی برے حالات، لیکن برے حالات میں کام آئے لوگ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ان ہی برے حالات اور مصائب میں اہم درد غریبی کا کرب ہے ۔یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو بھی لگ جاتی ہے اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ غریب انسان کسی کا نہیں رہتا اور نہ ہی اسے کوئی اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ سگے بھائی بہن بھی ایسے شخص سے رشتہ ناطہ رکھنا گوارا نہیں کرتے بقولِ شاعر؎
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
غریب انسان اپنی گزر اوقات کیسے کرتا ہے، یہ صرف ایک غریب ہی جانتا ہے۔ ہمیں غریب کا مذاق اڑا کر ان کا دل نہیں دکھانا چاہیے، کیونکہ غریب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ غریب انسان دن رات ایک کر کے اور ہر طرح کی ذلت برداشت کرکے اپنے اہل و اعیال کے لیے دو وقت کا کھانا ممکن بنا تا ہے ۔بہت سے غریب غربت سے تنگ آ کر مختلف جرائم میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا خدا نخواستہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے سنگین جرم کا مرتکب ہوتے ہیں۔ حالانکہ مجرم بنے کے لیے، یا خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھانے کے لیے غریب ہونے کی دلیل دینا کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے، لیکن غربت کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آئے دن سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے ویڈیوز اور پوسٹس نظر آتے ہیں جن میں مختلف سماجی کارکن کسی غریب کی حالت زار سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے مفلوک الحال لوگوں کے لیے مدد کی درخواست بھی کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ضرورت مند لوگوں کا اکاونٹ نمبر بھی دے دیا جاتا ہے جس سے پیسہ براہ راست ضرورت مند کے کھاتے میں جاتا ہے اور گڑبڑ کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی، یہ ایک اچھا کام ہے۔ اس عمل کی سرحوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ،کیوں کہ اس طرح بہت سےغریب لوگوں کی مدد ہو جاتی ہے اور ان کو ذلت و رسوائی کاسامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔بہت سے بیمار لوگوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے، ایسی درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں ،جہاں لوگوں کی اس طریقے سےبہت مدد کی گئی یہ سوشل میڈیا کا بہترین استعمال ہے، لیکن حیرت تب ہوتی یے جب بہت سے صاحب ثروت لوگوں کو میڈیا کے ذریعے ہی پتا چلتا ہے کہ ان کا ہمسایہ انتا غریب ہے کہ وہ اپنی داستان لے کر سوشل میڈیا پر آ گیا ہے، آخر ہمارے پاس پڑوس اور اپنے ملنے جلنے والی ساتھی دوستوں کی غربت ہمیں نظر کیوں نہیں آتی؟ ہمیں یہ پتہ کیوں نہیں چلتا کہ ہمارے ارد گرد کتنے ایسے بیمار ہیں ، جن کے پاس دواؤں تک کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ اور کتنے ایسے گھر ہیں جہاں کئی کئی دنوں تک چولہا نہیں جلتا ؟ آخر ہم سوشل میڈیا کا انتظار کیوں کرتے ہیں شاید محض اس وجہ سے کہ اپنے دکھ درد کا اظہار نہیں کرنے کی وجہ سے ہمیں ان کی غریبی نظر نہیں آتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگوں کو سوشل میڈیا پر پوری دنیا کو اپنے حالات بتانے پڑتے ہیں، لیکن بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو غریبی و تنگ دستی میں گھٹ گھٹ کر جینا پسند کرتے ہیں ،لیکن سوشل میڈیا پر نہیں آتے ۔ ایسے لوگوں تک پہنچنے کے لئے بہترین راستہ یہی تھا کہ صاحب ثروت لوگ اپنی آنکھوں سے پردہ ہٹا کر اپنے آس پڑوس میں رہنے والے لوگوں کی خفیہ طور مدد کر کے اللہ کے دربار میں خوشنودی حاصل کرتے ۔غریبی غریب انسان کے لئے تو امتحان ہے ہی، ساتھ ہی یہ صاحب ثروت لوگوں کے لیے بھی آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت کو اس آزمائش میں یہ مقصود ہوتا ہے کہ یہ صاحب ثروت اللہ کے عطا کردہ مال و اسباب میں سے کتنا مال میرے ان غریب بندوں پر خرچ کرتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنا مال فضول اور لغو کاموں میں ضایع کرتے ہیں، لیکن غریبوں کی مدد نہیں کرتے، جبکہ دولت مند لوگوں کی دولت میں غریبوں کا بھی حق ہوتا ہے، امیر اور صاحب ثروت لوگ غریبوں کی مدد نہ کر کے ان کی حق تلفی کرتے ہیں اور ایسے ہی امیروں پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
اگر ہم اپنے اپنے علاقوں ،گاؤں دیہات اور ملنے جلنے والے غریبوں کی مدد کریں گے ان کے لباس، ادویات، باقی روزمرہ کی ضروریات کا خیال رکھیں گے تو انہیں سوشل میڈیا پر رسوا نہیں ہونا پڑے گا اور اس امر سے اگر چہ غریبی کو مکمّل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، تاہم اسے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بہت سارے غریب ایسے ہوتے ہیں جو کسی کے سامنے سوال نہیں کرتے ،لیکن ان کا چہرہ بذات خود ایک سوال ہوتا ہے، غریبی ان کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے، بقولِ شاعر؎
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا
چہرہ بتا رہا تھا اِسے مارا ہے بھوک نے
حاکم نے یہ کہا کہ “کچھ کھا کے مر گیا”۔۔۔
غریب کی مدد کرنے سے انسان کو سکون میسر ہوتا ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے جن لوگوں کو اللہ غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق دیتا ہے، انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ انہیں اللہ نے اس کام کے لیے قبول کیا ہے
اگر چہ ہر سال 17 اکتوبر کو غریبی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور غریبی سے نمٹنے کے لئے مختلف تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود روزبہ روز دنیا بھر میں غریبی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر گاؤں دیہات میں بیت المال کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کی باگ ڈور گاؤں کے نیک، ایماندار، اور خوفِ خدا رکھنے والے انسانوں کے ہاتھ میں دی جائے اور پھر ان کمیٹیوں کی بھر پور مدد کی جائے تاکہ یہ پیسہ غریب بچوں کی تعلیم وتربیت، غریب لڑکیوں کی شادی، بیماروں کی دوائی وغیرہ پر خرچ کیا جائے دین اسلام اسی بات کی تعلیم دیتا ہے اور غریبی سے نمٹنے کا یہ سب سے موثر اور بہترین زریعہ ہے، ہمیں انفرادی طور پر بھی غریبوں، یتیموں، بیواؤں، ناداروں، اور ضعیفوں کی مدد کرنی چاہیے کیوں کہ قیامت میں پوچھا جائے گا کہ مال کہاں سے لایا اور کس پر خرچ کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ کل اللہ رب العزت کے دربار میں ہماری پکڑ ہو اور ہماری دولت ہمارے لیے جہنم بن جائے۔؎
غریبی جب بھی آتی ہے بڑا دکھ درد دیتی ہے
کبھی خود کو کبھی سب کو کبھی سارے زمانے کو
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں