شادی بیاہ کی خرافات اوراس کے اسباب و حل

0
206
All kind of website designing

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

جہیز کے مسئلے کو لے کراحمد آباد سے تعلق رکھنے والی مظلوم عائشہ کی خود کشی کے دل دوز و جگر سوز سانحے کے بعد ہر طرف سے مذمتی بیانات اور نت نئے مطالبات کا تانتا بندھاہوا ہے۔کوئی کہہ رہاہے کہ عائشہ کے شوہر عارف کوسر عام قتل کردینا چاہیے،کسی کا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہیے اوربعض دانشوران اس معاملے میں طرفین کومجرم و قصور وار گردان رہے ہیں۔اس خوف ناک اور سنگین صورت حال کے لیے کوئی کچھ سزاتجویز کررہاہے اور اس اقدام خود کشی کی کوئی کچھ وجہ بتلارہاہے؛مگر سوال یہ ہے کہ کب تک مسلم معاشرہ ان نا گفتہ بہ حالات سے دو چار رہے گا؟کب تک نکاح جیسا آسان مسئلہ مسلم سماج کے لیے سب سے بڑی مصیبت بنا رہے گا؟کب تک ہمارے نوجوانوں کے مطالبات لڑکی والوں کے لیے سوہان روح وجاں ثابت ہوں گے؟اور کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیں گے؟آخر کیوں ہم سنجیدگی سے اس پر غور نہیں کرتے؟کیوں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے گھر سے عملی اقدام نہیں کرتے؟کیوں اپنے نوجوانوں کی اسلامی ذہن سازی وتربیت نہیں کرتے؟مال وزر کی حرص اور دولت ودھن کی لالچ ہمیں اور کتنی پستی میں ڈھکیلے گی اور ہم حطام دنیا کے لیے کب تک اپنے ضمیر کا سودا کرتے رہیں گے؟اگر صورت حال یہی رہی،دولت و ثروت کو معیار نکاح سمجھاجاتا رہااور نکاح کا مسئلہ زندگی کی راہ میں سنگ گراں بنا رہا تو پھر نبی پاکﷺکی پیشین گوئی بھی سن لیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دین داری اور اخلاق پر تمھیں اطمینان ہو تو اس سے نکاح کردو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو روئے زمین پر فتنہ اور بڑے پیمانے پر فساد برپا ہو جائے گا‘‘۔(ترمذی)نبی پاک ﷺکا یہ فرمان لڑکی والوں اور لڑکے والوں دونوں کے لیے ہے؛جس میں صاف طور پر بتلایا گیا ہے کہ نکاح کے سلسلے میں معیار کس چیز کو بنایاجائے اور کیسے شخص سے نکاح کرنے کو ترجیح دی جائے۔ایک اور روایت میں آپﷺنے فرمایا: عورت سے شادی چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال ودولت، حسب و نسب، حسن وجمال، اور دین واخلاق کی وجہ سے۔تم دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہو۔(مسلم)اس حدیث میں کسی بھی حسین، یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نکاح کی ترغیب نہیں ہے؛بل کہ اس حدیث کا معنی ہے کہ عام طورپر لوگ شادی کے لیے ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں۔کچھ تو حُسن تلاش کرتے ہیں، اور کچھ اچھا خاندان، اور کچھ مال کے بھوکے ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ دینداری کی وجہ سے شادی کرتے ہیں، اسی آخری چیزکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی اور فرمایا: دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہو۔

نکاح قانون فطرت ہے:

نکاح آسانی کے ساتھ پوری ہونے والی ایک فطری ضرورت ہے؛جس پربے جا خواہشات کا بوجھ لادھ کرمعاشرے میں مشکل ترین بنادیاگیاہے۔ اللہ نے انسان کوپیدا فرماکر اسے دو جنسوں(مرد عورت) میں تقسیم فرمایا اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے طبعی میلان پیدا کیا،تاکہ یہ میلان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کردے اور یہ قربت نسل انسانی کے فروغ کا ذریعہ بن سکے۔ مرد عورت دونوں ایک دوسرے کے بغیرزندگی نہیں گزار سکتے۔اللہ پاک نے ان میں ایسا فطری جذبہ رکھا ہے جو ان کو ایک ہونے پر مجبور کرتا ہے اور یہ جوڑا آپ ہی آپ خاندان،معاشرے اور آبادی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔پھرخالق ہستی نے یہ فطری میلان کسی مخصوص خطے یا کسی خاص مخلوق میں پیدا نہیں کیا؛بلکہ تمام مخلوقات میں پیدا فرمایا جن میں انبیاء جیسی مقدس ہستیاں،صحابہ، تابعین،ائمہ، صوفیائ، بزرگان دین، علمائ، مسلم غیر مسلم، چوپائے، چرند پرند اور سمندری مخلوقات سب شامل ہیں۔ مرد عورت کا ایک دوسرے کی جانب میلان کوئی اچھنبے کی بات نہیں؛ بلکہ عین فطری عمل ہے،اسلام نے اس معاملے میں یکسر پابندی نہیں لگائی۔اگر ایسا ہوتا تو اسلام اور فطرت کا آپس میں تضادہوجاتا،حالانکہ اسلام مکمل فطری تعلیمات پر مشتمل دین ہے اور ان تمام امور کی تائید کرتا ہے جو فطرت کو مد نظررکھتے ہوں اور اپنے ماننے والوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جس سے فطری ضروریات کو کچلنا لازم آتا ہو۔ یقیناً فطری جذبات کو مسترد کرنا کبھی خیر کا ذریعہ نہیں بن سکتا،جب کبھی ایسی کوشش کی گئی تو اس کا بدترین ردعمل دیکھنے میں آیا۔ امام غزالیؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ نکاح ایک متقی پرہیز گار اور مناجات میں مصروف شخص کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی اور کے لیے؛کیونکہ فتنے کا شکار ہونے کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کے دوسرے ہی روز نکاح فرمالیا تھا، یقینا امام صاحب پاکیزہ دل دماغ کے حامل نیک سیرت انسان تھے؛ لیکن شیطانی وساوس سے بچاؤ کا سامان کرنا بہرحال ایک سنت ہے، جس کی بناپر عبادات اور معمولات میں یکسوئی آجاتی ہے۔

تقریبات میں اعتدال:

نکاح واقعی ایک خوشی کا موقع ہے اور خوشی کے مواقع پر اعتدال کے ساتھ خوشی منانے پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی اور کیوں کر لگائے گی؛جب کہ اسلام افراط و تفریط سے پاک ایک اعتدال پسند دین ہے،جو ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی بے نور اورخشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو رو بہ عمل لانے والاکامل دین ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت وعزلت گزینی” کی گنجائش ہے، نہ ہی بے حیائی والی زندگی بسر کرنے کی اجازت۔ خوشی و مسرت کے موقع پر جائزحدود و قیود میں رہتے ہوئے تقریب منعقدکرنا اسلام میں جائز و مستحسن ہے؛ایسی تقریب جو سنت سے ثابت ہو، اسلاف سے منقول ہو،جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو،کسی کے ساتھ ظلم وناانصانی نہ ہو،بے جاتکلفات نہ ہو، غیرمعمولی اخراجات نہ ہو،مختلف رسوم و رواج نہ ہو؛بل کہ فرائض و واجبات کا التزام،حقوق و آداب کا اہتمام اورایک دوسرے کامکمل احترام ہو۔یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ نکاح کی مناسبت سے شریعت میں لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا؛بلکہ جملہ اخرجات کا ذمہ دار لڑکے والوں کو قراردیاگیا۔

عہدنبوی کی مثالی شادیاں:

ہمارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں، آپﷺ کی پیاری بیٹیوں کا نکاح اور صحابہ کرام کا نکاح نمونہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی چار صاحب زادیوں کی شادی کی، ان میں سے ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت زینب کو حضرت خدیجہ نے اپناایک ہار دیا تھا، جو جنگ بدرمیں حضرت زینب نے اپنے شوہر ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بطور فدیہ بھجوایا تھا، جسے رسول اللہﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد واپس بھجوایا۔ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی، جسے فروخت کرکے رسول ﷺ نے حضرت فاطمہ کو گھر کا ضروری سامان پانی کا مشک، تکیہ اور چادر بنوا کردیا۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار چوٹی کے مالدار صحابہ ؓ میں ہوتا تھا، دولت ان پر برستی تھی، مکے سے خالی ہاتھ آئے تھے؛ لیکن جب ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال ان کو پیش کیا تو انہوں نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور دعا دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بازار کا راستہ بتا دیجئے۔ یوں انہوں نے مدینہ منورہ میں تجارت کا آغاز کیا جو کہ بعد ازاں اتنی وسعت اختیار کر گئی کہ ان کا تجارتی مال سینکڑوں اونٹوں پر لد کر باہر جاتا اور اسی طرح باہر سے آتا۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی وسیع پیمانے پر کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت کے ساتھ ساتھ دل کے بھی غنی تھے۔ اپنی دولت راہ خدا میں بے دریغ خرچ فرمایا کرتے تھے۔ ابن اثیر کے مطابق حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو بار چالیس چالیس ہزار دینار راہ خدا میں وقف کئے۔ ایک مرتبہ جہاد کے موقع پر پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ حاضر کئے۔ سورۃ براء ۃ کے نزول کے موقع پر چار ہزار درہم پیش کئے۔ ایک مرتبہ اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینا ر میں فروخت کی اور یہ ساری رقم فقرائ، اہل حاجت اور امہات المؤمنین میں تقسیم کر دی۔ ایک مرتبہ شام سے تجارتی قافلہ لوٹنے پر رسول اکرم ﷺ کا یہ قول سنا کہ عبد الرحمٰن بن عوف ؓ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے تو پورا قافلہ راہ خدا میں وقف کر دیا،اتنے بڑے رئیس نے اپنی تمام تر دولت و ثروت کے باوجود نکاح کیا تو اتنی سادگی سے کہ نبی اکرم ﷺ کو بھی اطلاع نہ ہوئی۔
مشہور صحابی اور بارگاہِ رسالت کے خادمِ خاص سَیِّدنا ربیعہ بن کَعب اسلمیؓ فرماتے ہیں میں رسولُ اللہﷺکی خدمت میں رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ رسولِ کریمﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تم نکاح کیوں نہیں کرتے؟میں نے عرض کیا ایک تو یہ کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، دوسرا یہ کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی چیز آپ کی خدمت گُزاری میں رُکاوٹ کا سبب بنے۔ آپ صَلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ (کچھ عرصہ بعد) پھر وہی سوال کیا۔ میں نے بھی جواب میں وہی بات عرض کردی۔ میں نے سوچا کہ حضورِ اکرم صَلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں کہ دُنیا و آخرت میں میرے لئے کون سی چیز بہتر ہے؛لہٰذا اگر اب کی بار رسولِ کریم ﷺنے یہی ارشاد فرمایا تو میں ضرور نکاح کر لوں گا۔ چنانچہ، جب تیسری بارآپ نے ارشاد فرمایا تم نکاح کیوں نہیں کرتے؟تومیں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح فرمادیں!آپ ﷺ نے مجھے انصار کے ایک قبیلے کے پاس بھیجا کہ اُن سے جا کر کہنا، رسولُ اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اِس لئے بھیجا ہے کہ تم اپنے خاندان کی فلاں لڑکی سے میرا نکاح کردو۔ چنانچہ میں نے جاکر اُنہیں یہ پیغام سُنایا تو انہوں نے خوش آمدید کہا اور میری بہت عزّت کی اور میری شادی کردی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓکے ذریعہ ادائیگیِ مہر کے لیے گٹھلی بھر سونے کا اور ولیمہ کے لیے ایک فربہ مینڈھے کا انتظام بھی فرمادیا۔ (مسند احمد)
نکاح میں سادگی کے حوالے سے عہدنبوی کے یہ زریں واقعات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں،بہ شرطیکہ ہم سچے ایمان والے اور رسول اللہﷺکی سنتوں کے متبع ہوں۔

خرافات کا سد باب کیسے ہو؟

نکاح میں بڑھتی ہوئی رسومات و خرافات کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔جن میں نام و نمود،شہرت و امتیاز،حرص و لالچ،دین بیزاری و غفلت شعاری وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان رسومات و خرافات کے سد باب کے لیے درج ذیل باتوں پر توجہ دینا از حد ضروری ہے؛جن پر مخدوم گرامی حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی مدظلہ نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے،جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱- عام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کیاجائے، صرف قانون سازی یا بیان بازی کافی نہیں ہوگی، نکاح کے تعلق سے عامۃ المسلمین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ نکاح عبادت ہے اور عبادت کے لیے ہرمسلمان نبی رحمتﷺ کے طریقہ کا پابند ہے، کسی بھی عمل کے عبادت بننے کے لیے اسے منہج رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر انجام دینا ضروری ہے، بیشتر مسلمان نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے جس کانتیجہ یہ ہے کہ انھوں نے نکاح کے معاملہ میں خود کو شریعت سے آزاد سمجھ رکھا ہے۔
۲- اسلام میں غیروں سے مشابہت کی سخت ممانعت ہے، حتی کہ جو شخص کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے کل قیامت کے دن اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا، شادی بیاہ میں رائج ساری خرافات در اصل غیر مسلم سماج سے مسلمانوں میں آئی ہیں، جہیز اور دیگر رسومات غیر مسلم معاشرہ کی دین ہے، عام مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں غیروں سے مشابہت کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
۳- شادی بیاہ کی خرافات کے خاتمہ کے لیے برسوں سے آواز اٹھائی جارہی ہے؛ لیکن بظاہر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ خرافات کے سد باب کے لیے سماجی بائیکاٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے ،نیز اس حوالے سے مہم کو مستقل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔اخیر میں یہ بات ذہن میں رہے کہ خوف ِخدا اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بغیر آدمی خلاف ِشرع چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ائمہ وخطباء اور دعوت واصلاح کے ذمہ دار عام مسلمانوں میں خوف ِخدا اور فکر ِآخرت کی روح پیدا کریں؛تاکہ رسومات و خرافات کے اس سیلاب کو روکا جاسکے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here