مطالعہ، مشاہدہ اور تحقیق، معلوماتی ادب کے لازمی اجزا

0
183
مطالعہ، مشاہدہ اور تحقیق، معلوماتی ادب کے لازمی اجزا
All kind of website designing

معلوماتی ادب کو نصاب کا حصہ بنانا لازمی، اردویونیورسٹی میں سیمینار سے اہل علم کا خطاب

حیدرآباد، (ایجنسی)’’معلوماتی ادب کی تین جہات ہیں علم، خبر اور دانش۔علم دراصل ایک منضبط نظام فکر کا نام ہے جس کی اگلی منزل دانش ہے اورآخری منزل بصیرت ہے جو علم میں مزید اضافہ کا باعث بنتی ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہارپروفیسر معین الدین جنابڑے‘ ہندوستانی زبانوں کا مرکز‘ جے این یو نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آن لائن سیمینار’’اردو میں معلوماتی ادب‘‘ میں منعقدہ پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے کیا گیا۔ اجلاس کے شریک صدر پروفیسر صدیقی محمدمحمود، رجسٹرار، مانو تھے۔ جنہوں نے کہا کہ کسی بھی تحریرکا مقصد اسے اس کے ادبی زمرے سے جوڑنا ہے۔ اگر کسی عنوان کا مقصد ادبی اظہار بیان ہے تو وہ ادب کا حصہ ہے ورنہ پھر وہ معلوماتی ادب کا حصہ ہے۔ پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے کہا کہ اردو میں معلوماتی ادب کی روایت بہت قدیم ہے اور ریاست حیدرآباد میں 1848ء میں میڈیکل کی تعلیم اردو میں فراہم کیے جانے کی نظیر موجود ہے۔ اجلاس میں پروفیسر جہانگیر وارثی‘ علی گڑھ؛ ڈاکٹر پرویز احمد اعظمی‘ کشمیر؛ ڈاکٹر وارث مظہری‘ جامعہ ہمدردکے علاوہ مانو سے پروفیسر ظفر احسن، پروفیسر فہیم اختر ندوی، پروفیسر محمد مشاہد، ڈاکٹر دانش معین، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹرسعادت شریف اور ڈاکٹر سید ماجد نے بھی اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ سیمینار کے دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسرم۔ن۔ سعید‘ سابق صدر شعبہ اردو‘ بنگلور یونیورسٹی اور پروفیسر فاروق بخشی‘ مانو نے کی۔پروفیسر میم نون سعید نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اس عنوان نے یہ احساس جگایا ہے کہ اردو میں تخلیقی ادب کے علاوہ بھی ایک ایسی دنیا ہے جس کی دریافت ہم نے پوری طرح نہیں کی۔ پروفیسر فاروق بخشی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ خالص ادب میں نتیجہ اخذ کرنا قاری کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن معلوماتی ادب میں مطالعہ، مشاہدہ اور تحقیق کے ذریعے قاری کو حتمی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عابد معزسابق کنسلٹنٹ‘سی پی کے یو، مانو نے کہا کہ روایتی ادب کی طرح معلوماتی ادب کوبھی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔اور اسے بھی تخلیق کرنا ہوتا ہے اورمعلوماتی ادب ہی دراصل ادب برائے زندگی ہے۔ پروفیسرفضل اللہ مکرم،حیدرآباد یونیورسٹی نے اپنے مقالے میں معلوماتی ادب کو نصاب کا حصہ بنانے پر زوردیا جبکہ پروفیسر اشہر قدیر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے طب یونانی میں اردو کتب کی دستیابی اور فراہمی پر بات کی۔ان کے علاوہ اس اجلاس میں ڈاکٹر رفیع الدین ناصر‘ اورنگ آباد؛ ڈاکٹر خورشید اقبال‘کولکاتا؛ جناب عبدالصمد شیخ کے علاوہ مولاناآزاد یونیورسٹی کے پروفیسرمحمد خالد مبشر الظفر، پروفیسر بدیع الدین؛پروفیسر افروز عالم؛پروفیسرمحمد عبدالسمیع صدیقی اور ڈاکٹر آمنہ تحسین نے بھی اپنے اپنے مقالات پیش کیے جن میں اردو میں معلوماتی ادب کی نئی جہتوں اور اس کے تقاضوں سے واقف کروایا گیا۔بعدازاں ڈائرکٹر ڈی ٹی پی پروفیسر محمد ظفرالدین کے ہدیہ تشکر کے ساتھ سیمینار کا اختتام عمل میں آیا۔کنوینر سیمینار ڈاکٹر اسلم پرویز نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here