ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال : رات میں قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں _
جواب : عید الاضحٰی کی نماز کے بعد سے لے کر 12 ذی الحجہ (اور بعض فقہاء کے نزدیک 13 ذی الحجہ) کے غروبِ آفتاب تک قربانی کی جاسکتی ہے _ اس میں دن اور رات دونوں اوقات شامل ہیں _
قرآن مجید میں دورانِ حج قربانی کرنے کا حکم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
وَيَذکرُوا اسمَ اللّہ ِ فیِ اَ يَّامٍ مَّعلُومٰتٍ عَلیٰ مَا رَزَقَھُم مِّن بھَِيمۃ ِ الاَنعَامِ۔۔۔ (الحج :28)
’’ اور چند مقرر دنوں میں اُن پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں‘‘۔اس آیت میں ‘ایام’ (دنوں) کا لفظ ‘لیالی’ (راتوں) کے مقابلے میں نہیں آیا ہے ، بلکہ اس میں دن اور رات دونوں شامل ہیں _ قرآن میں اس کی مثالیں ملتی ہیں _ مثلاً قوم ثمود نے جب سرکشی کی انتہا کردی اور معجزہ سے ظاہر ہونے والی اونٹنی کو بھی قتل کردیا تو حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں ان الفاظ میں وارننگ دی : تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِ کُمْ ثَلٰثۃَ أَيَّامٍ ( ھود:65)
’’بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو _‘‘
اس آیت میں بھی اگرچہ ‘ایام (دنوں) کا لفظ آیا ہے ، لیکن اس میں دن اور رات دونوں شامل ہیں _
بعض احادیث میں ، جنھیں طبرانی ، بیہقی اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے ، مذکور ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم
نے رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے _ لیکن یہ احادیث ضعیف ہیں ، اس لیے ان کا کوئی اعتبار نہیں _
جمہور فقہاء نے رات کے وقت قربانی کرنے کو جائز قرار دیا ہے ۔ جن حضرات نے مکروہ کہا ہے اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے روشنی کا معقول انتظام نہیں ہوتا تھا ، اس بنا پر قوی اندیشہ ہوتا تھا کہ رات میں قربانی کرنے سے جانور صحیح طریقے سے ذبح نہ ہوسکے ، گردن کی رگیں ٹھیک سے کٹ نہ سکیں ، جانور کو تکلیف ہو اور پورا خون تیزی سے نہ نکل سکے _ اب جب کہ رات میں روشنی کا معقول انتظام ہوسکتا ہے ، اس لیے مذکورہ بالا اندیشوں کا امکان کم سے کم ہے ، یا بالکل نہیں ہے ، چنانچہ اب رات میں بھی بلا کراہت قربانی کی جاسکتی ہے _۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں