تحریر: نجم الہدیٰ ثانی
اروندھتی رائے کی کتاب ‘The Doctor and the Saint ‘ کل ختم ہوئی۔ اصلاً، یہ کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ بابا صاحب بھیم راؤامبیڈکرکی انقلابی کتاب ‘Annihilation of Caste’ کے اصل متن کے ساتھ تعارف کے طورپر 2014میں شائع ہوئی ۔پھر 2019 میں اسے الگ سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
‘Annihilation of Caste’ بھی اصل میں کوئی کتاب نہیں تھی بلکہ 1936میں امبیڈکرنے اسے لاہورکے ‘جات پات توڑک منڈل’ کی دعوت پرایک پروگرام کے لئے صدارتی تقریرکے طورپرلکھا تھا۔ یہ تنظیم آریا سماج سے متاثرتھی اورہندوؤں میں سماجی اصلاح، جیسے ذات پات کے خاتمے، کے لئے کام کرتی تھی۔ اس میں ‘اعلیٰ ذات’ کے ہندو مردوں کا بول بالا تھا۔ پروگرام سے پہلے جب منتظمین نے اس تقریرکا متن پڑھا توانہوں نے امبیڈکرسے معذرت کرلی کہ وہ اس تقریرکو اس کی موجودہ شکل میں اپنے پلیٹ فارم سے عام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بعد میں یہ تقریرکتابی صورت میں شائع ہوئی۔ اپنے بلند علمی معیار اوردوٹوک لہجے کی وجہ سے اس کتاب کو ذات پات کے نظام کے حامیوں کی جانب سے ہمیشہ مخالفت کا سامنا رہا۔ گاندھی جی نے بھی اس کتاب سے اپنے سخت اختلاف کا اظہارکیا اوران کے اور باباصاحب کے درمیان ہونے والے ڈبیٹ میں ذات پات کا مسئلہ ، جو اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے، ہمیشہ چھایا رہا۔
اروندھتی رائے کی یہ کتاب یا تعارف بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس کتاب میں امبیڈکرکی مذکورہ بالا کتاب کے مندرجات کا کوئی تعارف نہیں ہے۔ چونکہ میں نے اسے مستقل کتابی صورت میں پڑھا ہے اس لئےمطالعے کے وقت میرے ذہن میں ‘Annihilation of Caste’ یا اس سے متعلق موضوع نہیں تھا۔ میں نے اسے وسیع ترگاندھی-امبیڈکرڈبیٹ کا ایک حصہ سمجھ کرپڑھا اوراس لحاظ سے مجھے یہ کتاب پسند آئی۔ہاں، کتاب کا ایک حصہ پڑھنے کے بعد میں اپنے آپ سے پوچھنے لگاتھا کہ کیا امبیڈکرکے کسی کام، منصوبہ، فیصلہ اورفکرکو ذات پات کے متعلق ان کے خیالات سے الگ کرکے ہم دیکھ سکتے ہیں ؟
لیکن اصلاً یہ کتاب امبیڈکر کی کتاب کے تعارف کے طورپرلکھی گئی تھی اس لئے تعارف سے اسی کتاب کے مندرجات کا غائب رہنا کچھ عجیب لگتا ہے۔ رائے نے اس کتاب میں امبیڈکر کے بجائے گاندھی جی کوزیادہ جگہ دی ہے۔ ظاہرہے جن لوگوں نے اسے امبیڈکرکی کتاب کے ساتھ اس کے تعارف کے طورپرپڑھا انہیں یہ بات کچھ جچی نہیں۔ وہ بجا طورپراس بات کی امید کررہے تھے کہ باباصاحب بھیم راؤامبیڈکرنے اس کتاب یا تقریرمیں ذات پات کے موضوع پرجو کچھ لکھا ہے اسے زیرِ بحث لایا جائے گا اوراس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پرموجودہ سیاسی حالات کے پس منظرمیں گفتگوکی جائے گی۔ رائے نے اس سلسلے میں انہیں مایوس کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آدی واسیوں کے متعلق امبیڈکر کے ‘منفی خیالات’ کواپنے اس تعارف میں جگہ دینے کی وجہ سے کچھ دلت دانشوراورسماجی کارکن بھی رائے سے ناراض ہوگئے اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کتاب کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔رائےکا امبیڈکر کی کتاب کے تعارفی مضمون میں ان کے بجائے گاندھی کو زیادہ جگہ دینا بھی بلا وجہ نہیں تھا۔
تحریکِ آزادی کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ گاندھی-امبیڈکرڈبیٹ سے خوب واقف ہیں۔ ذات پات اورچھواچھات کے متعلق گاندھی جی اورامبیڈکرمختلف رائےرکھتے تھے۔ تحریکِ آزادی کے درمیان اورپھرآزادی کے بعدبھی ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں گاندھی جی کی شخصیت کے چاروں طرف تقدس، روحانیت اوربے غرضی کا ایک دبیز پردہ ڈال دیا گیا۔ اس کی موجودگی میں کسی کے لئے بھی ان کی زندگی ، سیاسی فیصلوں اورمذہبی اورجنسی تجربات کوبے لاگ علمی تنقیدوتحقیق کا موضوع بنانا کسی کے لئے بھی آسان نہیں رہا۔ آزادی کے بعد، محض ایک سیاسی پارٹی رہ جانےکی وجہ سے کانگریس، اورشاید ہندوستانی قوم کو بھی، ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو ملک کے مختلف طبقات میں یکساں مقبول و محترم ہو۔ ظاہر ہے، اس کام کے لئے گاندھی جی سے زیادہ موزوں کون ہوسکتا تھا۔ اس طرح موت کے بعد بھی وہ کانگریس کا سہارا بنتے رہے جس طرح اپنی زندگی میں بنتے تھے۔ اس پس منظر میں امبیڈکر کے خیالات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے پہلے، یہ ضروری تھا کہ ان مسائل کے متعلق جن پرلکھتے، بولتے، بحث کرتے اورنرم اورگرم پڑتے امبیڈکر نے اپنی پوری زندگی گذاردی، گاندھی جی کے موقف کو تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کتاب اسی کوشش کاایک نتیجہ ہے۔
ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں کانگریس اور خود گاندھی جی نے شعوری طورپراپنی جو شبیہ راسخ کرنے کی کوشش کی اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ رائے اس شبیہ کے اردگرد تقدس کے ہالے کو توڑکراس کی جگہ بے چین کرنے والے سوالات کا سلسلہ پیدا کرتی ہیں۔ کچھ سوالات پرانے ہیں اورکچھ نئے۔ حال فی الحال تک جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کے گذارے تقریباً چوتھائی صدی کو مؤرخین نے اپنی تحقیقات کے دائرے سے باہرہی رکھا تھا۔ جب کہ ان طویل برسوں ہی میں گاندھی جی کی شخصیت کی بنیاد رکھی گئی اوراس کی تعمیر کا دورشروع ہوا۔ 1915 میں جب گاندھی جی ہندوستان آتے ہیں اس وقت وہ تقریباًپینتالیس برس کے تھے اورسیاست، مزاحمت، روحانیت اورجنس میں ذاتی تجربات کا سلسلہ انہوں نے بہت عرصے سے جاری کررکھا تھا۔ ہندوستان میں 19015 سے 1948 انہوں نے سیاست، مزاحمت، روحانیت اورجنس کی سطح پرجوکچھ تجربات کیا اوران کی شخصیت اوررویوں میں ہمیں جوتضادات نظرآتے ہیں ان کے ڈانڈے جنوبی افریقہ سے جاکر ہی ملتے ہیں۔ (جاری)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں