دنیا سے عصبیت کا خاتمہ۔۔اوربقائے باہم کی راہ۔۔۔

0
554
All kind of website designing

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی ، نئی دہلی، انڈیا

عصبیت انسان کے قلب وذہن کاایسا ناسور ہے، جس کی کوکھ سے نفرت،نفاق اورعداوت جنم لیتی ہے اورجب کسی انسان یا سماج کی اکائی کویہ بیماری لگ جاتی ہے توایک طرف توسماج زندگی کی حقیقی امنگوں سے محروم ہوجاتاہے اوردوسری طرف جسے دنیا میں ترقی کانام دیاجاتاہے، اس کی رفتار رک جاتی ہے اور پوراسماج مختلف قسم کی سیاسی سماجی اور معاشرتی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے،اس کی نحوست سے پورا معاشرہ بے برکت اوربے فیض ہوکر رہ جاتاہے۔
یوں تو انسان کی فطرت ہے کہ اس کے اندر قوم پرستی،خویش اندیشی اوردنیاوی مفادات کی خاطرعصبیت جیسے مرض ناسور کی طرح اسے ہی کھارہے ہوتے ہیں۔مگر بنیادی طور پر جن چیزوں کی وجہ سے انسان متعصبانہ جذبات میں مبلاہوتاہے وہ مذہبی احساس برتری۔ خواہ وہ حق ہویا ناحق،نسلی اورخاندانی احساس تفوق۔دنیاوی جاہ ومنصب کی حرص۔اور باعث اعزاز سمجھے جانے والے مذہبی ،قومی،ملکی اورتاریخی وراثت پر قبضہ کی خواہش۔اسی طرح احساس تقرب بھی اس کی وجوہات میں سے اہم ہے۔جیسے یہودی قوم کے اندر خود کو ”اللہ کا بیٹا“ماننے کااحساس۔ہندوستانی معاشرے میں برہمن قوم میں خود کو برہما کے سر سے جنم لینے کا احساس(ان دونوں تصورات پرصحیح یاغلط ہونے کی بحث علاحدہ ہے اس پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے)اس وقت ہم صرف عصبیت کی ریالٹی پر بحث کررہے ہیں۔اسی طرح کسی اپنے پسند کی چیز کو پانے(خواہ انفرادی ہویااجتماعی)کی ضد۔ یہ بھی عصبیت کاہی نتیجہ ہوتا ہے۔کہ انسان خودکوہی اسکاحقدارتصور کرتاہے۔۔ اور جب

مفتی احمد نادر القاسمی
مفتی احمد نادر القاسمی

اس کے طمع وحرص میں اضافہ ہوتا یا سیاست جڑجاتی ہے تو پھر یہ مرض شخصی اور انفرادی دائرے سے نکل کرپورے ہمنواحلقے میں پھیل جاتا ہے اوراپنادائرہ وسیع کرلیتا ہے اورپھررفتہ رفتہ اس کے اثرات معاشرتی، سیاسی،تعلیمی اورحکومت کے مشترکہ امور میں نظر آنے لگتا ہے اور اس کے جومنفی نتائج ہوتے ہیں، وہ یہ کہ انسانیت پامال ہوتی ہے۔حقوق سلب ہوتے ہیں۔لوگوں کی عزت وناموس داؤ پہ لگ جاتی ہے۔
اگرعصبیت کی آگ میں جھلستاہوا طبقہ سیاسی اورمعاشی اعتبار سے طاقتورہوجائے توروئے زمین پر ظلم وزیادتی۔نفرت وجہالت اور انسانیت سوزی سرچڑھ کربولنےلگتی ہےاورانسانی حقوق کادیوالیہ نکل جاتاہے۔
اگرتاریخی طورپر دیکھا جائے توعصبیت اورانسانوں کے درمیان نفرت وعداوت کاسلسلہ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں کےدرمیان رونماہونےوالے واقعہ سے شروع ہوتا نظرآتاہے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ میں عصبیت کا جوبدترین واقعہ پیش آیا، وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔اور ان کے بھائیوں نے عصبیت کامظاہرہ کرتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کےساتھ جوکچھ کیا وہ بھی تاریخ انسانی میں سفاکیت کی ناقابل فراموش داستان ہے۔اورقرآن کریم نے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اپنے دامن میں محفوظ کرلیاہے۔یہ دوعظیم عصبیت جاہلیہ کے واقعات ہیں،جواپنی سنگینی کےاعتبار سے عبرت حاصل کرنے کےلیے کافی ہیں۔
تاریخی طورپر جب یہ سلسلہ درازہواتویہود اورنصاری کے درمیان کم وبیش چھ سو سالوں تک چلتارہا۔جیساکہ آیت قرآنی:’’قالت الیھود لیست النصاری علی شیٔ وقالت النصاری لیست الیھودعلی شیٔ۔کذلک قال الذین لایعلمون مثل قولھم،فاللہ یحکم بینھم یوم القیامۃ فیماکانوافیہ یختلفون‘‘(سورۃ بقرہ:113)سے معلوم ہوتاہے۔یہ عصبیت کی ایسی شکل تھی کہ دونوں نے ایک دوسرے پر نازل ہونے والی اللہ کی آیات کاہی انکار اورگلا گھونٹ دیااور نسلی ،مذہبی وگروہی عصبیت کایہ سلسلہ نبی آخر الزماں خاتم المرسلین محمدﷺ تک چلتارہا۔
جب محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تویہودیوں کی اس متعصبانہ روش کارخ نصاری کے بجائے محمدﷺاور ان کے پیروکاروں کی طرف ہوگیا۔اوریہ مدتوں یکطرفہ چلتارہا،جوآج بھی جاری ہے۔
مگراس کے ردعمل میں جب مسلمان مضبوط ہو ئے توان کی طرف سے بھی شروع ہوا۔اعتراف حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی اس مرض سے اچھوتے نہیں رہے۔مسلمانوں میں نبوت کی برکت اور اسلام کی صحیح اسپرٹ پرامت کےقایم رہنے کی وجہ سے تقریبا پہلی صلیبی جنگ تک مسلمان محض دین کی اشاعت اور دعوت دین کی لالچ میں سب کچھ برداشت کرتے رہے۔یہودونصاری کے طعنے اورگالیاں کھاتے رہے اوررسولﷺاور آل رسولﷺ پرلگائی گئی تہمتوں وتکبرکوبر داشت رہے۔مگر جب یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیاتو مسلمانوں کی طرف سے بھی یہ سلسلہ شروع ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد جب بھی کوئی چیزجو آپس میں بھی مسلمانوں کے اندر رونماہوئی فوراً یہودونصاری کی طرف منسوب کرنے اور انہیں کی سازش قراردینے لگے۔اور پھر یہ ہونے لگاکہ یہودونصاری نے ہر کمی کو مسلمانوں کی طرف منسوب کرنا شروع کیا اورمسلمانوں نے اپنی ہر کمی کویہود ونصاری اور مغرب کی طرف منسوب کرنا شروع کیا۔یہاں تک کہ خود مسلمانوں نے اپنی تہذیبی، تمدنی، تعلیمی اورثقافتی بگاڑ کا ذمہ دار بھی یہودونصاری اور مغرب کو قرار دیا ۔آپ دیکھ لیجیے ہرجگہ آپ کو”حضارۃ غربیۃ“کے الفاظ مل جائیں گے۔
پھر یہ نسلی اورقومی عصبیت کی اصطلاح عثمانی خلافت کے زوال سے پچاس ساٹھ سال پہلے سے مشرق اورمغرب میں تبدیل ہوئی مسلمان ہر چیز کو مغربی فلاں مغربی فلاں کہ کرکوسنے لگا اور عیسائی دنیا مسلمان اور مشرق کی طرف اپنی ہر حرکت اورعیسائیوں کے ردعمل کو منسوب کرنے لگی۔جیساکہ دونوں طرف کی سیاسی اورفکری کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے۔
تعصب کا خاتمہ:
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام ہی ایسا دین ہے جو اخلاقی اور انسانی تعلیمات کے خزانے سے مالامال ہے۔اگرچہ اس دور میں مکمل طور پر مسلمان ان پرعمل پیرا نہیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہواکہ انسان کوانسان کے درجہ پہ لانے۔انسانیت کو اس کا حقیقی مقام دلانے اور انسانوں کے درمیان الفت ومحبت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے دنیا میں مسلمانوں کوہی آگے آناہوگا۔اسے تعمیر انسانیت کےلیے اپنے بہت سے دنیاوی حقوق کا خسارا بھی برداشت کرناہوگا۔اپنےبہت سے سیاسی،سماجی اورملکی حقوق کی محض انسانیت کی بقا کی خاطر قربانی بھی دینی ہوگی۔اور بہت سی ترجیحات سے دست بردار بھی ہوناپڑے گا ۔کیونکہ وہ اس رسولﷺ کی امت ہے جس کی زندگی انسانیت کی ہدایت و بھلائی کے لیے سراپاایثار وقربانی کی تصویر بنتی دکھائی دیتی ہے،اس سنت کوتو اداکرناہی ہوگا۔ تب ہی اس کاحق اداہوگا ورنہ نہیں۔
جسے ہو جان ودل عزیز میری گلی میں آئے کیوں؟
آپ صلح حدیبیہ کی تہ میں جا ئیے اوردیکھیے! محض انسانیت اور اخلاق کی بالا دستی کے لیے کیسے مسلمان اپنے حق زیارت سے دست بردار ہوئے ۔وہیں پہ جانور وں کی قربانی دی ۔دنیا میں آپ کو اس کی کہیں نظیر نہیں ملے گی۔اور اس کے بعد جس نعمت نےاس کی کوکھ سے جنم لےکر دنیا کو فیض یاب کیا۔آج تک ،بلکہ رہتی دنیاتک اس کافیض جاری رہے گا ان شاء ٕاللہ۔اسی طرح انسانیت کو بلندیوں تک پہنچانے اور عصبیت کے خاتمہ کی جو پہل اسلام نے’’فتح مکہ‘‘کےموقع پر کی۔تعمیرانسانیت اور عفوودرگزرکانمونہ پیش کیاگیا اس کی مثال بھی آج تک کی دنیا کی تاریخ میں نہیں ملے گی ۔یہی وہ موقع تھا، جب محسن انسانیت خاتم المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری پیغام میں فرمایا:میں آج سے جاہلیت کی تمام رسموں اورعصبیت جاہلیہ کو اپنے قدموں تلے روندتاہوں۔اور جاہلیت کے تمام خون کو معاف کرتاہوں۔اور اے دنیائے انسانیت سن لو! آج کے بعد نہ کسی عربی کوعجمی پر نہ عجمی کوعربی پر اور نہ کالے کاگورے پر اورنہ گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں ہوگی۔ سوا ئے تقویٰ کے
اب مسلمانوں کوچاہیے کہ ’’ لقدکان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ‘‘ کی روشنی میں۔مشرق ومغرب کی الزام تراشی کا سلسلہ بند کرے۔اورجب بھی کچھ ہوجا ئے فورایہ کہنےکی کہ یہ یہودی سازش ہے۔ یہ مغرب کی ریشہ دوانی ہے۔یہ غیرمسلموں اور اسلام دشمن عناصر کی کارستانی ہے وغیرہ وغیرہ یہ کہنا بند کرے۔اپنی اصلاح اور اپنی ذمہ داری پرتوجہ دے۔اور یہود ونصاری اور ان دونوں کے ہم نواؤں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اپنا انسانی عصبیت کا رویہ ترک کریں ۔انسان دوستی بقائے باہم اور تعایش سلمی کی طرف دنیا کو لانے کی کوشش کریں۔محمدﷺ جوآخری نبی ہیں وہ ہمارے بھی نبی ہیں اور پوری انسانیت کے نبی ہیں۔جن کی آمد کی بشارت سیدناموسی؈ ،سیدناعیسیٰ؈ اور تمام سابقہ انبیائے کرام؊ نے دی تھی۔ان کی تعلیمات سے تعصب کا راستہ چھوڑ یں۔مسلمانوں کو ہر معاملے میں مورد الزام ٹھہرانا ،ان پردہشت گردی کا لیبل لگانا اور اسلاموفوبیا جیسی حرکتوں پر روک لگائیں۔روئے زمین پر انسان دوستی اورالفت کے ماحول کو پروان چڑھانے کی مل کر کوشش کریں۔یہی ہے دنیا میں بقائے باہم اور امن کاراستہ۔ترقی کا زینہ اوردنیائے انسانیت کوصحیح نہج پر رکھنے کا طریقہ ۔دنیا کے تمام مذاہب میں یہ اصول مشترک طورپرموجود ہیں ۔ان کو بنیاد بناکر عالمی بقائے انسانیت کاپروگرام ترتیب دیاجاسکتاہے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here