حکیم نازش احتشام اعظمی
اس وقت جب کہ کووڈ19-ہندوستان کو کسی بھوکے اژدہے کی طرح اپنا شکار بناتا جارہا ہے اورملک گیر سطح پر یومیہ پانچ ہزار سے اوپر کیسز سامنے آ رہے ہیں، نتیجہ کار جس وقت آپ کی نظروں کے سامنے یہ تحریر پیش کی جارہی ہے متاثرہ ممالک کی فہرست میں بہت جلدہم ایران کو پچھاڑ کر 10 ویں مقام پر پہنچنے والے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران میں اگرچہ اس وقت متاثرین کی تعداد ایک لاکھ چھبیس ہزار نوسو اننچاس( 126949)ہے ، جبکہ حیران کن طور پر اس کے 98,808مریض روبہ صحت ہوچکے ہیں، جبکہ ہلاکتیں سات ہزار ایک سو تراسی ہوئی ہیں۔جو بات ایران کے لیے باعث اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ اب اس نے کورونا پر تقریباً قابو پالیا ہے اور ہندوستان کی طرح یومیہ چھ ہزار سے پانچ ہزار تک کیسز سامنے نہیں آرہے ہیں۔مگرجس رفتار سے ہندوستان میں گزشتہ ایک ہفتہ سے کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ،اس سے یہ اندیشہ بڑھتاجارہا ہے کہ
اگر اسی رفتار سے متاثرین کی تعداد سامنے آتی رہی تو آئندہ دوچار دن میں ہی ہندوستان ایران کو پیچھے چھوڑ کر دسویں پائیدان پر پہنچ جائے گا۔ایسے حالات میں جب ہندوستان میں متاثرین کی تعداد محض ساڑھے پانچ سو تھی آج سے 56 دن پہلے صرف چار گھنٹے کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی بھی ریاستی وزرائے اعلیٰ یا اپوزیشن سے رائے مشورہ کئے بغیر اپنی مرضی سے بہ یک قلم ملک گیر سطح پر مکمل تالابندی کا اعلان کردیا تھا، مگر آج جب حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور مایوس کن حدتک متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ، اور چوتھے مرحلے کے لاک ڈاؤ ن کی تاریخ مکمل ہونے میں محض ہفتہ دس دن رہ گیا ہے، تومرکزی حکومت وزارت داخلہ اور پی ایم او کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ہیں، نتیجہ کار مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستوں کو آئندہ کے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے کہ کہاں لاک ڈاؤن کرنا ہے اور کہاں نہیں کرنا یہ ریاستی حکومتیں اپنی صوابدید سے کریں،اس سےاندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی سرکار اس وبا کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیںاورحالات پر قابوپانا اس کے بس کی بات نہیں ہے، مرکز کی جانب سے متاثرین کواللہ کے بھروسے چھوڑ کرسارے معاملے ریاستوں کو منتقل کردینا دینا اپنے اندر کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ بی جے پی بہر صورت اس کوشش میں ہے کہ اپنی گردن بچانے کا کوئی آسان سا راستہ تلاش کرلیا جائے، جس سے اس کی جگ ہنسائی بھی نہ ہو اور ملک کے مزدوروں کے دلوں میں یرقانی طاقتوں کے خلاف جو نفرت بڑھتی جارہی ہے ،اس سے ان کے اذہان ڈائیورٹ کرنے کی صورت بھی نکل آئے۔ ایسے میں ماہ رمضان المبارک کے باقی ماندہ ایام بی جے پی کے لیے انتہائی فائدہ کا سودا ہوسکتے ہیں، اگر ان ایام میں ڈھیل دی جاتی ہے تو مسلمان جس کی اکثریت ان پڑھ اور گنواروں کی ہے ،وہ اکثریت اگرچہ روزہ اور اس کے تقاضوں کو پورے کرنے میں کوئی دل چسپی نہ رکھتی ہو۔ مگر اسے عید پر مہنگے اور خوبصورت لباس ضرور چاہئیں، حالاں کہ شریعت اسلامی نے کبھی بھی اپنے ماننے والوں کو کسی تہوار میںنیالباس زیب تن کرنے کو لازم یا فرض قرار نہیں دیا ہے۔مگر عقل اور دین سے غافل ، اسلامی تعلیمات اور شعور سے عاری مسلمان نام کی بھیڑ کو اس سے کیا لینا دینا ۔اسے تو ہر قیمت پر وہی کرنا ہے جس سے جاہل سماج اس کی جانب رشک بھری نظروں سے دیکھے، چاہے اس کے اس غلیظ عمل سے اسلام اور مسلمانوں کی ہزارہا بدنامی کیوں نہ ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔سنگھی ذہنیت نے یہ منظم سازش رچی ہے کہ اس موقع پر لاک ڈاؤن میں ڈھیل دیدی جائے ،جس سے مسلم مرد اور بیشتر نقاب پوش خواتین کا ازدحام بازاروں میں بھیڑ کے ریوڑ کی طرح کود جائے گا اور اس طرح بنیوں کا کام بھی بن جائے گا جو سنگھ اور بی جے پی کو سب سے زیادہ چندہ دیتے ہیں اور دوسری جانب کورونا پھیلانے کاالزام لگاکر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا زرین موقع بھی ہاتھ لگ جائے گا۔
ہم نے چند ہفتہ پہلے ہی دیکھا ہے کہ تبلیغی جماعت کو کورونا کے لیے قصوراوار قرار دیتے ہوئے سارا نزلہ مسلمانوںپر اتارا جانے لگاتھا اور حکومت و بی جے پی کا ترجمان بن کر کام کرنے والے میڈیا ہاؤسز جیسے’’ زی نیوز، رپبلک ٹی وی، ٹائمز ناو ٔ، اے بی پی اور آج تک ‘‘جیسے چینلز کورونا جہاد جیسی اصطلاحات گڑھ کر سارے ملک میں مسلمانوںکے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم ہفتوں چلاتے رہے، اس مذمو م اورجھوٹی اور نفرتی مہم کو آگے بڑھانے میں پرنٹ میڈیا میں ’’دینک جاگرن‘‘، ہندوستان اور امر اجالا جیسے اخبارات بھی پیش پیش نظرآئے۔زعفرانی سازش کاروں کی اس ناپاک سازش کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کی لگ بھگ سبھی تنظیموں کے دوربیںملت کے ارباب حل و عقد نے امت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ’’ رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری ہے اور عید الفطر کی آمد آمد ہے، لیکن اس سال دو سو سے زائد ممالک کو اپنے لپیٹ میں لینے والی مہلک وبا کووڈ-19کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے، جس کی وجہ سے رمضان المبارک کی تمام رونقیں ختم ہیں۔ جب ماہِ مبارک کی تمام بہاریں بے مزہ ہوگئی ہوں تو ایسے میں عید کی خوشیاں منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔لہٰذا تمام مسلمانانِ ہند کو چاہئے کہ عید الفطر نہایت سادگی کے ساتھ منائیں اور عید کی خریداری کے لئے کوئی بھی فرد با لخصوص خواتین ہرگز بازاروں یا شاپنگ مالس میں نہ جائیں۔ہمارے تہوار کی ساری رونقیں اور عبادتیں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈائون کی نذر ہوگئی ہیں، تمام کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر ہرشخص متأثر ہوا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ عام زندگی کب بحال ہوگی۔ اس لئے آئندہ دنوں میں مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتاہے۔لہٰذا احتیاط کاتقاضہ یہی ہے کہ اس مرتبہ عید الفطر کے موقع پر کسی بھی قسم کی خریداری نہ کی جائے ،بلکہ عیدالفطر گھر وں میں ہی سادگی سے منائی جائے۔ ملت کے بہی خواہوںنے اپیل جاری کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کونشانہ بنانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے امت مسلمہ کے ہرفرد کو متحرک اور مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔
مگر دوروز قبل دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے جو خودہی مسلمانوں کو بدنام کرنے کے معاملے میں بدنام ہوچکے ہیں،انہوں نے لاک ڈاؤن میں معمولی سی ڈھیل کیا دی کہ گویا مسلمانوں کو آزادی کا پروانہ مل گیا۔ہمیں یہ قطعی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کجریوال خود بھی بنیا قوم سے ہیں اور وہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کا کوئی بھی موقع فروگزاشت کرنا گوارہ نہیں کرسکتے۔کل جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس اور شاہین باغ کے کچھ حصوں میں مسلم خواتین کی بھیڑ دیکھ کر یہ یقین ہونے لگاتھا کہ آر ایس ایس کو اس کے من کی مراد ملنے والی ہے۔ابھی اس تعلیم یافتہ علاقہ کی خواتین کی حماقت پر کف افسوس ملا ہی جارہاتھا کہ قصاب پورہ اور باڑہ ہندو راؤ علاقے سے دل کو مطمئن کرنے والی خبر سننے کو ملی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی سیاسی قائدین اور سماج کے ذی شعور لوگوں نے صدر بازار سے متصل نشیب کی طرف آنے والی سڑک کے دونوں جانب پہاڑی دھیرج اور آزاد مارکیٹ میں کپڑوں کی بڑی بڑی دکانوں کو کھولنے نہیں دیا ، ان کا کہنا تھا کہ یہاں مسلم خواتین کی بھیڑ جمع ہوگی اور بی جے پی کو موٹا چندہ دینے والےبنیے اور اگروالوں کو لاک ڈاؤن میں ٹوٹے ہوئے لوگوں کی کمر توڑ نے کابھرپور موقع مل جائے گااور اوپرسے کورونا پھیلانے کے لیےمسلمانوں کوبدنام کرنے والا میڈیا اور بی جے پی کا آئی ٹی سیل جھوٹے الزمات اور پروپیگنڈوں کے ساتھ پھر سرگرم ہوجائے گا، تاکہ بی جے پی کی کارپویٹ نواز حکومت سے متنفر مزدور ں کا ذہن آسانی سے بھٹکا دیا جائے۔ایک اندازے کے مطابق عید الفطر کے موقع پر صرف جامعہ نگر اور اس کے متصلہ علاقوں میں رہنے بسنے والے مسلمان لگ بھگ 2400 کروڑ روپے کی خریداری کرتے ہیں، جس میں بٹلہ ہاؤس ،شاہین باغ اور اس جیسی ایک آدھ مسلم اکثریتی مارکیٹ سے فقط ساڑھے تین سوکروڑ کی خریداری ہوتی ہے، جب کہ اکیس سو کروڑ ہم لاجپت نگر، ساؤتھ ایکس اور کناٹ پلیس جیسی مارکیٹوں میں بڑی بڑی دکانیں سجائے بیٹھے اگروالوں اور بنیوں کو دے آتے ہیں، جو بی جے پی کے سب سے بڑے حامی بھی ہیں اور اربوں روپے چندہ کی شکل میں سنگھ اور بی جے پی کو یہی قوم دیتی ہے۔
اب خود غور کریں کہ اگر مسلمان ان کے محلے میں سبزی بیچیں تو وہ غریب کورونا پھیلا رہا ہے اور انہیں مسلمانوں کی گاڑھی کمائی سے یہ بنیے اور اگروال اپنی تجوریا بھریں تو اس سے کوئی کورونا نہیں پھیلتا۔ اس وقت جامعہ نگر کے ارباب حل و عقد اور سیاسی قائدین کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کوئی ایسا مثبت قدم اٹھائیں جس سے ہمارے بازار حسب سابق بند رہیں تاکہ ہمارے دشمنوں کو ہمیں نشانہ بنانے اور گودی میڈیا کوکورونا جہاد نام کا پروپیگنڈا چلانے کا موقع نہ ملنے پائے۔ویسے اللہ کریم نے دکھا دیا ہے ’’زی نیوز‘‘ کے ایک درجن سے زائد اہلکاروں میں کورونا پازیٹیوپایا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کا نوئیڈا آفس سیل بھی کیا جاچکا ہے۔یہ قدرت کاکرشمہ ہے جسے وہ کبھی کبھی دکھا دیا کرتا ہے، نفرت کے سوداگروں کو اس سےسبق ضرور لینا چاہئے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں