ڈاکٹر حفظ الرحمان اعظمی ،سفیر برائے ہند ،مملکۃ السیریا
حکیم نازش احتشام اعظمی
عموماً مدارس دینیہ پر یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں عصری علوم کو شامل نہیں کرتے ، اس لئے وہ دور حاضر کے مقابلہ جاتی حالات میں کہیں ٹھہر نہیں پاتے ، حالاں کہ گزشتہ بیس تیس برسوں میں مدارس اسلامیہ کے فضلاءنے زندگی کے مختلف شعبوں اپنی کامیابی کے پرچم لہرا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کے اندر بھی خوبیوں ،صلاحیتوں اور ذہانت
وفطانت کے دریا متلاطم ہیں،ہمارے بوریہ نشینوں کو حقارت کی نظروں نہ دیکھا جائے ، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی اور انتھک محنتوں کی پذیرائی کی جائے تو وہ بھی مقابلے کے بلند ترین ہمالیہ کی چوٹی سر کرسکتے ہیں۔
آج کی بیدار مغز اور جاگتی دنیا اپنے سر کی آنکھوںسے یہ دیکھ رہی ہے کس طرح نامساعد حالات اور ہر جانب حوصلہ شکنی کے باوجود مدارس دینیہ کے یہ فضلاءعصری اورعلمی میدانوں میں عہدساز کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ البتہ بلاخوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وقت کے تقاضوں اور حالات کے دھارے کو سمجھنے اور اپنے طلبہ کو اس کی جانب راغب کرنے میں افسوس ناک حد تک تاخیر سے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ اول تو صرف انگریزوں اور اس کے سامراج کی مخالفت میں مدارس نے اپنے نصاب سے عصری کتابوں ،زبانوں مروجہ فنون ریاضی ،سائنس اورحیاتیات کو شامل نہیں ہونے دیا،جس کا بدیہی مقصد یہی معلوم ہوتا ہے ان کا ارادہ فقط انگریزی حکومت کے دربار میں اپنی بھرپور مخالفت درج کرانا تھا۔ مگر بعد کے ادوار میں اکابرین کے فیصلہ کو منز ل من اللہ سمجھ کر مدارس میں خالص دینی تعلیم کو فرض کرلیا گیا، جبکہ بیشتر اکابرین اور اسلاف کا مقصد قطعی طور پرطلبہ کو عصری علوم وفنون سے محروم کرنا نہیں تھا، بلکہ اکابرین امت کا یہ فیصلہ وقت اور حالات کے تقاضے تک محدود تھا۔ اس کے باوجود قربان جائیے مدرسة الاصلاح ،سرائے میر اعظم گڑھ کے بانیوں کی دور اندیشیوں،ان کے عزم پیہم اور استقامت پر جنہوں نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے یہاں ایسا نصاب رائج کیا جو دینی اور عصری علوم کا تیر بہدف معجون مرکب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فضلاء ابتداء سے ہی دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کی دانش گاہوں سے اکتساب فیض میں پیش پیش رہے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں اسی فرود گاہ علم ومعرفت کے ایک حسین چراغ جناب ڈاکٹر حفظ الرحمان اصلاحی کے تعلیمی اسفارکا تذکرہ کیا جارہا ہے، اس تحریر کا مقصد نوآموز طلبہ کی ذہن سازی اور دینی علوم کے ساتھ عصری علوم میں ان کی دل چسپی بڑھانا ہے۔
25مارچ 1967کو اعظم گڑھ کی مردم خیز سرزمین موضع طویٰ میں جناب محمد عمر شریف صاحب کے یہاں ایک بچہ تولد ہوتا ہے، یہ بچہ اس گل سرسبد کی کلی کی طرح ہے ،جسے بڑاہوکر خوب کھلنا اور ساری کو اپنی خوشبو سے معطر کرنا ہے۔ اپنی قابلیت و صلاحیت سے مشام جان کرنا ہے۔ اس بچے کانام حفظ الرحمان رکھا جاتا ہے۔ جب یہ نوخیز کلی کھلنے اور چٹکنے کی عمر کو پہنچتی ہے تو اسے وابستگان الامام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے ہاتھوں آباد کردہ علمی سرچشمہ مدرسۃ الاصلاح میں 1977میں بطور طالب علم بٹھادیا جاتا ہے۔ جہاں سے مکمل دس برس تک اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد اور سرچشمہ علم ودانش سے سیراب ہوکر1987میں فارغ ہوتے ہیں ، مگر آگے بڑھنے اور زمانے کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کی چاہت دل میں موجزن ہے ،لہذا عصری تعلیم کیلئے باضابطہ طور پر 1990میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے آنرز میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر حفظ الرحمان 1989میں ایڈوانس ڈپلوما ان ماڈرن عربک کا کورس بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی سے ہی مکمل کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈاکٹر حفظ الرحمان کی علمی سرگرمی لگاتار شباب پر رہتی ہے ،جہاں سے نیشنل ایلی جبیلٹی فار لکچرر شپ اینڈ ریسرچ فیلو شپ ،یونیورسٹی گرانٹ کمیشن 1991میں کامیاب ہوتے ہیں اور 1992میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہی موصوف ایم اے کی تعلیم بھی مکمل کرتے ہیں۔ مزید حصول علم کا ان کا ذوق یہیں نہیں رکتا، بلکہ مسلسل محو پرواز رہتا ہے اور اس طرح ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان ماس کمیونی کیشن اینڈ منجمیٹ (بھارتی ودیا بھون) نئی دہلی سے کرتے ہیں۔ با لآخرڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی 2011میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہی عربی ادب میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔
ان تمام سخت ترین علمی مراحل کو سرکرنے کے بعد ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی ملازمت کی جانب راغب ہوتے ہیں اورملازمت کا آغاز بھی نہایت اعلیٰ عہدہ سے ہوتا ہے،جس کی آرزو ہر باصلاحیت اور محنتی طالب علم ہمیشہ کرتا ہے۔ یعنی ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی انڈین فارن سروس ، وزارت خارجہ ، حکومت ہند میں 2001میں بطور افسر شامل ہوتے ہیں۔ جہاں آپ ابتدائے ملازمت 2001سے2002 تک دہلی میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ بعد ازاں ان کی ڈپلومیٹک قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی خدمات بطور قونصل برائے پریس انفارمیشن و حج ،قونصل خانہ ہند، جدہ سعودی عرب میں 2002سے2005تک لی جاتی ہیں۔ بعد ازاں2005تا 2007آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی، وزارت خارجہ، حکومت ہند ، نئی دہلی میں اپنی سفارتی قابلیت کا لوہا منواتے ہیں۔ان کی پبلک ریلیشن ایبلیٹی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک بارپھر2007میں سکینڈ سکریٹری پریس، انفارمیشن و کلچر سفارت خانہ ہند ،جدہ سعودی عرب میں ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی کو تعینات کردیا گیا۔ڈاکٹر صاحب 2011تا2014ہیڈ آف چانسری ،سفارت خانہ ہند، تونس اور 2014سے2019تک فرسٹ سکریٹری برائے سیاسی، صحافتی و ثقافتی امور، ڈائریکٹر آف انڈین اسکولز ،سفارت خانہ ہند ،ریاض سعودی عرب میں خدمات دیں۔فی الحال ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی 2019سے سفیر برائے عرب جمہوریہ سیریا میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
صحافتی، ثقافتی اور سفارتی مہارت تامہ کے ساتھ ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی کو تصنیف و تالیف سے بھی گہر اربط رہا ہے۔چنانچہ ان کی انگریزی اور عربی میں لگ بھگ نصف درجن کتابیں منظر آئیں اور باذوق قارئین و دانشوروں سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔چناں چہ ان کی اہم ترین انگریزی تصنیف ” مسلم ایشوز ان انگلش ڈیلیز1993میں منظر عام پر آئی اوربے زبانوں کو کس طرح نظر انداز کردیا جاتا ہے اس کتاب نے اس موضوع پر بھرپور رہنمائی کی۔اسی طرح اردو زبان میں آپ کی تالیف ” شمع سخن“ داد تحسین حاصل کرچکی ہے۔موصوف نے عربی زبان میں النزعة الاجتماعیة فی الروایة السعودیة 2011اور ”دورالہند فی نشر التراث العربی بھی2011میں شائع ہوئی اور قبول عام حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی ۔ مختصر یہ کہ دینی مدارس کے چشمہ ¿ صافی سے سیراب ہونے والے اگر ٹھان لیں تو چاندپربھی کمندیں ڈال سکتے ہیں۔ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی صاحب کی زندگی سے سب سے اہم سبق یہی ملتا ہے۔ مدارس دینیہ کے فارغین وہ شاہین بن سکتے ہیں جو ہزاروں میل کے فاصلے سے اپنے شکار کو دیکھ لیتا ہے۔ڈاکٹر حفظ الرحمن اصلاحی صاحب دیارغیر میں بھی اپنے خدمت خلق کے جذبے سے بے نیاز نہیں رہے ہیں، بلکہ وہ درجنوں ملی ادبی ورفاہی اداروں سربراہی اور سرپرستی آج بھی کررہے ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں