محمد یاسین جہازی
’مہند‘ لفظ تہنید سے مشتق ہے۔عربی اور فارسی میں اس کے لفظی معنی:ہندستانی لوہے کی بنی ہوئی تلوار کے ہیں۔ ہندستان میں جب فارسی میں ہندستانی لفظوں کو بہ کثرت استعمال کیا جانے لگا، اور عربی وفارسی الفاظ مختلف تصرفات سے دوچار ہونے لگے، تو یہاں یہ لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال ہونے لگا۔ ترکیب مہند کا مطلب یہ ہے کہ مرکب الفاظ کا ایک جز عربی یا فارسی ہو اور دوسرا جز کسی اور زبان سے تعلق رکھتا ہو۔ مہند کو ’اردو انا‘ بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ اصطلاح مستعمل نہیں ہے۔
اردو مہند کی وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ ’نور اللغات‘ رقمطراز ہیں:
’تہنید کسی غیر زبان کے لفظ کو ہندی بنا لینا، جیسے: فارسی ’دہل‘ سے ’ڈھول‘، انگریزی’لارڈ‘سے ’لاٹ‘۔ تہنید کئی طرح کی ہوتی ہے: ایک یہ کہ دوسری زبان کے لفظ کولفظاً ومعناً دونوں طرح بدلیں،جیسے:’افراتفری‘ کہ اصل میں ’افراط تفریط‘ تھا اور اردو میں بہ معنی ’ہل چل‘ہے۔ دوسرے: صرف لفظ کو بد ل دینا، جیسے: ’پلید‘سے’پلیت‘۔ تیسرے: صرف معنوں کو بدلیں، جیسے:’روزگار‘ فارسی میں ’زمانہ‘ اردو میں ’نوکری‘۔ چوتھے: حرکات کو بھی بدل دیں اور معنوں کو بھی،جیسے: ’مشّاطہ‘ عربی مبالغے کا صیغہ، اردومیں ’مشاطہ‘ بغیر تشدید دوم، وہ عورت جو زن و مرد کی نسبت ٹھہرائے اور شادی کرائے۔ پانچویں: جمع کے واحد کے معنی لیں، جیسے: ’اصول‘،’احوال‘۔ چھٹے: دوسری زبان کے مادہ ہائے الفاظ سے ایسے صیغے بناناجو اس زبان میں مستعمل نہ ہوں، جیسے: ’عفو‘ اور ’عتاب‘سے’معاف‘ اور ’معتوب‘۔ جولفظ ہندی صورت اختیار کرے، اس کو ’مُہَنَّد‘کہتے ہیں۔ گویااردو میں ’مُہنّد‘کاوہی مطلب ہے جو عربی میں ’مُعَرَّب‘(وہ لفظ جو در اصل کسی اور زبان کا ہو اور اس کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عربی بنالیا ہو، جیسے: ’مُشک‘ سے ’مِسک‘۔
چوں کہ اردو کی خمیر میں مختلف زبانوں کے الفاظ اور تراکیب شامل ہیں، جن میں زیادہ تر عربی اور فارسی کے الفاظ وتراکیب ہیں، لیکن عربی وفارسی وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ باقاعدہ فارسی ترکیب دینا قابل اعتراض اور عموماً غیر معتبر سمجھا گیا ہے، اس لیے اس حوالے سے چند قواعد یہاں لکھے جارہے ہیں،تاکہ ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کہاں پر ترکیب در ست اور معتبر ہوگی اور کہاں پرنہیں ہوگی۔ لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ ان قواعد میں ایسی قطعیت نہیں ہے کہ ان سے سرموانحراف درست نہیں۔ تاہم اکثر مواقع پر ان کی رعایت بھی ناگزیر ہے۔
ترکیب مہند کی تین صورتیں ہیں:(۱)عطفی مرکبات(۲)اضافی مرکبات۔اس میں توصیفی مرکبات بھی شامل ہیں (۳)غیر عطفی وغیر اضافی مرکبات۔
عطفی واضافی مرکبات کے چند قاعدے
(۱) ایسے الفاظ، جو فارسی اور عربی کے انداز پر بنے ہوں اور شکل وصورت میں عین عربی وفارسی کے معلوم ہوتے ہوں؛ مگر وہ یہیں کی پیدا وار ہوں، جیسے: شکریہ،رہائش،یگانگت،مرغن،جنات وغیرہ؛ ایسے تمام لفظوں کو عطفی واضافی ترکیبوں کے ساتھ بلا تکلف استعمال کرنا درست ہے،جیسے:شکریہ ئ احباب، محبت ویگانگت،سکونت ورہائش،غذائے مرغن،یومِ پیدائش،جائے پیدئش۔
(۲)فارسی وعربی کے وہ الفاظ،جن میں مختلف قسم کے تصرفات ہوئے ہوں:یا تو نئے معنی کا اضافہ ہو گیا ہو،جیسے:’مشکورعربی میں اس کو کہتے ہیں،جس کا شکریہ ادا کیا جاے؛ مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں،جو کسی کا شکریہ ادا کرے‘۔ اورجیسے:شادی،راشی،شادی،تکراروغیرہ۔اوریاصورت میں ذراسی ترمیم ہو گئی ہو، جیسے: جواہرات کہ اس کی اصلی شکل’جواہر‘ہے،اور جیسے:غلطی،دائمی وغیرہ۔ایسے تمام الفاظ میں عطفی و اضافی دونوں ترکیبیں درست ہیں۔نیز ایسے الفاظ، مرکب کا ایک جز بھی ہو سکتے ہیں اور دونوں جز بھی، جیسے: غلطی ہائے مضامین، رنجش وتکرار،محربِ آبِ وراں،شبِ شادی،جواہراتِ شاہی۔
(۳)وہ تمام الفاظ،جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، (جس کو الف سے بد لنا درست ہے) چوں کہ ہائے مختفی فارسی کے ساتھ خاص ہے، اردو میں اس کی جگہ ’الف‘ آتاہے، اور اکثر صورتوں میں ہائے مختفی الف کے آواز کو قبول کر لیتی ہے، اس لیے ایسے لفظوں میں عطفی واضافی دونوں ترکیبیں درست ہوں گی، جیسے:شمع وپروانہ، دیوانہ ومستانہ، نان وحلوہ، لطفِ نظارہ، کیفِ جلوہ، صحرائے زمانہ، خدائے واحد، جلوہئ جاناں۔،کوچہئ عاشقاں۔
(۴)ہندی وغیرہ کے ایسے اسما واعلام،جن کا بدل موجود نہ ہو، ان کو عطفی واضافی ترکیبو ں میں استعمال کرنا درست ہے؛ لیکن ایسے اعلام کا مرکب کے ایک جز کے طور پر آنا چاہیے، جیسے:صبحِ بنارس،سمتِ کاشی، آغوشِ لیلا، جانبِ متھرا،شام اودھ، رام وراون، دلی وپٹنہ،سیتاوبسنتی۔
(۵)ہندی وانگریزی کے ایسے تمام الفاظ، جو عام طور پر اردو میں مستعمل ہیں اور ان کا اردو میں بدل نہیں ہیں، جیسے: اسٹیشن، ڈگری، ممبر،چندا،سڑک،سول سروس وغیرہ۔یا وہ الفاظ جو مہینوں اور موسموں کے نام ہیں، جیسے: کاتک، جنوری،خزاں،برسات،بہار۔ یا وہ اسمائے جنس ہیں، جیسے: نیل گائے،گدھا۔ ایسے تمام الفاظ میں اضافی وعطفی ترکیبیں درست ہیں،جیسے:موسمِ برسات،خدماتِ سول سروس،سوئے نیل گائے،امام باڑہ،ماہ جنوری،چندہ ودھندھا،ممبران پارلیامنٹ، ترقیِ کمیٹی،ڈگری وسند، جانب سڑک، لبِ سڑک۔
نوٹ: اگر دونوں جز انگریزی کے ہوں یا ہندی کے ہوں، تو ترکیب وہیں پر درست ہوگی جہاں مذاق سلیم ناگواری محسوس نہ کرے، جیسے: ممبرانِ پارلیامنٹ۔اور جہاں مذاق سلیم ناگواری محسوس کرے،وہاں ترکیب درست نہ ہوگی، لہذا انجنِ ریل،بوگیِ ٹرین، گوشتِ بھینس وغیرہ نہیں کہا جائے گا۔
(۶)ایسے الفاظ، جو شکل وصورت سے فارسی الاصل معلوم ہوتے ہوں یا عربی الاصل لگتے ہوں (خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں) اگروہ اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور مذاق سلیم ان کو ناگوار نہ سمجھے، تو ایسے لفظوں میں بھی عطفی واضافی ترکیبیں درست ہوں گی، جیسے: صرفِ چلمن۔ع
کررکھا ہے کلسِ گنبدِ دستار اسے (سوادؔ)
ان میں ’چلمن‘ اور ’کلس‘ فارسی الاصل معلوم ہوتے ہیں اور جیسے: ’کف رومان‘ میں ’رومان‘ عربی نژاد معلوم ہوتاہے۔چوں کہ ان ترکیبوں میں بالکل بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہورہاہے، اس لیے ان میں دونوں ترکیبیں درست ہیں۔ اور جیسے: زمزمہئ واہ واہ، موجِ لہو، دستاربسنتی وغیرہ۔
(۷)ایسے الفاظ اور جملے، جن کے درمیان حرف عطف ہو، اور وہ عطف ناگوار محسوس نہ ہو، تو ایسی عطفی ترکیب درست ہوگی، جیسے: ؎
گل گراں گوش و چمن صورت حیراں ہے
کس گلستاں میں ہمیں حکم غزل خوانی ہے
یہ جو رو جورش تھے کہاں آگے عشق میں
تجھ سے جفا ومیر سے رسم وفا چلی
اس میں گوش و چمن اور جفا و میر میں کوئی ناگواری محسوس نہیں ہو رہی ہے۔اور اگر ناگوار صورت پیدا ہوجائے، تو یہ ترکیب ناقابل قبول ہوگی، جیسے: ؎
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے
برسے ہے عشق اپنے دیوار سے ودرسے
دیوا رسے و در سے میں نہایت ناگوار صورت پیدا ہوگئی ہے، اس لیے یہ قابل قبول نہیں۔
(۸)ایسے الفاظ، جن کے دونوں اجزا میں سے ایک جز فارسی اور عربی کے علاوہ ہو، اور دوسرا جز ہندی یا انگریزی کا ہو، تو ان میں عطفی ترکیب درست ہوگی، جیسے:چرخی وبان۔ ؎
لگیں ا س کو نہ جب تک راج ومزدور
کوئی رہ گیا موش ومینڈک کا زور
(۹)ایسے الفاظ، جن کے دونوں جز ہندی ہوں یا ایک ہندی اور دوسرا غیر ہندی (عربی وفارسی وغیرہ) ہو؛ تو ان میں کسرہئ اضافت درست نہیں، جیسے: دیوارِ گھر،سرکارِ ساقی،چاہتِ صدیق۔
(۰۱)موصو ف کے آخر میں کسرہئ اضافت اردو میں درست نہیں، جیسے: پھولِ خوب،قلمِ اچھا، اونٹِ بے نکیل،بھینس موٹا وغیرہ۔
نوٹ: غیر عربی وفارسی الفاظ کے ٹکڑے اکثر واوِ عطف کے بغیر آتے ہیں، انھیں واو عطف کے ساتھ لانا فصاحت کے خلاف ہے، جیسے:دانہ پانی، پھول پھل، ہاتھ پیر، دن رات۔ان الفاظ کو پھول وپھل، ہاتھ و پیر اور دن و رات لکھنابولنا درست نہیں ہے۔
غیر عطفی اور غیر اضافی مرکبات کے چند قاعدے
ہر طرح کے غیر اضافی اور غیر عطفی مرکبات کا استعمال درست ہے، ان کی چند صورتیں ہیں:
(۱)وہ مرکب الفاظ،جن کے دونوں جز اسم ہوں، جیسے: گل بدن،پن چکی، قلم کار،ناول نگار۔
(۲)وہ مرکبات، جن کا ایک جز فعل ہو اور اردو یا ہندی سے تعلق رکھتا ہو، اور دوسرا جز اسم ہو، جو عربی یا فارسی کا ہو، جیسے: دم کٹا، دل جلا، دل شکن، کفر توڑ،دل لگی،دل جلا، فوق البھڑک۔
(۳) وہ مرکبات، جو اسم وفعل پر مشتمل ہوں، اور دونوں جز عربی وفارسی کے علاوہ ہوں، جیسے: من چلا، منہ بولا، آنکھ پھوڑ، لٹھ مار، تیس مار، دانت کاٹی،رس بھری۔
(۴)وہ مرکبات، جن کے دونوں جزعربی یا فارسی کے ہوں، مگر وہ اردو کے انداز پر ہوں، جیسے: عمر قید،لٹھ باز،تھانے دار۔ یاان کے دوسرے جزمیں یا ئے نسبتی اور یائے مصدری کا اضافہ ہو، جیسے: لٹھ باز ی، گھڑی سازی،تھانے داری۔
(۵)وہ مرکبات،جو فارسی کے سابقوں اور لاحقوں سے بنے ہوں،جیسے:بے ڈھپ،گاڑی بان، کاری گر،صنعت کار،دل کش۔
(۶)وہ مرکبات، جن میں فارسی افعال ایک جز کے طور پر آئیں، جیسے: کھدر پوش، پھول دار، ڈگری یافتہ، سنسنی خیز، رجسٹری شدہ، تھوک فروش۔
(۷)وہ مرکبات،جن میں فارسی افعال کسی تصرف کے ساتھ آئے ہوں، جیسے: اٹھائی گیرا، صبح خیزیا۔
(۸)وہ مرکبات، جن کا ایک جز فارسی یا عربی ہو اور دوسرا مقامی، جیسے: ڈاک خانہ، دھوکے باز، عجائب گھر، چڑیا گھر،ٹکڑگدا،لنگر خانہ، جیل خانہ، کٹھ ملا۔
غیر عطفی اورغیراضافی مرکبات کی یہ تمام صورتیں اردو میں مستعمل ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں