مولانا مرغوب الرحمان صاحب کا انتقال ملتِ اسلامیہ کا عظیم خسارہ

0
2378
All kind of website designing
یکم محرم الحرام یوم وفات کی مناسبت سے  ایک خصوصی پیش کش
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے، جس سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اس سے نجات و فرار کا کوئی راستہ ہے ۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے ، وہ سب جانے ہی کے لیے آیا ہے ۔ یہاں بقا و دوام کسی کو حاصل نہیں ۔ خود اس کائنات ہی کو ثبات و استقلال نہیں ہے ، تو اس میں بسنے والی مختلف و متنوع مخلوقات کو بقاودوام و کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ ؂

سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کے مرنے کی صبح وشام تمنائیں کی جاتی ہیں ، جب کہ کچھ حضرات وہ ہوتے ہیں ، جب وہ داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور ایک مرتبہ مر کر پھر کبھی موت نہ آنے والی زندگی کی شروعات کرتے ہیں ، تو نہ صرف ان کے متعلقین ؛ بلکہ ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے ، ان کی کمی کی کسک درد کا سراپا بن کر سینکڑوں آنکھوں کو نم ناک کر جاتی ہے ۔قافلۂ ملت کے بے باک سالار ، ہندی مسلمانوں کے دین و ایمان کا امین و محافظ ادارہ ، ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب کے سانحۂ ارتحال کی خبر دامنِ قاسمی سے وابستہ حضرات اور نظریاتی اختلافات سے قطعِ نظر فیضانِ دارالعلوم کے احسان شناس افراد کے دلوں پر ایک بجلی بن کر گری اور پوری ملت اسلامیہ سوگوار ہوگئی ۔ ؂

رکی رکی سی نظر آرہی ہے نبض حیات
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے

مولانا مرحومؒ ، شمالی ہند کے ایک مردم خیز شہر بجنور کے ایک بڑے زمین دار اور علم دوست، فاضلِ دارالعلوم دیوبند ،شیخ الہند ؒ کے تلمیذِ خاص حضرت مولانا مشیت اللہ صاحب کے یہاں ۱۳۳۲ھ مطابق 1914ء میں پیدا ہوئے ۔شرح جامی تک کی ابتدائی تعلیم اپنے شہر بجنور کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا ، جہاں آپ نے ۱۳۴۷ھ مطابق 1929ء میں داخلہ لیااور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب ؒ ، حضرت العلامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب ؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اور دیگر اکابر اساتذۂ دارالعلوم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے ۱۳۵۲ھ مطابق 1933ء میں سندِ فراغت حاصل کی ۔ فراغت کے بعد کچھ ایسے بیمار پڑ گئے کہ دو تین سال کا عرصہ آپ کو اپنے گھر پرہی گذارنا پڑ گیا ۔ لیکن علم کی طلب اور جستجو کے شوق نے چین سے بیٹھے نہیں دیا اور دوبارہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے آپ نے دیوبند کا رخ کیا اور تکمیلِ افتا میں داخلہ لیا ۔ مفتی سہول صاحب بھاگل پوریؒ اور دیگر اصحابِ فتاویٰ کی نگرانی میں افتا کی تکمیل کی ۔
دارالعلوم دیوبند سے آں جناب کا پشتینی تعلق تھا۔ خود مولانا مرحوم ؒ کے والد ماجد مرحوم ؒ یہاں کے فارغ التحصیل تھے ۔ فراغت کے بعد اپنی زمین داری کی نگرانی کے ساتھ ساتھ مادرِ علمی کے انتظامی امور میں بھی معاونت فرمایا کرتے تھے ۔ اپنے والد محترم کی طرح مولانا مرحوم ؒ بھی دارالعلوم کے لیے ہر طرح کے تعاون میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے ۔مولانا مرحومؒ کا دارالعلوم سے اسی لگاؤ اور جذبۂ و خلوص کو دیکھ کر ارباب حل و عقد نے 1962ء میں مجلسِ شوریٰ کا رکن منتخب کیا ۔ آپ جرأت وہمت اور رائے کی پختگی کے لیے مشہور تھے ۔ انھوں نے کبھی دارالعلوم کے مفاد سے سودا نہیں کیا ۔ وہ جب بھی فیصلہ لیتے ، انتہائی غور و خوض کے بعد لیتے ۔ دارالعلوم کی محبت آپ کی رگوں میں خون کی طرح رچی بسی ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ شوری کی کسی بھی مٹینگ کو مِس نہیں کرتے تھے ۔ سو سالہ اجلاس کے بعد جب دارالعلوم کے حالات خراب ہوئے اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے ایک معاون مہتمم کی درخواست کی ، تو تما م لوگوں کی نظرِ انتخاب آپ مرحوم ؒ پر پڑی اور آپ کو معاون مہتمم بنایا گیا ۔ پھر اختلاف کا قضیہ نامرضیہ پیش آنے کے بعد ایک انتہائی نازک موقع پر جب کیمپ دارالعلوم قائم ہوا تو اس دوران مجلسِ شوریٰ نے متفقہ طور پر آپ کو مہتمم بنایا ۔ چنانچہ آپ نے اپنی انتظامی صلاحیت ، دور بینی اور فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے 1962ء کے بعد منصبِ اہتمام کے لیے اختلاف کے تناظر میں پیدہ شدہ سخت ترین حالات سے دوچار ہونے سے نہ صرف دارالعلوم کو بچایا ؛ بلکہ اسے سنبھالا دیتے ہوئے تعلیمی و تعمیری ہر طرح کی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ۔ آپ کے دورِ اہتمام میں جہاں ایک طرف تعلمی میدان میں عصرِ حاضر کے نئے چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ردودِ مذاہبِ باطلہ ، تحفظِ شریعت و ختم نبوت ، کمپیوٹر اور صحافت جیسے شعبوں کا قیام عمل میں آیا ، وہیں دوسری طرف تعمیری میدان میں بھی امورِ حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے جدید سہولیات سے لیس ہاسٹل تعمیر کرائے گئے ۔پورے ایشیا میں سب سے منفرد اور دل کش مسجد ’’ مسجدِ رشید‘‘ بھی آپ ہی کے دورِ اہتمام کی یاد گار ہے ۔مولانا مرحومؒ 29 سال تک منصبِ اہتمام پر فائز رہے ۔ اس طویل عرصے میں آپ نے ان جملہ خدمات کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا ؛ بلکہ خود اپنے جیبِ خاص سے مختلف طرح کی ضروریات و اخراجات کے لیے خطیر رقم عنایت فرماتے رہے ۔
آپ ؒ کی دینی و ملی خدمات صرف دارالعلوم تک محدود نہیں تھی ؛ بلکہ ملک وملت کے مسائل سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے ۔ آں جناب مرحوم ؒ ہی نے سب سے پہلے جارج ڈبلیو بش کے ظالمانہ پالیسیاں اختیار کرنے کے باعث پوری دنیا میں بد امنی اور ظلم و دہشت پھیل جانے کی وجہ سے امریکہ کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا ۔ ۲۰۰۶ء میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنیؒ کے انتقال کے بعد آپ کو ’’امیر الہند‘‘ کے منصبِ جلیل پر فائز کیا گیا ، تاہم انھوں نے نہ تو کبھی دارالعلوم کو سیاست سے جوڑا اور نہ ہی اس کے نام سے کسی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔
امیرالہند حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحبؒ کا سانحۂ ارتحال ملتِ اسلامیہ کا ایک عظیم خسارہ ہے ۔ 8؍دسمبر 2010ء مطابق یکم محرم الحرام بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے آپ نے اپنے شہر بجنور میں اپنی آخری سانس لی ۔ یہ خبر فورا جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔جگہ جگہ مدرسوں اور مسجدوں میں اعلان ہونے لگا ۔ دعائے مغفرت کی اپیلیں کی جانے لگیں اور ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جانے لگا۔ آنا فانا علماو عوام کا ایک ہجوم بجنور اور دیوبند کی طرف روانہ ہوگیا ۔ پہلے بجنور میں چار بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی ۔پھر جنازہ دیوبند لایا گیا ، جہاں پر اساتذہ و طلبہ اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے حضرت کی جسدِ خاکی کی زیارت کی ۔ رات گیارہ بجے دوسری نمازِ جنازہ پرھی گئی اور قبرستان قاسمی میں تدفین عمل میں آئی ۔ جنازے کی نماز آپ کے والا تبار صاحب زادہ حضرت مولانا انوارلرحمان صاحب نے پڑھائی ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے ۔ ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین ، ثم آمین ۔
القصہ مختصر مولانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ وہ اپنے نیک کاموں کا صلہ پانے کے لیے معبود حقیقی سے کے پاس جا چکے ہیں ۔ اب ہم ان کے لیے دعائے مغفرت ، ایصالِ ثواب اور ان کی یاد میں حسرت و افسوس کے چند قطرے آنسو بہانے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے اپنے تجربے کے بعد مفید پاکر جو علمی وعملی نقوش چھوڑے ہیں ، وہ نہ صرف آنے والی نسلوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کے لیے نمونہ اور مشعلِ راہ ثابت ہوں گے اور قدم قدم پر رہ نمائی کا ذریعہ بنیں گے ؛ بلکہ دائمی نیک نامی اور اہل دل کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و پایندہ رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here