ارکان طواف
طواف کے تین رکن ہیں :
(۱) طواف خانہ کعبہ سے باہر اور مسجد حرام کے اندر ہونا۔
(۲) چار یا چار سے زیادہ شوط کا پورا کرنا۔
(۳) اپنے سے طواف کرنا خواہ چل کر یا سواری پر؛ البتہ بیہوش کی طرف سے دوسرا شخص بھی طواف کرسکتا ہے۔
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قَدِمَ مکۃَ ھو یشتکی فطافَ علیٰ راحلتہِ کلما اتیٰ علیٰ الرکن استلمَ الرکن بمحجنٍ فلما فرغَ من طوافِہِ اناخَ فصلّٰی رکعتین۔ (رواہ ابو داود)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو آپﷺ بیمار تھے۔ آپ ﷺ نے سواری پر طواف کیا اور جب جب حجر اسود کے پاس آتے تو حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے (اور چھڑی کو چومتے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے) پھر جب طواف سے فارغ ہوئے تو اونٹ کو بیٹھایا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) سوار ہوکر طواف کرنا۔
(۲) جب ہاتھ سے حجر اسود کو نہ چھو اور چوم سکے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چومے۔
(۳) ضرورت کے وقت میں جانور مطاف میں لے جانا درست ہے۔
شرائط طواف
تین شرطیں تمام طواف کے لیے ہیں، خواہ حج کا طواف ہو یا نہ ہو۔
(۱) طواف کرنے والے کے اندر اسلام کا ہونا۔
(۲) طواف کی نیت کرنا۔
(۳) مسجد حرام کے اندر مطاف میں طواف کرنا اور حج کے طواف کے لیے تین شرطیں زائد ہیں:
(۱) خاص وقت کا ہونا یعنی حج کا موسم ہونا۔
(۲) طواف سے پہلے احرام کا ہونا۔
(۳) وقوف عرفہ کا ہونا۔
یہ شرطیں طواف زیارت کی ہیں جو حج کا دوسرا رکن ہے۔
مسئلہ: بغیر نیت اگر کسی نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے تو وہ طواف نہیں ہوا، اس لیے کہ نیت شرط ہے۔
مسئلہ: بیت اللہ کی خبر نہ تھی کہ یہی بیت اللہ ہے اور بے خبری میں سات چکر لگادیے تو طواف نہ ہوا۔
مسئلہ: خواہ کسی قسم کا طواف ہو اس میں صرف طواف کی نیت کرلینا کافی ہے ، تعیین طواف کی حاجت نہیں؛ البتہ تعیین کرلینا مستحب ہے ۔ طواف قدوم، یا طواف زیارت، یا طواف وداع یا عمرہ کا طواف کرتا ہوں ، اس طرح نیت متعین کرلینا مسنون ہے۔ اگر تعیین نہ کیا ، جب بھی طواف ہوجائے گا، مثلا دسویں کو صبح صادق کے بعد مطلق طواف کی نیت سے طواف کیا ، تو وہ طواف زیارت ہوجائے گی۔
واجبات طواف
طواف کے اندر چھ چیزیں واجب ہیں:
(۱) وضو و غسل دونوں کا ہونا، یعنی پوری طہارت طواف کے لیے واجب ہے۔
عن ابن عباسؓ ان النبی ﷺ قال: الطوافُ حولَ البیتِ مثلُ الصلوٰۃِ الا انکم تتکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلایتکلمن الا بخیر۔ (رواہ الترمذی والنسائی والدارمی، و ذکر الترمذی جماعۃ وقفوہ علیٰ ابن عباس)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیت اللہ کے گرد گھومنا نماز کی طرح ہے؛ مگر یہ کہ تم اس میں کلام کرتے ہو تو جو شخص طواف میں کلام کرے تو بہتر ہی کلام کرے۔
یعنی نماز میں سلام کلام جائز نہیں، مگر طواف میں جائز ہے ؛ لیکن بلا ضرورت کلام نہ کرے اور کرے تو بہتر کلام کرے اور دوسری باتوں میں نماز کی طرح ہے ۔ اور نماز میں دونوں حدیثوں سے طہارت فرض ہے اس لیے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہے اور طواف میں واجب ہے اس لیے کہ دلیل ظنی سے ثابت ہے ، اس لیے کہ اس کو ترمذی نے کہا کہ ایک جماعت نے اس حدیث کو ابن عباسؓ پر موقوف کیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا قول نہیں؛ بلکہ ابن عباسؓ کا قول ہے۔
(۲) ستر عورت کا ہونا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں جو حج ۹ ء میں ادا ہوا تھا، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اعلان کردیا تھا کہ:
لایطوفن بالبیت عریانٌ (متفق علیہ)
ہر گز بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر نہ کریں۔
(۳) جو شخص پیدل چل سکتا ہے ، اس کو پیادہ طواف کرنا۔
(۴) داہنی طرف سے شروع کرنا، جیسا کہ حدیث میں گذرا کہ
ثم مشیٰ علیٰ یمینہ
آپ ﷺ نے دائیں جانب سے طواف شروع کیا۔
(۵) حطیم کو شامل کرکے طواف کرنا، اس لیے کہ وہ بھی خانہ کعبہ کا ایک ٹکڑا ہے۔
(۶) پورا طواف کرنا، یعنی ساتوں چکر کا پورا کرنا۔ چار شوط رکن ہے اور باقی واجب۔
واجبات کا حکم
کسی واجب کے چھوٹنے یا چھوڑ دینے سے طواف کا دوبارہ کرنا واجب ہوگا۔ اگر دوبارہ طواف نہیں کیا تو اس پر جزا واجب ہوگی، جس کا بیان جنایات میں آئے گا۔
نوٹ
طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، جیسا کہ حضور ﷺ نے پڑھا۔ مگر طواف میں داخل نہیں اور بعض نے اس کو طواف میں داخل کرکے سات واجب بتاتے ہیں۔ اور بعض نے حجر اسود سے طواف کا ابتدا کرنا بھی واجب کہا ہے۔ ان کے نزدیک آٹھ واجب ہیں، مگر ظاہر روایت یہی ہے کہ حجر اسود سے ابتدا سنت ہے ، یہی اکثر مشائخ کا قول ہے۔
طواف کی سنتیں
(۱) حجر اسود کا استلام یعنی چھونا اور بوسہ لینا۔
(۲) چادر کو دائیں بغل میں سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈالنا۔
(۳) تین پھیرے میں اکڑ کر چلنا۔
(۴) باقی میں اپنی رفتار سے چلنا۔
(۵) طواف کے بعد اور سعی سے پہلے دوبارہ حجر اسود کا استلام کرنا، جب کہ طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔
(۶) حجر اسود کے مقابل میں کھڑے ہوکر تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا۔
(۷) حجر اسود سے طواف شروع کرنا۔
(۸) طواف کے شروع میں حجر اسود کی طرف منھ کرنا۔
(۹) لگاتارتمام چکر پورے کرنا۔
(۱۰) کپڑے اور بدن کو نجاست حقیقیہ سے پاک رکھنا سنت ہے۔
طواف کے مستحبات
(۱) طواف حجر اسود کی داہنی طرف سے اس طرح شروع کرنا کہ طواف کرنے والے کا پورا بدن حجر اسود کے سامنے گذرتے ہوئے محاذی ہوکر گذرے۔ حجر اسود کی داہنی طرف سے مراد اس کی شرقی جانب ہے، جو بیت اللہ کے دروازے کے طرف ہے۔ اس کی غربی جانب مراد نہیں ہے۔
(۲) حجر اسود پر تین مرتبہ بوسہ دینا اور تین مرتبہ اس پر سر رکھنا۔
(۳) طواف کرتے ہوئے ماثور دعاؤں کا پڑھنا۔
(۴) مرد کو بیت اللہ سے قریب ہوکر طواف کرنا، بشرطیکہ ہجوم اور کسی کو تکلیف نہ ہو۔
(۵) عورت کو رات میں طواف کرنا۔
(۶) طواف میں بیت اللہ کے پشتہ کو شامل کرلینا۔
(۷) اگر طواف بیچ میں چھوڑ دیا ہو یا مکروہ طریقہ پر کیا ہو تو اس کو پھر سے کرنا۔
(۸) مباح گفتگو کا ترک کرنا۔
(۹) جو چیز خشوع میں حارج ہو اس کو چھوڑ دینا۔
(۱۰) دعا اور اذکار کو طواف میں آہستہ پڑھنا۔
(۱۱) رکن یمانی (مغربی جنوبی گوشہ) کا استلام کرنا، یعنی چھونا۔
(۱۲) جو چیز دل کو مشغول کرنے والی ہو، اس سے نظر بچانا۔
مباحات طواف
طواف میں یہ چیزیں مباح ہیں:
(۱) سلام کرنا۔
(۲) چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا۔
(۳) مسائل شرعیہ کا بتانا اور دریافت کرنا۔
(۴) کسی ضرورت سے کلام کرنا۔
(۵) کچھ پینا۔
(۶) دعاوں کا ترک کرنا۔
(۷) اچھا شعر پڑھنا۔
(۸) پاک جوتے وغیرہ پہن کر طواف کرنا۔
(۹) کسی عذر کی وجہ سے سوار ہوکر طواف کرنا۔
(۱۰) دل دل میں قرآن پڑھنا۔
محرمات طواف
یہ سب چیزیں طواف کرنے والوں کے لیے حرام ہیں:
(۱) جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں طواف کرنا۔
(۲) بلا عذر کسی پر چڑھ کر یا سوار ہوکر طواف کرنا۔
(۳) بے وضو طواف کرنا۔
(۴) بلا عذر گھٹنوں کے بل یا الٹا ہوکر طواف کرنا۔
(۵) طواف کرتے ہوئے حطیم کے بیچ میں کو نکلنا۔
(۶) طواف کا کوئی چکر یا اس سے کم چھوڑ دینا۔
(۷) حجر اسود کے علاوہ کسی اور جگہ سے طواف شروع کرنا۔
(۸) طواف میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا؛ البتہ شروع طواف میں حجر اسود کے استقبال کے وقت جائز ہے ۔
(۹) جو چیزیں طواف میں واجب ہیں، ان میں سے کسی کو ترک کرنا۔
مکروہات طواف
یہ چیزیں طواف میں مکروہ ہیں:
(۱) فضول بیہودہ باتیں کرنا۔
(۲) خریدو فروخت کرنا یا اس کی بات چیت کرنا۔
(۳) کوئی ایسا شعر پڑھنا جو حمد وثنا سے خالی ہو۔ اور بعض نے مطلق شعر پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔
(۴) دعا یا قرآن بلند آواز سے پڑھنا جس سے طواف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کو تشویش ہو۔
(۵) جس طواف میں رمل اور اضطباع ہو اس کو بلا عذر ترک کرنا۔
(۶) حجر اسود کا استلام چھوڑ دینا۔
(۷) طواف کے پھیروں میں زیادہ فاصلہ کرنا۔
(۸) دو طواف اس طرح اکٹھے کرنا کہ بیچ میں دو رکعت بھی نہ پڑھے؛ لیکن اگر نماز کا مکروہ وقت ہو تو جائز ہے۔
(۹) طواف کی نیت کے بغیر تکبیر کے دونوں ہاتھ اٹھانا۔
(۱۰) خطبہ اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہوجانے کے وقت طواف کرنا۔
(۱۱) طواف کے درمیان کھانا کھانا۔ بعض نے پینے کو بھی مکروہ لکھا ہے۔
(۱۲) پیشاب، پاخانے کے تقاضے کے وقت طواف کرنا۔
(۱۳) بھوک اور غصہ کی حالت میں طواف کرنا۔
(۱۴) طواف کرتے ہوئے نماز کی طرح ہاتھ باندھنا۔
(۱۵) کولھے اور گردن پر ہاتھ رکھنا۔
طواف کے اقسام
طواف کی سات قسمیں ہیں:
(۱) طواف قدوم: یعنی آنے کے وقت کا طواف ۔ اس کو طواف تحیہ ، طواف اللقاء اور طواف الورود بھی کہتے ہیں۔ یہ ان آفاقی کے لیے سنت ہے جو صرف حج یا قران کرے۔ تمتع اور عمرہ کرنے والے کے لیے مسنون نہیں ہے ، اگرچہ آفاقی ہو۔ اسی طرح مکہ والوں کے لیے بھی مسنون نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی مکی میقات سے باہر جاکر افراد کا قران کا احرام باندھے اور حج کرے تو اس کے لیے مسنون ہے ۔ اور اس کا وقت مکہ میں داخل ہونے کا وقت ہے۔
(۲) طواف زیارت: اس کو طواف رکن اور طواف حج اور طواف فرض بھی کہتے ہیں ۔ یہ حج کا رکن ہے ، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا ہے ۔ اور اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور ایام نحر یعنی بارھویں تک کرلینا واجب ہے ۔ اس میں رمل ہوتا ہے اگر اس کے بعد سعی ہو۔ اور احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن لیے ہوں تو اضطباع نہیں ہوتا۔ اور اگر احرام کے کپڑے نہیں اتارے تو پھر اضطباع کرنا چاہیے۔ اگر طواف قدوم کے بعد سعی کرچکا ہے تو دوبارہ سعی نہ کرے اور نہ اس طواف میں رمل اور اضطباع کرے۔
(۳) طواف صدر: یعنی بیت اللہ سے واپسی کا طواف ۔ اس کو طواف وداع بھی کہتے ہیں ۔ یہ آفاقی پر واجب ہے ، مکی پر واجب نہیں۔ اسی طرح جو مکہ کو ہمیشہ کے لیے وطن بنالے اس پر واجب نہیں۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور اس کے بعد سعی بھی نہیں ہے۔ یہ تینوں طواف حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔
(۴) طواف عمرہ: یہ عمرہ کا رکن ہے ۔ اس میں رمل اور اضطباع کرے اور اس کے بعد سعی کرے۔
(۵) طواف نذر: یہ نذر ماننے والے پر واجب ہے۔
(۶) طواف تحیہ: یہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے ، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلے تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔
(۷) طواف نفل: یہ جس وقت جی چاہے کرے۔
طواف کے مسائل
مسائل استلام
مسئلہ: ہجوم کی وجہ سے اگر استلام نہ کرسکے تو ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرے اور اسی کو چوم لے اور طواف شروع کردے۔ (ہدایہ)
عن ابی الطفیل قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یطوفُ بالبیتِ ویستلمُ الرکنَ بمحجنٍ و یُقَبِّلُ (رواہ مسلم)
حضرت ابو الطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے ہیں اور چومتے ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔
مسئلہ: حجر اسود کو ہاتھ لگانا اور چومنا اس وقت مسنون ہے کہ جب کسی کو تکلیف نہ ہو۔ کسی مسلمان کو سنت کی وجہ سے تکلیف دینا حرام ہے، اس لیے دھکے دے کر استلام نہ کرے۔ (ہدایہ)
عن عمر ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قال لہ انک رجل قوی لاتزاحم علی الحجر فتوذی الضعیف، ان وجدت خلوۃ فاستلمہ الا فاستقبلہ و کبر و ھلل۔ (رواہ احمد)
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تو طاقتور آدمی ہے ۔ حجر اسود پر ہجوم نہ کرنا کہ کمزور کو تکلیف پہنچائے ۔ اگر جگہ خالی ہو تواس کا استلام کرے ورنہ صرف اس کا استقبال کر اور تکبیر و تہلیل کر۔
معلوم ہوا کہ تکلیف دے کر استلام کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ ایسے وقت میں صرف دونوں ہاتھ کو حجر اسود پر رکھے اور ہاتھ چوم لے۔ اگر اس میں بھی دوسرے کو تکلیف پہنچے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چھڑی کو چوم لے۔ اگر یہ بھی بلا ایذا کے نہ ہوسکے تو صرف حجر اسود کا استقبال کرے اور تکبیر اور لاالٰہ الا اللہ کہہ لے اور دونوں ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف اس طرح کرے کہ حجر اسود پر رکھی ہے اور پھر ہاتھ چوم لے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: حجر اسود پر اگر خوشبو لگی ہو اور طواف کرنے والا احرام میں ہو تو اس کا استلام جائز نہیں ؛بلکہ ہتھیلیوں سے اشارہ کرکے اس کو بوسہ دے لے۔
مسئلہ: حجر اسود پر چاندی کا حلقہ لگا ہوا ہے ۔ استلام کے وقت اس کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔
مسئلہ: حجر اسود اور بیت اللہ کی چوکھٹ یعنی دہلیز کے علاوہ بیت اللہ کے اور کسی گوشہ یا دیوار کو بوسہ دینا منع ہے ۔ صرف رکن یمانی کو ہاتھ لگائے ، بوسہ نہ دے ۔ اگر ہاتھ نہ لگاسکے تو اشارہ نہ کرے، اس کا صرف چھونا مسنون ہے ۔ اس کی طرف اشارہ وغیرہ مسنون نہیں۔
مسئلہ: استلام کے وقت بیت اللہ کی طرف منھ کرنا درست ہے ؛ لیکن طواف کی حالت میں اس کے علاوہ اور وقت میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا منع ہے ۔
استلام کے وقت دونوں پاؤں اپنی جگہ پر رکھے اور استلام کرکے سیدھا کھڑا ہوجائے اور طواف شروع کردے ۔ پیچھے نہ ہٹے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
مسائل نماز و طواف
مسئلہ: ہر طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور افضل یہ ہے کہ مقام ابراہیم میں پڑھے۔ (ہدایہ) مسلم کی طویل حدیث میں گذر چکا ہے کہ طواف کے بعد رسول اللہ ﷺ مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور آپ ﷺ نے پڑھا:
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰ
پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بعد میں اتنا ہجوم ہوگیا کہ رمل نہیں کرسکتا ہے تو رمل موقوف کردے اور طواف پورا کرے۔
مسئلہ: اگر رمل کرنا بھول گیا اور ایک چکر کے بعد یاد آیا تو صرف دو میں رمل کرے اور اگر اول کے تین چکر کے بعد یاد آئے تو پھر رمل نہ کرے ، کیوں کہ جس طرح اول کے تین چکروں میں رمل مسنون ہے اسی طرح اخیر کے چار میں رمل نہ کرنا مسنون ہے۔
عن ابن عمرؓ قال: کانَ رسولُ اللّٰہ ﷺ اذا طافَ فی الحج او العمرۃ اول ما یقدم سعیٰ ثلاثۃ اطواف و مشیٰ اربعۃ ثم سجد سجدتین ثم یطوف بین الصفا والمروۃ۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب حج یا عمرہ میں طواف کرتے، تو سب سے پہلے تین طواف میں تیزی سے چلتے یعنی رمل کرتے اور چار میں اپنی رفتار سے چلتے۔ پھر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتے۔
مسئلہ: پورے طواف میں رمل کرنا مکروہ ہے، لیکن کرنے سے کوئی جزا واجب نہ ہوگی۔
مسئلہ: کسی مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے رمل نہیں کرسکے تو کچھ حرج نہیں۔
مسئلہ: رمل کرتے ہوئے بیت اللہ کے قریب چلنا افضل ہے ۔ لیکن اگر قریب ہوکر رمل نہ کرسکتا ہو تو پھر فاصلہ سے رمل کے ساتھ طواف کرنا افضل ہے ۔ محض قریب کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو تکلیف دینا گناہ ہے ۔ اسی طرح بلا رمل بھی مرد کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنا افضل ہے ، لیکن اگر قریب ہونے میں دوسروں کو تکلیف ہوتو پھر افضل دور ہی ہے۔
طواف کے پھیروں میں کمی زیادتی کے مسائل
مسئلہ: کسی نے قصدا آٹھ چکر طواف کرلیے تو اس پر واجب ہے کہ چھ چکر اور ملا کر دو طواف پورے کرلے۔
مسئلہ: ساتویں چکر کے بعد وہم یا وسوسہ سے آٹھویں چکر کرلیا، تب بھی اس کو دوسرا طواف پورا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: اگر آٹھویں چکر کیا اور یہ گمان تھا کہ ساتواں ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آٹھواں ہے تو دوسرا طواف پورا کرنا واجب نہیں ۔
مسئلہ: اگر طواف رکن یعنی طواف زیارت میں شک ہوجائے تو اس کو دوبارہ کرلے۔ اور اگر طواف فرض یا واجب کے پھیروں کی تعداد میں شبہ ہوجائے تو جس پھیرے میں شک ہو اسی کو لوٹائے۔
مسئلہ: طواف سنت اور نفل میں شک ہو تو غلبہ ظن پر عمل کرے ۔
مسئلہ: اگر کوئی عادل شخص طواف کرنے والے کے ساتھ ہو اور وہ تعداد پھیروں کی کم بتائے تو اس کے قول پر احتیاطا عمل کرنا مستحب ہے اور اگر دو عادل شخص بتائیں تو ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے۔
تنبیہ: مریض اور بیہوش کے طواف کا حکم بیہوش کے احرام میں گذرچکا ہے ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں