حکیم وسیم احمد اعظمی
شبلی نعمانی(ولادت:4جون1857ء۔وفات:18نومبر1914ء ) کو اُن ہر علوم فنون سے دلچسپی تھی،جن کا اسلامی تہذیب و معاشرت سے ذرا بھی تعلق تھااور طبِ یونانی تو ایسے علوم میں ہے ،جس کی آبیاری مسلمانوں نے اپنے خونِ جگر سے کی ہے۔اسی لیے شبلی نعمانی کے اس فن سرگرمیوں کو بطور خاص اپنی تحریروں کا موضوع بنایا،ان کے مقالات اور تراجم میں طبّی ادبِ عالیہ پر لوازمے ملتے ہیں۔انہوں نے ہند اور بیرونِ ہند کے جس قدر بھی اسفار کیے،ان میں اسلامی علوم اور شخصیات کے ساتھ ہی اس کی تہذیب وثقافت کی تلاش و تحفظ ان کی اولینِ ترجیحات میں رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کی آخری تین اور اُنیسویں صدی عیسوی کی پہلی ڈیڑھ دہائی میں ہندوستان میں جس قدر بھی علمی تحریکیں چلیں ،ان میں شبلی نعمانی کی حیثیت شریکِ غالب کی رہی ہے۔ انہوں نے کچھ مستثنیات کے ساتھ نہ صرف سرسید تحریک کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے،بلکہ ہزار صعوبتوں کے باوجود دار العلوم ندوۃ العلماء کی تحریک کو اپنی اصابتِ فکر سے اعتبار بخشا ہے۔
شبلی نعمانی کو علومِ قدیمہ سے شغف کے ساتھ ہی طبّی ادبِ عالیہ سے بھی ایک خاص مناسبت تھی ،وہ اپنی علمی،سماجی اور معاشرتی زندگی میں طب اور اطبّاء سے بڑی شدت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔شیخ الہند حکیم
عبد العزیز (وفات: 1911ء )، مسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں(وفات: 1927ء )،حکیم سید عبد الحی حسنی( وفات: 1923ء ) اور حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی (( وفات1913 ء ) وغیرہ اکابر اطبّاء سے ان کا خاص ربط و تعلق تھا اور طب کی بقاء ا و رارتقاء کے کاموں میں ان کے سہیم و شریک رہتے تھے ۔یہاں ہم طبِ یونانی سے ان کے تعلق کے حوالہ سے چند باتیں عرض کررہے ہیں۔
شبلی نعمانی اور مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں میں دانشوری کا رشتہ تھا اور شبلی نعمانی کا حکیم اجمل خاں کی شریف منزل میں بھی آناجاناتھا۔ دونوں ایک دوسرے قدرداں تھے۔حکیم اجمل خاں کی تیار کردہ رام پور رضا لائبریری رام پور کی توضیحی فہرست کتب بطور خاص بعض طبّی مخطوطات پر ان کا نقد و تبصرہ فن سے ان کے گہرے شغف اور کثرتِ مطالعہ کا غماز تھا، حکیم اجمل خاں کے اس کام کو شبلی نعمانی نے بے حد پسند کیا تھا۔ (1)
شبلی نعمانی اور حکیم عبد العزیز میں بھی علم دوستی کا رشتہ تھا، مدرسہ تکمیل الطب کے حوالہ سے حکیم عبد العزیز بڑی پُرشکوہ اور با برکت تقریبات کا انعقاد کیا کرتے تھے ،جس میں صوبہ کا گورنر یا کسی ریاست کا سربراہ صدر نشین ہوتا تھا،صدارتی خطبات ،روداداور تقاریر کے علاوہ نظمیں پروگرام کا خاص حصّہ ہوتی تھیں اور چونکہ حکیم عبد العزیز اور شبلی نعمانی میں ایک خاص ربط و تعلق تھا ،اسی لیے ان تقریبات میں شبلی نعمانی کی شرکت تقریباً لازمی ہوتی تھی اور حسبِ موقع وہ ان میں تقریریں بھی کیاکرتے تھے ۔ حکیم سید ظل الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’حکیم صاحب سے فرطِ تعلق کی وجہ سے وہ (شبلی نعمانی)تکمیل الطب کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے اور ان کی تقریریں تقریبات کا خاص حصّہ ہوتی تھیں‘‘۔ (2)
اس طرح کی چندتقاریب کا تذکرہ حکیم سید ظل الرحمٰن نے ’تذکرہ خاندانِ عزیزی ‘میں کیا ہے۔ مدرسہ تکمیل الطب کے پہلے جلسہ تقسیمِ اسناد وانعام((3 کے حوالہ سے وہ لکھتے ہیں :
’’ تکمیل الطب کانصاب تین سال کا تھا۔30اکتوبر1904ء کو پہلا جلسہ تقسیمِ اسنادوانعام منعقد ہوا۔اس جلسہ میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں مولانا شبلی نعمانی،خان بہادر چو دھری نصرت علی،خان بہادر ڈپٹی ممتاز خاں ڈپٹی کلکٹر و معین المہام بھوپال،تاج الدین سب جج، محمد باقرخاں ڈپٹی کلکٹر،ابو الحسن ڈپٹی کلکٹر،کنور بم بہادر شاہ رئیس سنگھائی، مولانا عبد الحلیم شرر ،مولوی ریاض الدین بی اے مالک اخبار ریاض بھوپال،مولانا حفیظ اللہ صدر مدرس ندوۃ العلماء،خواجہ قطب الدین احمد مالک مطبع نامی جیسے ممتاز اصحاب تھے۔ چودھری محمد نصرت علی صدر رنشین تھے، مولانا شبلی کی تقریر پروگرام کا خاص جزء تھی‘‘۔ (4)
واضح رہے کہ یہاں حکیم سید ظل الرحمٰن نے شبلی نعمانی کی تقریر کا ذکر توکیا ہے،لیکن اس کا کوئی اقتباس نقل نہیں کیاہے ۔
کرنل جی اینڈرسن سول سرجن لکھنؤ کو طب یونانی سے دلچسپی تھی،وہ مدرسہ تکمیل الطب کے بہی خواہوں،بلکہ سر پرستوں میں تھے اور حکیم عبد العزیز کو بے حد عزیز رکھتے تھے، ان کی لندن واپسی کے موقع پرحکیم عبد العزیز نے ان کے اہتمام میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی تھی ،جس میں شبلی نعمانی بھی شریک ہوئے تھے ،اس حوالہ سے سید ظل الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’ کرنل جی اینڈرسن سول سرجن لکھنؤجو تکمیل الطب کے خاص سرپرستوں میں تھے،جن کے ذریعہ نہ صرف آلاتِ جراحی کی فراہمی کا نظم کیا گیا،بلکہ جن کی نگرانی کی وجہ سے اعمالِ جراحی میں تکمیل الطب کالج کو ترقی کا موقع ملا،1909ء میں لندن واپس ہوئے۔26اپریل1909ء کو تکمیل الطب میں ان کے اعزاز میں ایک رخصتی تقریب منعقد ہوئی ۔سر راجہ تصدق رسول اور سر راجہ محمد علی وال�ئ محمود آباد اور شہر کے دوسرے رؤسا وعمائدین کے علاوہ مولانا شبلی بھی تھے‘‘۔ (5)
حکیم سید ظل الرحمٰن نے یہاں کسی وضاحت کے بغیراس تقریب میں شبلی نعمانی کی صرف شرکت کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔ اس طرزِ نگارش سے شبلی نعمانی کے شیدائیوں کو بے حد تشنگی کا احسا س ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ حکیم سید ظل الرحمٰن نے مدرسہ تکمیل الطب اور بعض دیگرتقریبات کی بیشتراطلاعات تکمیل الطب کی مطبوعہ روداد وں سے اخذ کی ہیں،یہ روداد یں اُن کی قائم کردہ ابن سینا اکیڈمی ،علی گڑھ کی لائبریری میں یقیناً محفوظ ہوں گی،جن کے تفصیلی مطالعے سے ممکن ہے شبلی کی تقریروں کے کچھ اقتسابات حاصل ہو جائیں، جو یقیناً علم دوستوں اورشبلی کے شیدائیوں کی علمی و فکری آسودگی کا سامان بنیں گی۔میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہاہوں کہ حکیم سید ظل الرحمٰن نے اپنی دلچسپی اور علمی ترجیحات کے اعتبار سے ان تقاریب میں پڑھی گئی متعددنظموں کے اشعار،ان رودادوں کے حوالے سے نقل کیے ہیں ۔شبلی تو اُس دور میں آبروئے محفل ہوا کرتے تھے اوربقول حکیم سید ظل الرحمٰن جب ان کی تقریریں اس طرح کی تقریبات کا خاص حصّہ ہوا کرتی تھیں توو ہ قرینِ قیاس ہے کہ کلی طور پر نہ سہی،جزوی طورپرا ن رودادوں میں شائع ہوئی ہوں گی۔ شبلی شناسوں کو چاہئے کہ وہ اس حوالہ سے بھی تحقیق کریں۔
’شبلی نعمانی اور طبِ یونانی‘ کے نام سے یہ چند سطریں ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے اُس استفسار کی رہینِ منت ہیں،جو انہوں نے راقم سطور سے حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کے سنہ ولادت ووفات ے حوالہ سے کیے تھے،جس کے جواب کے ساتھ ضمنی طورپر شبلی نعمانی اور حکیم عبد العزیز کے علمی روابط اور مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ کی تقریبات میں شرکت اور اس مناسبت سے ان کی تقریروں کے بارے میں بھی بتایا تھا ۔ بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ راقمِ سطور نے بدر الدین خاں دہلوی کے بارے میں بہت پہلے حکیم سید ظل الرحمٰن کی کتاب ’ دلّی اور طبِ یونانی میں پڑھا تھا اور پھر چند سال پہلے حکیم فخر عالم کی کتاب ’اردو طبّی مترجمین‘ میں بھی۔اسی لیے ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے استفسار کا فوراً جواب دے دیا،لیکن اس ’شبلی شناس‘کو ’ماہرِ شبلیات‘ کہے جانے کی وجہ بھی روشن ہوکر سامنے آگئی۔ اب پورا واقعہ ملاحظہ کریں۔
امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء کے گم شدہ مباحث کی بازیافت میں شبلی نعمانی کا تعاون:
موفق الدین عبد العزیز بن عبد الجبار بن ابی محمد السلمی( وفات:604 ہجری مطابق1208 ء) کی کتاب امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کا ایک خطّی نسخہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی( ولادت: 1 شعبان1256 ہجری مطابق 28 ستمبر1840ء ۔وفات:1331ہجری مطابق1913 ء ) کو حکیم احسن اللہ خاں(وفات:1873ء)،جو اُن کے استاذ اور پھوپھابھی تھے، کے ذخیرۂ کتب میں دستیاب ہوا تو اُنہوں نے اس کے اردو ترجمہ کا ارادہ کیا ،لیکن اس خطّی نسخے کے چنداوراق کم تھے،جس سے اس کے ترجمہ کی افادیت محدود ہورہی تھی ،ان حالات میں حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے شبلی نعمانی سے علمی تعاون چاہا تھا۔اس واقعہ کو حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے ’ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء ‘کے اردو ترجمہ’بدر الجیٰ‘ میں’گزارشِ مترجم‘ کے تحت نقل کیا ہے۔ حکیم سید ظل الرحمٰن نے ’دلّی اور طبِ یونانی ‘ اور حکیم فخر عالم نے’اردو طبّی مترجمین‘ میں اسی حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے۔حکیم سید ظل الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’ یہ گوہرِ گراں بہا مجھے خزینۂ کتب حضرت استاذی حکیم احسن اللہ خاں سے دستیاب ہوا،بلا مبالغہ ہندوستان کے تمام کتب خانے اس صحیفۂ نایاب سے خالی ہیں۔اس کے فضائل کی عمومیت اور فوائد کی کثرت نے مجھے اس امر پر آمادہ کیا کہ میں اس کا ترجمہ اپنی ملکی زبان میں پیش کروں،اصل کتاب عبد العزیز بن علی متطبب نے عہد سید الوزراء صفی الدین، عربی میں لکھی تھی،یہ دس ابواب پر مشتمل ہے ۔مخطوطہ 688ھ 1289/ء سے قبل کا نقل کردہ ہے۔یہ مخطوطہ شاہانِ مغلیہ کے کتب خانے کا ہے اور اس پر جلال الدین اکبر اور شاہ جہاں کی مہریں ثبت ہیں۔اس کتاب میں چند اوراق کم تھے۔ میں عرصہ تک اس فکر میں تھا کہ اس کا کوئی اورنسخہ ملے تو اس سے مقابلہ کرکے ترجمہ کی تکمیل کروں۔ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں (خبر)شائع کرانے کے باوجود اس کے دوسرے نسخے کی کہیں موجودگی کی اطلاع نہیں ملی۔آخر اسی نسخہ سے ترجمہ کا کام شروع کیا۔ مولانا شبلی نعمانی ،علی گڑھ سے دہلی کسی تقریب میں آئے،اُنہوں نے بھی اس کتاب کے کسی نسخے سے اپنی عدمِ واقفیت ظاہر کی۔کچھ عرصہ بعد جب وہ مصر و قسطنطنیہ گئے اور وہاں کے کتب خانوں کی سیر کی تو اس کتاب کا ایک نسخہ خدیو کتب خانہ (قاہرہ) میں دیکھا اور ہندوستان آکر مجھے اس کی اطلاع دی۔مولانا شبلی کے توسط سے میں نے اپنا نسخہ قاہرہ بھجوایا اور جرجی زیدان کی معرفت کتب خانہ خدیوکے نسخہ سے گم شدہ اوراق کی باحتیاط نقل و مقابلہ کا کام انجام پایا،مولانا عبد الحق خیر آبادی اور مولانا عبد الحق حقانی سے ترجمہ میں مجھ کو مدد ملی‘‘۔ (6)
حکیم سید ظل الرحمٰن نے حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کے ’گزارشِ مترجم‘ کو اپنا بیانیہ،بلکہ اختصاریہ بنا دیا ہے،ورنہ چھ صفحے کی باتیں سات آٹھ سطروں میں نہ سماپاتیں۔حکیم فخر عالم نے بھی اس حوالہ سے کم و پیش یہی باتیں لکھی ہیں،لیکن ان دونوں کی تحریروں میں کچھ باتیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں،مثلاً: 1۔اصل عربی متن کے بارے میں حکیم سید ظل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ ’’ یہ مخطوطہ 688ھ1289ء سے قبل کا نقل کردہ ہے‘‘۔ (7) اور حکیم فخر عالم اسے 688 ہجری سے پہلے کا تالیف کردہ بتاتے ہیں۔(8)
2۔ حکیم سید ظل الرحمٰن اس کتاب کو دس ابواب پر مشتمل بتاتے ہیں۔ (9) اور حکیم فخر عالم کی تحریر کے مطابق یہ کتاب’’ بیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب میں بیس سوالات اور ان کے جوابات ہیں‘‘۔ (10)
واضح رہے کہ یہ دو بڑے دعوے ہیں اور دونوں باہم مختلف اور متضاد ہی نہیں بلکہ متحارب بھی ہیں،حیرت تو یہ ہے کہ دونوں دانشوروں کا ماخذ وہی اردو ترجمہ ہے۔ ہمارے مطالعہ میں امتحان الالبا ء الکافۃ الاطبّاء کا اردو ترجمہ’بدر الدجیٰ‘ نہیں رہا ہے،اسی لیے ہم نے ہر دو اہلِ قلم کی تحریریں آپ کے سامنے نقل کردیں۔بیانیہ میں یہ تضاد غالباًا س لیے راہ پا گیا ہے کہ ان دونوں صاحبِ قلم نے مترجمِ کتاب حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کی اصل عبارت نقل کرنے کی بجائے اخذِ معنوی،بلکہ اختصاریہ والاانداز اختیار کیا ہے۔اگر یہ لوگ اخذِ لفظی کرتے تو یہ صورتِ حال قطعی نہ پیدا ہوتی۔
بہر حال شبلی نعمانی کے بیش قدر علمی تعاون سے موفق الدین عبد العزیز بن عبد الجبار بن ابی محمد السلمی کی اس کتاب کا اردو ترجمہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے مولانا عبد الحق خیر آبادی اور مولانا عبد الحق حقانی کے تعاون سے ’ بدر الجیٰ ‘ کے نام سے انجام دیا،جو محرم الحرام 1318 ہجری مطابق 1900ء میں باہتمام خوابہ (11) مصلح الدین خاں،مطبع مطبع المطابع ،دہلی سے شائع ہوا ۔اس طرح طب کی ایک نامکمل کتاب کی تکمیل ہوئی اور اس کا اردو ترجمہ علمی دنیا کے سامنے آیا۔
اہلِ علم کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء کا ایک خطّی نسخہ کتاب خانہ خراججی اوغلی،ترکی میں اندراج نمبر1120/2کے تحت رسائل کے ایک مجموعہ میں ورق نمبر19۱لف سے ورق نمبر46ب پر مشتمل ہے۔خطِ نسخ میں اس کی کتابت بدر الدین محمد بن محمد القیصونی نے 970ہجری میں کی ہے۔ (12)
نسخۂ خراججی اوغلی،ترکی کی دریافت کے بعد میں نے حکیم فخر عالم سے دریافت کیا کہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کا اردو ترجمہ عربی متن کے ساتھ شائع ہوا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا’ ’جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ترجمہ متن کے ساتھ ہے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ بہت سی باتیں قطعیت کے ساتھ حافظہ میں نہیں رہ پاتیں۔اگر یہ ترجمہ عربی متن کے ساتھ ہے تو نسخۂ خراججی اوغلی کی مدد سے اس عربی متن کی تدوین کی جاسکتی ہے،اس طرح نسخۂ حکیم احسن اللہ خاں(ہندوستان)،نسخہ کتب خانہ خدیو( قاہرہ) اور نسخۂ خراججی اوغلی (ترکی )کے تناظرتدوین سے ایک معتبر اور برترمتن تک پہنچا جاسکتا ہے۔
’شبلی نعمانی اور طبِ یونانی‘ کے عنوان سے یہ چند سطریں ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے اسی استفسار کے جواب کی رہینِ منت ہیں ۔اگر اللہ نے توفیق بخشی توراقمِ سطور مستقبل قریب میں شبلی نعمانی اور طبِ یونانی کے حوالہ سے خود شبلی کی تحریروں کی روشنی میں گفتگو کرے گا۔
حواشی:
1۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں راقم سطور کا مضمون’ مسیح الملک حکیم اجمل خاں اور علامہ شبلی نعمانی کے روابط: ریاست رام پور اور تحریک ندوۃ العلماء کے خصوصی حوالے سے،ماہنامہ معارف اعظم گڑھ، 2015، شمارہ2،ص103-126
2۔تذکرہ خاندانِ عزیزی، ص 105
3۔ واضح رہے کہ حکیم عبد العزیز کے درس وتدریس کا سلسلہ مدرسہ تکمیل الطب کی تاسیس سے بہت پہلے سے تھا،ان کے چند شاگردوں نے تکمیل الطب کے قیام کے بعد اس کے ثانوی درجات میں داخلہ لیا تھا،ایسے ہی طلباء کا یہ پہلا جلسۂ تقسیم اسناد وانعام تھا۔
4۔تذکرہ خاندانِ عزیزی،ص120
5۔ ایضاً:ص126
6۔ بدر الجیٰ اردو ترجمہ امتحان الالبا لکافۃ الاطبّاء ،ص1-6،بحوالہ دلّی اور طبِ یونانی،ص241
7۔ ملاحظہ کریں دلّی اور طبِ یونانی،ص241
8۔ ملاحظہ کریں اردو طبّی مترجمین،ص64
9۔ ملاحظہ کریں دلّی اور طبِ یونانی،ص241
10۔ملاحظہ کریں اردو طبّی مترجمین،ص64
11۔ کذا،غالباً خواجہ
12۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں Medicinalia,s.195-196بحوالہ فہرس مخطوطات الطب الاسلامی باللغات العربیۃ والترکیۃ والفارسیۃفی مکتبات ترکیا،ص251
کتابیات:
1۔ اردو طبّی مترجمین،حکیم فخر عالم،مسلم ایجو کیشنل پریس، علی گڑھ،2017ء،ص64۔63
2۔ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء ترجمہ اردومسمیٰ بدر الدجیٰ از حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی، مطبع مطبع المطابع ،دہلی ،1900ء،ص 8۔1،219 ۔218
3۔تذکرہ خاندانِ عزیزی،( اشاعتِ دوم)،حکیم سید ظل الرحمٰن،انٹر نیشنل پرنٹنگ پریس ،علی گڑھ ، 2009ء
4۔دلّی اور طبِ یونانی(اشاعتِ دوم)،حکیم سید ظل الرحمٰن،اصیلا آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نیے دہلی،2011ء
5۔فہرس مخطوطات الطب الاسلامی باللغات العربیۃ والترکیۃ والفارسیۃفی مکتبات ترکیا،ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلی،استانبول1984ء
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں