محمد یاسین جہازی قاسمی، شعبہ مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند
خودی کی شناخت
انسان کے اندر دو چیزیں ہیں: ایک ذات، دوسری صفات۔ اور ان دنوں کے اعتبار سے اس کی دو کٹیگری ہیں۔ ذات کے اعتبار سے اولو الالباب اور غیر اولوالالباب میں تقسیم ہے۔ اور صفات کے اعتبارسے وہ عالم اور جاہل کہلاتا ہے۔
ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز انسان اپنے اندر خود سے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مرد و عورت کی صنف اس کی واضح مثال ہے، کیوں کہ انسان اپنی خواہش یا مرضی سے لڑکا یا لڑکی کی ذات بن کر جنم نہیں لے سکتا ۔ ہندووں کے یہاں تو بھگوان تک پیدا ہوتے ہیں، جس سے ان کا سراسر خلاف فطرت ہونا واضح ہوجاتا ہے ، کیوں کہ جو بھگوان دوسروں کو پیدا کرنے کا مالک و مختار ہوتا ہے، خود اس کو کسی انسان سے جنم لے کر بچپن اور انسانوں کی تمام کمزوریاں مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ صفات کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعد از پیدائش اپنے اندر کچھ صلاحتیں پیدا کرنے میں مالک و مختار ہے۔ اگر کسب و کوشش کرے گا تو وہ چیز اسے حاصل ہوجائے گی، نہیں کرے گا، تو محروم رہے گا۔ عالم ، جاہل، بے ہنر، باکمال ؛ یہ سب اس صفت کے مظاہر ہیں۔
شریعت اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان ذاتیات کی حیثیت کے مطابق فرائض کا مکلف ہوتا ہے ۔ اگر وہ صاحب عقل و دانش ہے، تو اس کے ساتھ سبھی فرائض وابستہ ہیں؛ لیکن اگر وہ سفیہ العقل ہے تو وہ کسی بھی فرائض کا ذمہ دار نہیں۔ اور اگر کوئی درمیانی درجہ کا سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو وہ اسی اعتبار سے مکلف ہوتا ہے ۔ اور صفات کا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے مقام و منزلت بخشتی ہیں۔ چنانچہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ عالم کا مقام و مرتبہ اس سے جدا ہوتا ہے جو جاہل اور گنوار کا ہوتا ہے ۔
اس قاعدہ کلیہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے خود کی ذات و صفات پر غور کرے اورپھر یہ طے کرے کہ ہمارے فرائض و واجبات کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اور پھر اسی اعتبار سے اپنے دائرہ کار کا تعین کرے۔ تدبر و تفکر کے بعد اپنا مقام و مرتبہ اور فرائض سمجھ میں آجائے ،تو ان کی انجام پذیری میں لگ جائے، اس حوالے سے نہ تو اپنے فرض منصبی سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی اپنے دائرہ کار کو لانگھنے کی کوشش کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کو پہچان کر اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود رہے، تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے گا، لیکن اگر جہاں وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے حد پار کرتا ہے، تو وہ خودبھی گرفتار بلا ہوتا ہے اور دوسروں کے بھی چین و سکون کو غارت کرتا ہے۔
قیادت کے مسئلے میں نااہل کے مشورے، نا اہل فرد سے قیادت کی توقع، اپنی اوقات سے باہر کی لاف زنی اور لاف زنی میں بے وجہ الجھنا ، عملی زندگی میں زیرو اور سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کی کوشش، کرکٹ میں مہارت پیدا کرلینے پر ادب پر نقد کا حق جتانا اور ڈانس کی تعلیم حاصل کرلینے پر ماہر اسلامیات کہلانا اور اس قسم کے سیکڑوں حادثات کے پیچھے یہی اصول کار فرما ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے مطابق فرائض و حدود کا تعین کیے بغیر دوسرے کے عملی میدان میں ٹانگے اڑانے لگتا ہے ۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
راقم کا عندیہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند، مسلم پر سنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، مسلم پاپولر فرنٹ آف انڈیا، امارت شرعیہ ، مجلس علماء ہند اور اس طرح درجنوں ملی تنظیموں کی طرف سے کیے گئے کاموں پر بیجا تنقید و تبصرے؛ یہ سب اس کے عملی مظاہر ہیں۔ دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس کی تازہ مثال آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل فہیم اور فہم رشید عطا فرمائیں، تاکہ ہم اپنی ذات و صفات میں غوروفکر کرکے اپنے فرائض کو سمجھ سکیں اور اپنے ہی دائرہ میں رہ کر صرف اپنے فرائض کو ادا کریں اور دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاکر چین و سکوت غارت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہم آمین یا رب۔
انسان کے اندر دو چیزیں ہیں: ایک ذات، دوسری صفات۔ اور ان دنوں کے اعتبار سے اس کی دو کٹیگری ہیں۔ ذات کے اعتبار سے اولو الالباب اور غیر اولوالالباب میں تقسیم ہے۔ اور صفات کے اعتبارسے وہ عالم اور جاہل کہلاتا ہے۔
ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز انسان اپنے اندر خود سے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مرد و عورت کی صنف اس کی واضح مثال ہے، کیوں کہ انسان اپنی خواہش یا مرضی سے لڑکا یا لڑکی کی ذات بن کر جنم نہیں لے سکتا ۔ ہندووں کے یہاں تو بھگوان تک پیدا ہوتے ہیں، جس سے ان کا سراسر خلاف فطرت ہونا واضح ہوجاتا ہے ، کیوں کہ جو بھگوان دوسروں کو پیدا کرنے کا مالک و مختار ہوتا ہے، خود اس کو کسی انسان سے جنم لے کر بچپن اور انسانوں کی تمام کمزوریاں مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ صفات کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعد از پیدائش اپنے اندر کچھ صلاحتیں پیدا کرنے میں مالک و مختار ہے۔ اگر کسب و کوشش کرے گا تو وہ چیز اسے حاصل ہوجائے گی، نہیں کرے گا، تو محروم رہے گا۔ عالم ، جاہل، بے ہنر، باکمال ؛ یہ سب اس صفت کے مظاہر ہیں۔
شریعت اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان ذاتیات کی حیثیت کے مطابق فرائض کا مکلف ہوتا ہے ۔ اگر وہ صاحب عقل و دانش ہے، تو اس کے ساتھ سبھی فرائض وابستہ ہیں؛ لیکن اگر وہ سفیہ العقل ہے تو وہ کسی بھی فرائض کا ذمہ دار نہیں۔ اور اگر کوئی درمیانی درجہ کا سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو وہ اسی اعتبار سے مکلف ہوتا ہے ۔ اور صفات کا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے مقام و منزلت بخشتی ہیں۔ چنانچہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ عالم کا مقام و مرتبہ اس سے جدا ہوتا ہے جو جاہل اور گنوار کا ہوتا ہے ۔
اس قاعدہ کلیہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے خود کی ذات و صفات پر غور کرے اورپھر یہ طے کرے کہ ہمارے فرائض و واجبات کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اور پھر اسی اعتبار سے اپنے دائرہ کار کا تعین کرے۔ تدبر و تفکر کے بعد اپنا مقام و مرتبہ اور فرائض سمجھ میں آجائے ،تو ان کی انجام پذیری میں لگ جائے، اس حوالے سے نہ تو اپنے فرض منصبی سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی اپنے دائرہ کار کو لانگھنے کی کوشش کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کو پہچان کر اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود رہے، تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے گا، لیکن اگر جہاں وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے حد پار کرتا ہے، تو وہ خودبھی گرفتار بلا ہوتا ہے اور دوسروں کے بھی چین و سکون کو غارت کرتا ہے۔
قیادت کے مسئلے میں نااہل کے مشورے، نا اہل فرد سے قیادت کی توقع، اپنی اوقات سے باہر کی لاف زنی اور لاف زنی میں بے وجہ الجھنا ، عملی زندگی میں زیرو اور سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کی کوشش، کرکٹ میں مہارت پیدا کرلینے پر ادب پر نقد کا حق جتانا اور ڈانس کی تعلیم حاصل کرلینے پر ماہر اسلامیات کہلانا اور اس قسم کے سیکڑوں حادثات کے پیچھے یہی اصول کار فرما ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے مطابق فرائض و حدود کا تعین کیے بغیر دوسرے کے عملی میدان میں ٹانگے اڑانے لگتا ہے ۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
راقم کا عندیہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند، مسلم پر سنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، مسلم پاپولر فرنٹ آف انڈیا، امارت شرعیہ ، مجلس علماء ہند اور اس طرح درجنوں ملی تنظیموں کی طرف سے کیے گئے کاموں پر بیجا تنقید و تبصرے؛ یہ سب اس کے عملی مظاہر ہیں۔ دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس کی تازہ مثال آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل فہیم اور فہم رشید عطا فرمائیں، تاکہ ہم اپنی ذات و صفات میں غوروفکر کرکے اپنے فرائض کو سمجھ سکیں اور اپنے ہی دائرہ میں رہ کر صرف اپنے فرائض کو ادا کریں اور دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاکر چین و سکوت غارت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہم آمین یا رب۔
مآخذ و مصادر
۱۔ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْاَلْبَابِ (الزمر آیۃ ۹)
۲۔ رفع القلمُ عن ثلاثۃ: عن النائم حتیٰ یستیقظ، وعن المبتلیٰ حتیٰ یبرأ و عن الصبی حتیٰ یکبر (سنن ابی داود، کتاب الحدود،باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا)
۱۔ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْاَلْبَابِ (الزمر آیۃ ۹)
۲۔ رفع القلمُ عن ثلاثۃ: عن النائم حتیٰ یستیقظ، وعن المبتلیٰ حتیٰ یبرأ و عن الصبی حتیٰ یکبر (سنن ابی داود، کتاب الحدود،باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں