عبدالعزیز
علامہ اقبالؒ قرآن و سنت کے بہت بڑے ترجمان تھے، انھوں نے کتاب خداوندی میں ڈوب کر اللہ کے دین کی ترجمانی کی ہے اور مومن کے کردار کو احسن طریقہ سے پیش کیا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلیٰ کردار اور بلند حوصلگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۂ مریم کی آیات 41 تا 50 کی روشنی میں لکھا ہے:
’’ایک طرف تو وہ نرمی، دوسری طرف یہ سختی! درحقیقت میں نرمی و سختی کایہی امتزاج اور ان کی یہی بہم آمیزی ہے جو ایک داعی حق کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب تک آدمی موم کی طرح نرم اور پتھر کی طرح سخت نہ ہو وہ حق گوئی کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔‘‘ (تدبر قرآن جلد 4، صفحہ: 441)
اس بات کو مولانا حمید الدین فراہی ؒ کچھ اس انداز سے بیان فرماتے ہیں۔
’’اخلاق انسانی کی سب سے زیادہ حسین شکل یہ ہے کہ وہ شجاعت اورنرم خوئی کا ایک دل آویز پیکر ہو یہ پیکر مرحمت اور صبر کی یکجائی سے تراشاجاتا ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے مومن بندے کی اس صفت کو اپنے کلام میں جس انداز سے پیش کیا ہے وہ علامہ ہی کا حصہ ہوسکتا ہے
جس سے جگہ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم ۔۔۔ دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
While dealing with friends and mates, He is dew that thirst of tulip slakes;
When engaged with his foes in fight, like torrent strong makes rivers shake.
مَصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر ۔۔۔ شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا
گذر جا بن کے سیلِ تندرو کوہ و بیاباں سے ۔۔۔ گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
On the battle-field of life adopt the nature of steel;
In the bed-chamber of love become as soft as silk and painted brocade.
Pass like a river in full spate through the mountains and the deserts;
If the garden should come your way, then become a melodiously singing stream.
صف جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر ۔۔۔ جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
مولانا امداداللہ رشیدی صاحب نے اپنے بیٹے کی شہادت پر دنیائے انسانیت خاص طور سے ہندستانی باشندوں کو ایک ایسا پیغام دیا ہے جس سے اللہ کے دین کی اعلیٰ درجہ کی نمائندگی ہوئی اور دنیا کے سامنے یہ پیش کیا ہے کہ مومن کا کردار کیسا ہوتا ہے؟ مولانا زندگی اور موت کو اللہ کے اختیار میں سمجھتے ہیں اور ہر وقت راضی با رضا رہتے ہیں۔ مولانا موصوف کے اندر یہ صفت یکایک نہیں پیدا ہوئی ہے بلکہ ان کا جوش کردار اور مومنانہ صفت بہت دنوں سے ہے۔ آسنسول والے جانتے ہیں کہ نرسنگ ہوم میں ان کی ایک بچی تولد ہوئی تھی ، نرس کی غفلت اور بے توجہی سے بچی کی موت ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے نرس کو معتوب ٹھہرایا لیکن جب امام صاحب اپنی بچی کی لاش لینے آئے تونہ ڈاکٹر کو ایک لفظ کہا اور نہ ہی نرس کو لعنت ملامت کی بلکہ کہا میری بچی کی لاش دے دو۔ جو کچھ ہوا حکم الٰہی سے ہوا۔ اللہ کے حکم سے زندگی ملتی ہے اور اسی کے اشارے پر موت ہوتی ہے۔ یہ سن کر نرس اور ڈاکٹر سبھی بیحد متاثر ہوئے تھے۔ سب نے کہاکہ یہ تو کوئی مہاتما ہے۔
آج (3 اپریل) ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں ملیالم زبان کے ایک بہت بڑے مصنف ایس گوپال کرشنن (S.Gopalkirshnan) کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے “A Mahatma In An Imam” (امام کی سیرت و کردار میں ایک مہاتما)۔ گوپال کرشنن نے یہ بات مہاتما گاندھی جی کے حوالے سے کہی ہے۔ اگر انھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہوتا تو شاید وہ مہاتما گاندھی کے بجائے حضرت محمدؐ کے سیرت و کردار کی ایک جھلک کہتے ہیں۔ امام صاحب سے کسی نامہ نگار نے سوال کیا کہ آپ کے اندر ایسا اعلیٰ و ارفع کردار کیسے آیا۔ امام صاحب نے برجستہ کہا۔ یہ ہمارے نبیؐ کی تعلیم ہے جس کا ایک معمولی عنصر میرے کردار میں آپ کو نظر آرہا ہے۔ گوپال کرشنن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’آسنسول کے نوا کھالی (بنگلہ دین) سے 562 کیلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ دونوں مقامات پر ایسے تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اگر پہلے واقعہ کا ذہن میں ہو تو آسنسول میں جو کچھ ہوا یا جو کچھ امام صاحب نے کیا ہے یا کہا ہے تو پہلے واقعہ کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ آج آسنسول میں وہی واقعہ دہرا گیا ہے جو 70سال پہلے نوا کھالی میں رونما ہوا تھا۔ ایک مقام یا شہر میں مولانا امداد اللہ رشیدی نے اعلیٰ کردار کا نمونہ پیش کیا جبکہ دوسرے مقام (نوا کھالی) میں موہن داس کرم چند گاندھی نے پیش کیا تھا جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے‘‘۔
گوپال کرشنن آگے کی سطروں میں لکھتے ہیں کہ ایک گاندھین اور سماجیات کے ماہر نرمل کمار بوس گاندھی جی کے ساتھ تھے۔ نوا کھالی میں ہندو مسلمان ایک دوسرے کو مذہب کے نام پر خون بہا رہے تھے جس میں گاندھی نے مداخلت کی۔ یہ واقعہ 1946ء کا ہے، جب دہلی میں برطانیہ کے حکمراں پاور (Power) ٹرانسفر کرنے کی سرگرمیوں میں مشغول و مصروف تھے۔ گاندھی جی نے نوا کھالی کا دورہ کیا جہاں 40 گاؤں نذر آتش کر دیا تھا۔ عصمت دری کی واردات ہوئی تھی اور سیکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس موقع پر گاندھی جی نے Art of Dying (مرنے کا فن) پر بڑی اچھی بات کہی تھی۔ ’’دنیا میں سبھی مرتے ہیں اور سب کو موت آتی ہے مگر لوگوں کو عملی طور پر سیکھنا چاہئے کہ اچھی اور شاندار موت کیا ہوتی ہے؟معاملہ طے نہیں ہوگا اگر ہر شخص نوا کھالی چلا جائے اور قتل کر دیا جائے‘‘۔ بوس نے اپنے نامچہ میں گاندھی جی کی یہ بات لکھی ہے۔
گوپالن لکھتے ہیں ’’مولانا، امام رشیدی نے اپنے سولہ سال کے بیٹے کو رام نومی کے حالیہ پرتشدد جلوس کی وجہ سے کھودیا۔ اس موقع پر مغموم و مظلوم اور امام کے ارد گرد سیکڑوں لوگ غم و غصہ کے ساتھ جمع تھے۔ مولانا موصوف نے تقریباً اسی قسم کی باتیں کیں جو گاندھی جی نے 1946ء میں کی تھیں۔ ’’میں اپنے بیٹے کو کھودیا میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن اگر کوئی شخص کسی پر بدلے کیلئے ایک انگلی بھی اٹھاتا ہے تو میں اس مسجد اور اس شہر کو چھوڑ دوں گا‘‘۔
آگے گوپالن صاحب نے وہ سب لکھا ہے کہ کس حکمت کے ساتھ گاندھی جی نے نوا کھالی کے فساد کی آگ کو بجھایا اور ہندو مسلم کو ملایا اور ان کا میل ملاپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مصنف گوپال نے اپنے مضمون کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ ختم کیا ہے:
” In 2018, Sibghatulla Rashidi, a boy who just appeared for his Class 10 board examination was killed in Asansol. His father, the imam of a masjid in the city, in all likelihood, did not know what Gandhi had done in a similar situation in the past. But he interpreted his son146s death for the cause of peace.” (The Indian Express, Tuesday, April 3, 2018)
’’2018ء میں صبغت اللہ جس نے دسویں جماعت پاس کیا تھا۔ اسے آسنسول میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے والد اسی شہر کی ایک مسجد کے امام ہیں جو نہیں جانتے تھے کہ گاندھی جی نے اسی طرح کے حالات میں نوا کھالی میں کیا ۔ اور امام صاحب نے اپنے جواں سال بیٹے کے قتل کو امن کے قیام کیلئے منسوب کر دیا‘‘۔
آج جو کچھ امام صاحب اپنے بے مثال کردار کا مظاہرہ کیا۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ایک چھوٹے شہر کے ایک امام نے کیسے ایسا کارہائے نمایان انجام دیا۔ اس کی وجہ ہے کہ علماء اور ائمہ کا ایک طبقہ جو تقریروں اور بحث و مباحثے میں اس طرح چیختے اور چلاتے ہیں جن سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہے۔ خاص طور سے آج کل بہت سے نام نہاد علماء یا ائمہ ٹی وی چینلوں کے ڈسکشن میں حصہ لیتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں، حالانکہ قرآن مجید کے سورہ لقمان میں چیخنے چلانے کو منع کیا گیا ہے:
’’اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے‘‘۔ (لقمان:19)
دوسروں کو ذلیل یا مرعوب کرنے کیلئے گلا پھاڑنا در اصل گدھے کی آواز میں بولنا ہے۔ ٹی وی چینل والے ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو گلا پھاڑ کر گدھے کی آواز میں بولیں تاکہ ان کے چینل کی Ranking بڑھے اور ان کا نام مشہور چینلوں میں ہو۔ ان علماء اور ائمہ کو سوچنا چاہئے کہ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کو برا بھلا کہیں اور ان کی مذمت کریں تاکہ انھیں معلوم ہو کہ مسلمانوں میں ان کی نیک نامی نہیں بدنامی ہورہی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ہر جگہ اور ہر موقع پر داعیانہ کردار ادا کرنے کی بات کہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کلام پاک میں فرماتا ہے:
’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہاکہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کو مختلف قرار دیا ہے اور دونوں کے اثرات بھی الگ بتایا ہے۔ یہاں اللہ بتاتا ہے کہ بدی کا مقابلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو؛ یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو۔
اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین دشمن بھی آخرکار جگری دوست بن جائے گا۔ اس لئے کہ یہی انسانی فطرت ہے۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہوگی، مگر گالی دینے والی زبان بند نہ کرسکے گی، لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہوکر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بدکلامی کیلئے کھل سکے گی۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہوجائے، لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچالیں تو وہ آپ کے قدموں میں آرہے گا، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے، تاہم اس قاعدۂ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا، لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں۔
امام رشیدی صاحب کی شخصیت اور کردار میں مومنانہ صفات کا کرشمہ ہے کہ آج پورے عالم میں خاص طور سے ہندستان میں ان کے کردار و سیرت کا چرچا ہورہا ہے۔ آج یہ ہم مسلمان قرآنی یا اسلامی کردار کو اپنا لیں تو اس ملک کو بدل سکتے ہیں۔ سنگھ پریوار کی شرارت کا جواب اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہوسکتا ہے۔ آج جو ہندوؤں کو ورغلانے میں اور بہکانے میں کامیاب ہیں۔ ان کو اسی اعلیٰ اور ارفع کردار سے شکست دی جاسکتی ہے۔ اور ان میں جو شر مجسم ہیں ان کے بدلنے کا امکان کم ہے لیکن انصاف پسند برادران وطن سے مل کر ان کی سرکوبی کی جاسکتی ہے۔
ہندستان بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ امام امداد اللہ رشیدی صاحب کے پیغام کو عام کریں اور ان کی پیروی کریں۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہیں۔ اللہ حالات کو بدلنے میں قدرت رکھتا ہے مگر ہمیں بھی بدلنا ہوگا ۔ اللہ ہی نے فرمایا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں