گنگا جمنی روایتوں کے نقیب،’’کمل دیوبندی‘‘

0
529

عبداللہ عثمانی/ دیوبند

میانہ قد، مضبوط بدن، سانولا رنگ، وجیہ شکل کا حامل ایک نوجوان پرانی سائیکل پر سوار، گھر گھر،اخبار ،تقاریب اور نشستوں کے دعوت نامے تقسیم کرتا تھا اب یہی کام وہ اسکوٹر پر سوار ہوکر انجام دیتا ہے، آواز کڑک اوربلند ، نہایت ملنسار اور اعلیٰ درجے کا مخلص وہمدرد، علاوہ ازیں چھوٹے بڑے پروگراموں اور نشستوں میں بھی نظامت سے لے کر چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں بھی اس کو کوئی جھجھک یا تکلف نہیں، بیشک بڑے اور باظرف لوگ کبھی کسی کام کو چھوٹا یا معمولی نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ہر کام خدمت کے دائرے میں آتاہے۔ چناں چہ مذکورہ بالا سراپا عالم اسلام کی ممتاز ومحترم ہستی امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ (م۱۹۳۳ء) کے نبیرے سید محمد وجاہت شاہ عرف کمل دیوبندی کا ہے، ۱۹۶۴ء میں مولانا سید ازہر شاہ قیصر کے آنگن میں شعور کی آنکھیں کھولنے والے کمل دیوبندی کی تعلیمی ، سماجی اور صحافتی خدمات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا راقم الحروف کو کمل دیوبند کے قلمی کارناموں سے زیادہ ان کے خلوص ومحبت نے متاثر کیاہے میری خوشی نصیبی ہے کہ مجھے گذشتہ پچیس برسوں سے اس علمی گھرانے سے مستفید ہونے کاموقع ملا ہے حضرت امام العصر علامہ کشمیریؒ کی، دینی، علمی ، فکری شمع نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم کوروشن کیاہے علامہ کشمیری کی نظر وآگہی ان کے بعد ان کی ذریت میں منتقل ہوتی رہی ہے علامہ ؒ کے فرزند اکبر امام صحافت وقلم حافظ سید ازہر شاہ قیصر ؒ (م ۱۹۸۵ء) اپنے عصر کے نابغۂ روزگار صحافی اور ادیب تھے بلاشبہ ہندوستان کے مؤقر اخبارات ورسائل میں ان کی نگارشات کو اہتمام سے شائع کیاجاتا تھا، فخرالمحدثین مولانا سید انظر شاہ مسعودی(۲۰۰۸ء) کی جلیل القدر دینی خدمات سے کون واقف نہیں مولانا سید احمد خضر شاہ کے بلند وبالاعلمی دینی کارناموں کا دائرہ بھی نہایت وسیع ہے، سید محمد ازہر شاہ قیصر کے بیٹے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی ایک عرصہ سے قلمی دنیا کا معتبر نام ہے نیز کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اس علمی، مذہبی روایت میں نیا اضافہ کمل دیوبندی نے یہ کیا کہ روایتی دائرے سے باہر نکل کر انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو فلمی دنیا میں آزمایا ۹۳۔۱۹۹۲ میں کمل دیوبند ممبئی آئے جہاں معروف فلم ہدایت کار جے پی دتہ کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا، مگر یہاں ان کا دل زیادہ دن نہیں لگ سکا، چناں چہ ۱۹۹۴ء میں وہ دیوبند واپس آگئے اور دسمبر ۱۹۹۴ء میں ان کا تقرر محکمہ بنیادی تعلیم میں معاون اردو ٹیچر کی پوسٹ پر ہوگیا ، کمل دیوبندی کے قلمی سفر کا آغاز فلمی دنیا کے نامور ستاروں سے ہوا، انھوں دھرمیند، دلیپ کمار، نرگس اور پریم چوپڑا وغیرہ پر مضامین لکھے اور دھرمیند ، کلب کا قیام کیا، یہ مضامین ہندی اور اردو زبان میں ہیں جن میں مدح اور قدح دونوں پہلو شامل ہیں، علاوہ ازیں سیاست پر بھی انھوں نے خوب لکھا ان تحریروں میں غضب کا احتجاج اور عوامی کرب صاف جھلکتا ہے، کمل دیوبندی نے مسلم قیادت کی کوتاہیوں اور بے حسی کو کبھی معاف نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف پورے زور شور سے آواز بلند کی ہے، چناں چہ ایک سچے صحافی ہونے کے ناطے معاشرہ کی برائیوں اور سرکاری ناانصافیوں کے خلاف ان کاقلم سدا سے سینہ سپر رہا ہے، مقامی سیاست بالخصوص قضیۂ دارالعلوم دیوبند کو وہ فراموش نہیں کرپائے موقع بہ موقع اس موضوع پر اپنے کرب ودرد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
کمل دیوبندی کی پہلی کاوش ’’گورودیوبند ‘‘(ہندی) میں فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ ؒ نے کمل دیوبندی کے بارے میں لکھا ہے:’’کمل دیوبندی نے یہ خاکے لکھ کر ایک نئی روایت کو قائم کیا ہے، جس سے مستقبل کے قلمکار بھی مستفید ہوں گے کتاب میں افراد کا انتخاب قابل قدر ہے ہر میدان کے اس میں افراد کو شامل کیاگیا ہے میرے خیال سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو‘‘۔کمل دیوبند ی کی کتاب آئینہ (ہندی) میں ہندی صحافی اسلم انصاری مرحوم (م۲۰۰۶ء ) نے لکھاہے:’’دیوبند کے حالیہ ، ادبی صحافتی پس منظر میں کمل دیوبندی جیسے کم صحافی ہوں گے جن کے اردو،ہندی، انگریزی تینوں زبانوں میں سیکڑوں مضامین، تجزیے ،تبصرے اور خطوط چھپے ہوں ،کمل دیوبند کی صحافت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں وہ زبانوں میں قیدنہیں رہے وہیں کسی خاص موضوع بھی انھیں قید نہیں کرسکا ہے، سیاست ، فلم، کھیل، تعلیم ، تشخص، معاشرت ، ادب سبھی موضوعات پر منفرد مضامین قلم بند کیے ہیں‘‘۔
کمل دیوبندی کی متعددتحریریں بلا شبہ قومی یک جہتی کی نظیر ہیں انھوں نے اپنے قلم کو مسلم قلمکاروں تک ہی محدود نہیں رکھابلکہ غیر مسلموں کی خدمات کو بھی وہ زیر قلم لائے ہیں، نیز دیوبند کے بے مثال ہندومسلم اتحاد کو بھی مضبوط کیا ہے، ’’گورو دیوبند ‘‘ (ہندی) کمل دیوبندی کی پہلی کاوش ہے جس میں انھوں نے قریب تین درجن دیوبند کے محترم وموقر غیر مسلم افراد کو شامل کیا ہے ، مذکورہ کاوش اپنے معیار اور خوبصورتی کا نایاب نمونہ ہے ، نامور قلمکار اورمزاح نگار منظور عثمانی نے، خوشبوئے وطن جلد دوم میں کمل دیوبندی کے بارے میں لکھاہے:’’وجاہت شاہ کی ایک خوبی یہ ہے ہ وہ سیکولر فکر کے حامی ہیں، قومی یکجہتی سے متعلق کئی تنظیموں سے ان کا عملی تعلق ہے اسی جذبہ کو سراہتے ہوئے انہیں کئی ایوارڈز سے نوازاگیا ہے‘‘۔
بہر کیف علامہ انورشاہ کی نسبت میں کمل دیوبندی کھلے ذہن وخیال کے فرد ہیں ان کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ انھوں نے کبھی تنگ ذہنیت یا تعصب کا ثبوت نہیں دیا ظاہر اور باطن کو یکساں رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر دل عزیز ہیں، کمل دیوبندی نے نہ جانے کتنے پروگراموں اور تقاریب کی نظامت کی ہے، دیوبند میں آمدہ کوئی بھی صحافی، ادیب، دانشور ،قلمکار یا مدیر سب سے پہلے کمل دیوبند ی کا مہمان ہوتا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا نہ جانے کتنے غریب نادار طلبہ اور افراد کی وہ خاموشی سے امداد کرتے رہتے ہیں ،ان کی چار دہائیوں پر مشتمل قلمی ، صحافتی سرگرمیوں کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں کیاجاسکتا، مقامی اور قومی سطح کے اخبارات ورسائل میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، تصنیف وتالیف کے میدان میں ، دیوبند گورو (ہندی) آئینۂ (ہندی) تذکرہ خانوادۂ شاہی (اردو، ہندی) اوراقِ ادب، کمل سامانیہ گیان (ہندی) مجموعہ اردو مضامین ’’تحریر شاہی‘‘، منظر عام آچکی ہیں، کمل دیوبندی کو ملنے والے اعزازات وایوارڈز کی تعداد بھی کافی ہے اترپردیش اردو اکاڈمی کی جانب سے نقد انعام (سند) شکشا رتن ، دلی، ڈاکٹر انجم جمالی اسپیشل آنر، نشترخانقاہی اعزاز تعلیمی وتدریسی خدمات کے لیے خصوصی اعزاز، ان کے علاوہ متعدد سماجی، تعلیمی وادبی تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اعزازوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، اب ہم کمل دیوبندی کے طرز تحریر کے چند نمونے نقل کرتے ہیں: ’’دسمبر کے پہلے ہفتے میں جب مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوا تو ہر وہ شخص جسے دارالعلوم دیوبند سے قلبی تعلق ہے وہ اس بات کو لے کر فکر مند تھا کہ نئے مہتمم کے انتخاب کے لیے موزوں شخصیت کون ہوگی؟ یہاں پر یہ وضاحت لازم ہے کہ بذاتِ خود ۱۹۸۳ء سے مولانا مرغوب الرحمن بھی ایک ڈمی(DUMMY) مہتمم تھے مولانا مرغوب الرحمن کا مجلس شوریٰ میں بحیثیت رکن انتخاب بجنور کے نامور عالم دین حضرت علامہ انورشاہ کشمیریؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے داماد حضرت مولانا سید احمد رضا بجنوری جدوجہد سے ہوا تھا حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بذاتِ خود مجلسِ شوریٰ کے رکن تک نہیں بننا چاہتے تھے‘‘۔ (تحریر شاہی:ص/۱۶۲)
فلمی مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ کیجئے:
’’ہندی فلموں کی عظیم اداکارہ نرگس نے ہمیشہ دوسروں سے محبت کی آج سے نصف صدی قبل ہندوستان میں ایک مشہور مغنیہ کا دور دورہ تھا اس مغنیہ کا نام جدن بائی تھا اوراس کا قیام کلکتہ میں تھا جدن بائی اپنے عہد کی زبردست گلوکارہ تھی جس کے فن کے آگے سارا ملک سرجھکا تا تھا، جدن بائی نے بعد میں فلموں میں اداکاری شروع کی اوراس کے بعد خود بھی فلمیں بنائیں جدنا بائی خاندانی طوائف تھی مگراس کے خیالات بلند تھے انھوں نے کلکتہ کے ایک سیٹھ موہن لعل سے شادی کی تھی سیٹھ موہن لعل نے مسلمان ہوکر اپنا نام عبدالرشید رکھ لیا تھا ان ہی جدن بائی اور عبدالرشید کی اولاد میں ایک خوبصورت اور معصوم بچی جس کانام یہاں باپ نے فاطمہ رشید رکھا تھا بعد میں اس بچی کی قسمت میں ہندوستان کی عظیم ترین اداکارہ بننا لکھا تھا فاطمہ رشید عرف نرگس کا جنم یکم جون۱۹۲۹ء کو کلکتہ میں ہوا تھا‘‘۔ (تحریر شاہی :ص/۱۱۲۔۱۱۳)

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here