علی گڑھ نمائش میں بین المذاہب سیمپوزیم

0
1345
All kind of website designing

مسلمانوں سے دیش بھگتی کا ثبوت مانگنا ایک حماقت ہے ، مسلمان گنگا جمنی تہذیب کے گلدستہ کا خوبصورت پھول ہیں۔ : گوسوامی سشیل مہاراج

علی گڑھ: علی گڑھ نمائش کے مکتا کاش منچ میں اسلامک انفارمیشن سینٹر، جماعت اسلامی ہند اے ایم یو علی گڑھ کی جانب سے ایک بین المذاہب سیمپوزیم منعقد کیا گیا اس سیمپوزیم کا عنوان تھا’’برائیوں کے خلاف مذہب کا کردار‘‘ اس سیمپوزیم میں بودھ مت ، جین مت، عیسائی مت، ہندومت اور اسلام کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب میں برائیوں کے ازالہ کے لئے تعلیمات اور عملی طریقوں کی وضاحت کی۔اس پروگرام کی صدارت پروفیسر سعود عالم قاسمی، سابق ڈین دینیات فیکلٹی ایے ایم یو نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شارق عقیل ، چیف میڈیکل آفیسر ہیلتھ سروس اے ایم یو نے نہایت باوقار طریقے سے انجام دئیے۔ تلاوت کلام پاک برادر عبداللہ شمیم نے پیش کیا۔ناظم اجلاس نے سیمپوزیم کے مرکزی موضوع کو تمام سنجیدہ شہریوں کے لئے غوروفکر کا اہم عنوان قرار دیا۔ 
دہلی سے تشریف لائے گوسوامی سشیل مہاراج نیشنل کنوینر انڈین پارلیمنٹ آف ریلجنس نے کہا کہ جماعت اسلامی مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے ہندوستان کے معروف مذہبی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر آج جمع کردیا ہے ۔ اگر تمام مذہبی گرو مل کر سماج سے برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں تو سیاسی نیتاؤں کی دال نہیں گلے گی انہوں نے کہا کہ مذہب میں دلوں سے لالچ اور خودغرضی کو نکالنے کی زبردست طاقت ہوتی ہے۔ ہندودھرم کے مہاراج نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں سے وفاداری کا ثبوت مانگنا سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ مسلمانوں کی دیش بھگتی تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔ مسلمانوں کو گنگاجمنی تہذیب کے گلدستہ کا خوبصورت پھول قرار دیتے ہوئے گوسوامی جی نے بہادر شاہ ظفر کی اس عظیم بہادری اور قربانی کا ذکر کیا جو انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی خاطر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہادر شاہ ظفر ہی تھے جن کے جھنڈے تلے ہندوستان کے تمام راجے رجواڑے مذہب، زبان اور ہرطرح کی عصبیت سے اوپر اٹھ کر جمع ہوگئے تھے۔ اتراکھنڈ سے تشریف لائے مہمان سماجی کارکن ڈاکٹر فرحت حسین نے عورتوں، دلتوں اور مظلوم طبقات کے ساتھ بڑھتے مظالم کے خلاف تمام مذہبی رہنماؤں کو ایک آواز ہونے پر ابھارا اور کہا کہ فرقہ واریت کسی بھی مذہبی تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔
بودھ مت کے صوبائی نمائندے کھیمندبودھ نے ہندوستان میں بابا بھیم راؤ امبیڈکر کی غریبوں اور دبے کچلے لوگو ں کے تئیں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آج بات سے آگے کر عمل کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دی کہ آج نفرت کا جوبیج بویا جارہا ہے اور مذہب کا جو غلط استعمال کیا جارہا ہے اس کے برے اثرات سے سماج کو بچانا ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوری، گھوٹالے ، ظلم وزیادتی اور فرقہ واریت کا مقابلہ صرف اور صرف مذہب ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ گیانی ہرپال جی، علی گڑھ نے گرونانک کی تعلیمات کا چرچہ کرتے ہوئے سماجی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جس سماج سے لالچ کی بیماری دور نہیں ہوگی اس کی اصلاح بہت مشکل ہے۔ فادرسنیل لوئک نے کہا کہ عیسائیت کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک طریقۂ زندگی ہے انہوں نے بائبل کے حوالے سے عدل وانصاف سماجی مساوات، غیر فرقہ واریت اور عدم تشدد پر زور دیا ۔ انہوں نے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ دہرے رویے کو سنگین برائی قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہندوستان کا خوبصورت چہرہ داغ دار ہورہا ہے۔ پروفیسر محمد ادریس، ڈین فیکلٹی آف انجینیرنگ اے ایم یو نے قرآن وحدیث کے حوالے سے کہا کہ جب تک انسان کے اندر جواب دہی کا احسا س نہ ہووہ ظلم وزیادتی، لالچ اور رشوت جیسے جرائم سے ہرگز باز نہیں رہ سکتا۔ اسلام خدا کا ایسا ہی تصور پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اندھیرے میں بھی گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر سعود عالم قاسمی نے تمام مذہبی رہنماؤں کے جذبات کی ستائش کی جوہندستان کی سالمیت اور اتحاد کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں اور اپنے اپنے مذہب کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے سماجی برائیوں کے ازالہ کا کام کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ جب تک ہندوستان کا دستور محفوظ رہے گا ہندوستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ پروفیسر قاسمی نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے جس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ مذہب اور مذہبی تعلیمات کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حقیقی مذہب وہ ہے جو دلوں میں برائیوں کے خلاف نفرت کی دیوار کھڑی کرتا ہے۔ پروگرام کے اختتام پر امیر مقامی مولانا اشہد جمال ندوی نے مہمانوں اور بطورخاص خواتین کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا کہ مذہبی تعلیمات اگر دلوں میں بیٹھ جائے تو کرپشن کی گنجائش باقی نہیں رہ سکتی۔ ہندوستان سے برائیوں کے خاتمہ کے لئے ہم سب کو کام کرنا ہے کیوں کہ سماجی برائیوں کا کوئی مذہب ، مسلک زبان اور علاقہ نہیں ہوتا۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here