مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
مقبوضہ فلسطین کے شیخ جراح علاقہ سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور ان کو نکال باہر کرنے کی اسرائیلی حکومت کی مہم نے القدس کو پھر سے میدان جنگ بنا دیا ہے، جنگ کی یہ آگ مسجد اقصیٰ تک پہنچ گئی ہے، ٢٧ رمضان المبارک کو اسرائلیوں نے مسجد اقصی میں گھس کر عبادت کررہے پر امن اور نہتے مسلمانوں پر حملہ کردیا، جس میں تین سو کے قریب مسلمان زخمی ہوئے اور کئی کی موت ہوگئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور روزانہ سو دو سو مسلمان عورتیں، بچے، بوڑھے جوان اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل نے تمام بین الاقوامی اصولوںاور قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر شہری علاقوں پر حملے اور بمباری کررہا ہے،تاکہ مسلمان ڈر،خوف اور دہشت سے علاقے کو خالی کردیں اور ان کے عظیم اسرائیل کی تشکیل کا خواب پورا ہوسکے، یوں کہنے کو تو یہقتل عام فلسطینوں سے ان کی زمینیں ہڑپ کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے نام پر کیا جارہا ہے، لیکن جن کی نگاہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی پر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ ہنگامہ ہے کیوں برپا۔
علاقہ میں الفتح کے جذبہ جہاد کے سرد ہونے کے بعد حماس واحد تنظیم ہے، جس میں اسرائیلیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہے،لیکن اس کے پاس عسکری قوت و طاقت اور جدید اسلحوں کی کمی ہے، اس لیے وہ اسرائلیوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیں،حماس نے گزشتہ دنوں اسرائیل پر چھ راکٹ داغے،لیکن اسرائیل کی فوج نے اسے ہدف پر جانے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا، اور اس حملے میں صرف ایک یہودی جہنم رسید ہوا، بدلے میں یہودیوں نے جو حملہ کیا تو بیس فلسطینی جاں بحق ہوگئے، حماس کے پاس جذبہ جہاد اور شوق شہادت دونوں ہے، لیکن ان کایہ جذبہ یہودیوں کے ناپاک ہدف کو ناکام کرنے کے لئے کافی نہیں ہے انہیں وسائل کی بھی ضرورت ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ یہودیوں کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے ہیں اور داخلی، خارجی طور پر وہ یہودی منصوبوں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے دلال فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ خالی کر کے گھر لوٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اردن اور شام کے بعض حصوں پر یہودیوں نے پہلے ہی سے قبضہ جما رکھا ہے، شام خانہ جنگی میں تباہ ہے۔ وہ اسرائیل سے کوئی پنگا نہیں لینا چاہتا کہ کہیں اور علاقہ اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے ، رہ گئے ترکی اور ایران۔ تو یہ بیان کی ۔حد تک فلسطین کے ساتھ ہیں۔
رہی ترکی کی بات تو اہل شعور دانش نے ہمیشہ اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھاہے کہ اس وقت عالم انسانیت میں ترکی ہی وہ واحد ملک ہے جو دنیا بھرمیں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر افتاد پڑی ہو وہاں ترکی کا یہ تاتاری خون اور اس کا اسلام پسند دل تڑپ جاتا ہے۔ ہم اس کی بے قراری اسرائیل کے ذر یعہ مظلوم فلسطینیوں کے لئے لے کر مال بردار جہاز کو سمند ر یہودی دہشت گردوں کے شدید حملے کیے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اسرائیل کی طرف سے 2009ء کی فوجی کارروائی اور جاری معاشی پابندی پر ترکی کے متعدد شہری مشتعل ہیں۔ گذشتہ سال ڈیووس میں ہونے والے اقتصادی سربراہ اجلاس میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اُردگان نے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے خلاف ترش الفاظ استعمال کیے۔ ہمیں یہ یاد ہے کہ2017 میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا ہزارو عورتوں آبرو تار تار کردی تھی ۔ اس موقع پر اپنی اور عزت بچانے کی غرض روہنگیا مسلمانوں کے لیے بنگلہ دیش ہجرت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔مگر بنگلہ دیش اپنی معاشی پسماندگی کا رونا رو رہا تھا۔ اس وقت ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے صوبہ انطالیہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھاکہ میانمار کی ریاست راکھائن میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘روہنگیا مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا۔
بعد ازاں جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی اہلیہ محترمہ امینہ اردغان نے بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں قیام پذیر روہنگیا مسلمانوں سے ملاقات کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا ۔ بے بس و بے سہارا اور لٹی پٹی روہنگیا مسلم خواتین سے گلے ملتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بھی میری آنکھوں نے دیکھا ہے۔ 2019 میں بدنام زمانہ وزیر داخلہ ہند امت شاہ نے کشمیر یوں کے گھروں پر اسلحہ بردار فوجیوں کو بٹھاکر جبراً وہاں دفعہ 370 منسوخ کرکے اس کی ریاستی درجہ کا حق بھی چھین لیا۔ ایسے نازک موڑ پر چھیانوے برس کا بزرگ ملیشیا کا سربراہ مہاثیر محمد اور ترک کا فرزند توحید رجب طیب اردغان اپنے سفارتی اور معاشی نقصانات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کھل کر میدان میں آیا ۔ او آئی سی کی ہنگامی میٹنگ بھی انہیں کی تحریک پر طلب کی گئی اور اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم پر مودی اور اس کی مسلم دشمن پالیسی کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ہاں !آ پ کی بات دم ہے اگر آپ یہ کہیں کہ ” القدس ” کے نام ساری دنیا کے مسلمانوں کو الو بنانے والے ایران اور اس کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر دہشت گرد اسرائیلی فوج پر کبھی ایک غلیل نہیں چلا ئی تو یہ بات صد فیصد درست اور ناقابل تردید ہے۔(مدیر)
ممکن ہے کچھ مدد بھی بہم پہنچاتے ہوں ،لیکن یمن میں ایرانیوں کی حوثی باغیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ ہے اور حوثی باغی کئی بار سعودی عرب کی مسجدوں کو نشانہ بنا چکے ہیں، ایسے میں ایران اگر کھل کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے سامنے آتا ہے تو سعودی عرب جنگ کا ایک اور میدان کھول دے گا، جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ ترکی کا مرد بیدار رجب طیب اردگان کے بیانات سخت آرہے ہیں؛لیکن ٢٠٢٢ء تک سابقہ معاہدہ کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد کے معاہدے انہیں کچھ زیادہ ہاتھ پیر پھیلا نے نہیں دیتے۔
مسائل کے حل کرنے کی ایک جگہ مذاکرات کی میز بھی ہوا کرتی ہے، لیکن اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر کئے گئے فیصلے کی کبھی پرواہ نہیں رہی، کیوں کہ اس کی پشت پر امریکہ کی مضبوط طاقت ہے اور امریکہ کی مجبوری یہ ہے کہ وہاں نظریہ ساز اداروں پر یہودیوں کا قبضہ ہے، اس لیے امریکی حکومت کو یہ لوگ جدھر گھماتے ہیں، گھومتی رہتی ہیں، امریکہ کی شہ پرہی اس نے اقوام متحدہ کی کتنی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، رہ گئی عرب لیگ تو یورپین ممالک نے مختلف مفادات اور تحفظات کا سہارا لے کر ان کے دانت توڑ رکھے ہیں، اس معاملہ میں بھی گزشتہ سوموار کو عرب لیگ کاورچوئل ہنگامی اجلاس ہوا، جس کا اکلوتا ایجنڈا القدس کی تازہ صورت حال اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی انتقامی کارروائی تھا۔ اس اجلاس میں مذمتی قرارداد اور اسرائیل کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کرنے کی بات کہی گئی ہے، اس کا کچھ حاصل نہیں ہے، مذمتی قرارداد بھی اسرائیل کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اور عرب لیگ کا کون ملک آواز اٹھائے گا، جتنے بڑے عرب ملک کچھ کر سکتے ہیں، ان سب نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ پہلے بھی ان کے حلق سے آواز نہیں نکلتی تھی، اب تو یہ آواز حلق میں ہی دم توڑ دے گی، شاید گھگھیا کر بھی اپنی بات نہیں رکھ سکیں، یہی حال اسلامی تعاون تنظیم کا ہے، ان کا بھی ہنگامی اجلاس ہوا اور بات مذمتی قرار دادسے آگے نہیں بڑھی،سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ؎
“,ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات”
در اصل دنیا میں زندگی گزارنے کے دوہی طریقے ہیں ، ایک ہے تنازع للبقاء اور دوسرا ہے بقائے باہم، اسلام نے تکثیری سماج میں جہاں کئی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، بقائے باہم کے اصول کو ترجیح دیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ ہجرت کے بعد میثاق مدینہ اس کی بہترین مثال ہے، جس نے مختلف قسم کے نزاعات اور قبائلی جھگڑوں کو امن و شانتی کا ماحول فراہم کیا، اسلام کے قبل زندگی تنازع للبقاء کے اصول پر چل رہی تھی؛جو طاقت ور تھا وہ غالب آکر فریق مخالف کو غلام بنا لیا کرتا تھا، شاعر نے اسی دور کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے۔
زندگی جنگ است جاناں بہر جنگ آمادہ شو
نیست ہنگام تغافل بے درنگ آمادہ شو
اسلام آنے کے بعد بھی یہ سوچ ختم نہیں ہوئی، پہلے لوگ جوع البطن بھوکے پیٹ ہوا کرتے تھے، اب طاقتوروں میں ایک اور بھوک آگئی جسے جوع الارض زمین ہڑپنے کی بھوک کہتے ہیں ، اس نے مختلف ملکوں اور علاقوں کو میدان جنگ بنا رکھا ہے ۔ اسرائیل بڑی طاقتوں کی شہ پر اسی بنیاد پر روئے زمین پر وجود پذیر ہوا اور آج فلسطینیوں کی زمین پر فلسطینیوں کے لیے ہی عرصہ حیات تنگ کئے ہوا ہے، بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں، عورتیں بچے شہید ہورہے ہیں اور زبانی جمع خرچی کے علاوہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ شوشل میڈیا پر ظلم کی کہانی جو تصویروں کی زبانی ہے، وہ دل کو بے چین، دماغ کو پریشان اور قلب و جگر کو چھلنی کیے دےرہی ہے، ہر ہندوستانی بے چین و بے قرار ہے، لیکن اس کے بس میں فتح و نصرت اور ظلم کے خاتمہ کی دعا کے لیے کچھ نہیں بچاہے۔ ہندوستان کے بعض ملی قائدین کے بیانات سوشل اور پرنٹ میڈیا میں گشت کررہے ہیں،لیکن اس کا فائدہ بھی دل کی بھڑاس نکالنے اور قلبی ہم آہنگی سے زیادہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی تمام ملی تنظیمیں مل کر عرب حکمرانوں پر اگر دباؤ بنائیں تو شاید کچھ بات آگے بڑھ سکے،لیکن کورونا کے اس دور میں ان تنظیموں کے سربراہوں کا جمع ہونا ہی کارے دارد۔ اس سلسلے میں مرض کا دور نہ ہوتا تو کانفرنس کرکے بھی پریشر بنایا جاسکتا تھا،لیکن موجودہ دور میں وہ بھی ممکن نہیں ہے اور اس سے اسرائیل جیسے پاگل ، انسانیت دشمن ملک سے بہت توقع بھی لگائی نہیں جاسکتی۔
ڈاکٹر اے پی جی عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ مضبوطی اور طاقت کے ساتھ صلح کی میز پر جانا اچھی بات ہے، اس سے فریق مخالف کمزور سمجھ کر دباتا نہیں ہے،لیکن اگر آپ کمزور ہیں، آپ کے پاس قوت نہیں ہے تو صلح کی میز پر بیٹھنا آپ کی مجبوری اور کمزوری سمجھی جاتی ہے اور وہاں بھی آپ کو دبانے کا کام ہی ہوتا ہے۔ یہی وہ سوچ تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے اگنی میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ آج جن ملکوں میں ایٹمی طاقت ہے،ان سے سب ڈرتے ہیں، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جن کے پاس قوت تھی انہوں نےویٹو کا پاور حاصل کر لیا ، جنوبی کوریا جیسا ملک امریکہ جیسے ملک کو آنکھ دکھانے لگتا ہے،کیوں کہ اس کے پاس بھی ایٹمی قوت ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک مسلم ملکوں کی ایٹمی طاقت کو ختم کرنے کے درپے اسی لیے رہے ہیں۔ عراق اسی نام پر تباہ کیا گیا، ایران پر پابندیاں اسی بنیاد پر لگیں اور ترکوں کے خلاف عالمی سازش اسی کا نتیجہ ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جو بقائے باہم کے اصول پر یقین نہیں رکھتے،قرآن کریم نے پوری استطاعت کے ساتھ قوت کی فراہمی پر زور دیا ہے، یہ قوت اس قدر ہوکہ مخالفین کے دل میں ہییت اور ڈر سما جائے۔برسوں سے جاری فلسطین پر ظلم وستم کی گرم بازاری کے خاتمے کی یہی ایک شکل ہے، صرف صلاح الدین ایوبی کی آمد کا انتظار اور الہی بھیج دے محمود کوئی کی دعا اور کلنڈر پرچھاپ دنیا کافی نہیں ہے، دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں دعاؤں کے ساتھ پر عزم ہوکر تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم ظلم سہتے رہیں گے، آہ و بکا کرتے رہیں گے اور ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں