سمیع اللّٰہ خان
مالیگاؤں کے مسلمانوں کے خلاف مولانا محمود دریابادی ٹائپ کے مولوی میدان میں اتر چکے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے اترے ہیں، مالیگاؤں والوں نے ایمانی جرا&تمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مساجد بند رکھنے اور تراویح کے سلسلے میں ظالمانہ لاک ڈاؤن کو تسلیم نہیں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر وائرل ہوئی تو، جہاں مالیگاؤں کے ہر مسلک و مکتب فکر اور سیاسی قائدین اور ملتِ اسلامیہ نے پذیرائی کی، انہیں اسلامی محبت کا پیغام بھیجا وہیں، دیگر شہروں جیسے ممبئی وغیرہ کے ذمہ دار قسم کے لوگوں سے مسلمانوں نے مطالبہ شروع کیا کہ ہمارے یہاں بھی مسجدیں کھلوائیں، یہ اثر مالیگاؤں کی مسلم قیادت کی برکت سے الله نے پیدا کیا، اس ایمانی اثر پر سرکار کے ہندوتوا شیطانوں کو مروڑ تو یقیناﹰ ہوئی، لہذاٰ ممکنہ اندازے کےمطابق سرکار کے موقف کی تائید کرنے والے لوگ جو علماء و دانشور وغیرہ کے بھیس میں ہر شہر میں موجود ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اپنے مضمون لیکر آچکے ہیں، کچھ آنے کی تیاری میں ہیں، بہرحال محمود دریابادی صاحب نے لکھا ہے کہ مالیگاؤں کے مسلم قائدین کا یہ فیصلہ و جرات غلط ہے، ایسا کرکے مالیگاؤں کے قائدین نے مسلمانوں کو پولیس کے ڈنڈے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، اور میں ممبئی میں ایسا نہیں کروں گا، ارے آپ پہلے سے سرکار کو یہ راستہ کیوں دکھا رہےہیں کہ وہ ڈنڈا اٹھائے؟ آگے یہ بھی لکھا ہیکہ میں کوئی قائد نہیں ہوں ۔ دریابادی صاحب کو غصہ اس بات پر آرہاہے کہ مالیگاؤں والوں نے یہ ہمت کیسے جٹائی کہ وہ کھلے عام یہ کہہ رہےہیں کہ مساجد کھلنے پر اگر پولیس کارروائی کرتی ہے تو ہم اس کی پرواہ نہیں کریں گے، اس جراتمندانہ جملے پر دریابادی صاحب زیادہ خفا ہیں، اچھا جی! اگر آپ قائد نہيں ہیں تو پھر کبھی مرکزی قومی سلامتی کے آفیسر اجیت ڈوبھال سے کیوں ملے آپ؟ اور کبھی آپ نے مضمون میں دعویٰ کیا کہ مجھے مہاراشٹر کے چیف منسٹر کا فون بھی آیا تھا؟ ممکن ہے سماجی و علمی حلقوں میں آپ کا کوئی معتبر وزن نہیں ہوگا جیساکہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے، دریابادی صاحب نے اپنے مضمون کےذریعے سرکاری ایجنسیوں کے لیے مقدمۃ الجیش کا کام کیا ہے، اور اس کے مضمون کے بین السطور سے اس اندیشہ کی مہک بھی آرہی ہے کہ آپ کے لطف و کرم سے مالیگاؤں کے بڑے لوگوں کو بھی سرکاری کارروائی کا سامنا ہوسکتاہے، آپ دراصلمیں ممبئی میں کچھ کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔ شدید افسوس کا مقام ہیکہ مولانا محمود دریابادی جیسے لوگ ہمارے سماج اور قوم کے کاندھوں کا استعمال کرتے ہوئے قومی نمائندگی کےنام پر سرکاری ہمنوا بن جاتےہیں اور ہر ہر موقع پر ملی غیرت ہو یا ملت کا موقف یہ لوگ اس میں سرکاری اثرات کوہی شامل کرتےہیں ۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سرکار اور پولیس کے حق میں کام کرنے والے کتنے سارے لوگ میرے دشمن ہوتے جارہےہیں، لیکن میں ملت میں گھس کر ملت کے خلاف سرکار نوازی کرنے کو نظرانداز کر ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ ایسے لوگوں سے دشمنی مول لینا براہ راست دشمنوں سے ٹکرانے سے زیادہ مضر ہے، لیکن میں ملت کی خیرخواہی کےنام پر ملت میں ذوچہرگی کو برداشت کرکے اپنی قوم کو بیوقوف بنانے پر خاموش کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ لکھنؤ میں یہی کام فرنگی محلی کرتےہیں ،وہی کام دریابادی صاحب یہاں کررہےہیں، اور کیا یہ پہلی بار کررہےہیں؟
ان کا ریکارڈ نکال کر دیکھیے آپ،کوونا بھگانے کیلئے موم بتی جلانے کی تائید کرنے سے لیکر ڈوبھال کی ملاقات تک،
ہرجگہ موجود ملتے ہیںدریابادی صاحب ۔
اور اب مالیگاؤں کے مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کرنے کیلئے میدان میں ہیں ۔ آپ چار اچھے کام کرکے قوم کو اپنی طرف راغب کیجیے اور پھر نازک مواقع پر انہیں سرکاری گائڈ لائن پر عمل کرنے کیلئے مجبور کیجیے یہ کیسی بدترین خیانت ہے؟
ہم کبھی بھی کورونا سے بچنے یا اس کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بالکل خلاف نہیں ہیں،کورونا کے آغاز میں خود میں نے جمعہ کی نماز گھر پڑھنے کے لیے اپیل کی تھی، لیکن اب میں کورونا کےنام پر عوامی سطح پر غریبوں پر لاک ڈاؤن مسلط کیے جانے کےخلاف ہوں اور مساجد بند کیے جانے کے خلاف ہوں، یہ میرا موقف ہے۔
اگرمولانا محمود دریابادی صاحب مالیگاؤں کے مسلم قائدین کے موقف سے اختلاف کرتے ہیں تو ہم ہرگز ایک لفظ بھی نہیں لکھتے، لیکن دریابادی صاحب نے مالیگاؤں کے مسلمانوں پر پولیس کے ڈنڈے برسنے کی دھمکی دےکر اختلاف کی تمام حدود پار کردی ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں