All kind of website designing

شہریت چھیننے والے عناصر کیخلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے والی تنظیموں اور ملی قیادتوں کی قربانیوں پر پانی پھیرکرصرف مخصوص فردکو ہیروبناکر پیش کرناپیڈ نیوز کا واضح ثبوت ہے 

نئی دہلی (نیا سویرا لائیو ڈاٹ کام) آسامی مسلمانوں کیلئے شہریت کا مسئلہ ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے۔ 1978میں شروع ہوجانے والی آسام کے بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں آباد مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر انہیں ریاست سے نکال کر بنگلہ دیش بھیجنے کی سازش کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ،جتنی بنگلہ دیش کیشکل میں نئے ملک کے قیام کی عمر ہے ۔کبھی وہاں کے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے تو کبھی ہزاروں کی تعداد میں وہاں مدتوں سے رہنے بسنے والے مسلمانوں کوغیر ملکی اور سرحد پار موجود شدت پسند عناصر کا حامی ہونے الزام لگاکر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔اس وقت بھی ہزاروں آسامی مسلمان اسی نوعیت کے متعدد الزمات کے تحت قیدو بندکی سزائیں کاٹ رہے ہیں اوران کی گرفتاریوں کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔بہرحال سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے ریاستی حکومت کے ساتھ مل اس مسئلے کو حل کرنے کی مثبت کوشش کی اور اس روز روز کی قتل وخوں ریزی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردینے کیلئے 1985 میں Assam Accord کی تشکیل راجیو گاندھی کی کوششوں سے مرتب کی جاسکی۔ چنانچہ آسام میں شہریت کے نام پرمسلمانوں کے ساتھ روا رکھی جارہی شدت پسندی پر لگام ڈالنے کیلئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی لیڈرشپ میں مر کز ی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعہCitizens

اس خبر کی ایک ایک سطر بتارہی ہے کہ یہ ایک پیڈ نیوز ہے جس میں صرف ایک مخصوص فرد ہیرو بناکر پیش کیاگیاہے۔۔جبکہ سترکی دہائی آسامی مسلمانوں کے حقوق اور انصاف کیلئے مسلسل لڑنے والے مخلص قائدین اور تنظیموں کی انتھک قربانیوں کو بھلادینے کی شرارت کی گئی ہے۔

hip Act -1955 میں section 6-A داخل کر کے اسے منظوری دی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا ،بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی، لیفٹ اور تمام غیر سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے بھی اسے قبول کیا تھا۔لیکن امن کی خوگر حکومت اور سیکولر عوام کی یہ منصوبہ بندی مقامی شدت پسند طاقتوں کو برداشت نہیں ہوئی ،لہذا انہوں نے اس کیخلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ایک مدت تک یہ تنازع وہاں کی عدالت میں سماعتوں کے دور سے گزرتا رہا ۔خیال رہے آسامی مسلمانوں کو انصاف دلانے اور جبراً ملک سے نکال باہر کرنے کی شرانگیزیوں کیخلاف ریاست کی دیگر مسلم جماعتوں ،سیکولر وطلبا ء تنظیموں کے ساتھ فدایے ملت مولاناسید اسعد مدنیؒ کے دور سے ہی جمعیۃ علمائے ہند پیش پیش رہی ہے۔یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ،بلکہ اس کے تمام دستاویزی ثبوت عدالت سے اس مقدمے کی فائلیں حاصل کرکے دیکھے جاسکتے ہیں۔بہر اسی مسئلے کواچھالنے کیلئے منظم طریقے سے مسلمانوں کی شہریت کیخلاف انتہاپسند عناصر نے 2009میں عدالت عالیہ میں عرضی داخل کردی ،جس پر آسام ہائی کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے مقننہ کے ذریعہ منظور کردہ قانون کے علاوہ مقامی حکومت اور تمام فریقوں کے اتفاق رایے سے منظور کئے گئے۔Assam Accordکو بھی مسترد کردیا۔ہائی کورٹ کے اس غیر متوقع فیصلہ کو تقریباً نصف درجن تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اسی سال مارچ2017میں چیلنج کردیا۔عدالت عظمیٰ میں اس فیصلہ کو چیلنج کرنے والوں میں جمعیۃ علمائے ہند کے ناظم عمومی مولانا سید محمود اسعد مدنی ، مولانا ارشد مدنی ،جمعیۃ علمائے آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل ،آل آسام مائناریٹی اسٹوڈینٹس یونین اورآسام سنملیتا مہاسنگھ کے ساتھ دیگر انصاف پسند تنظیمیں بھی مقدمے لڑ رہی ہیں ،جس کی سماعت کرتے ہوئے گزشتہ 12اکتوبرکو سپریم کورٹ نے لگ بھگ 17 لا کھ آسامی مسلمانوں کو راحت دی ہے۔جبکہ اس معاملے کی اگلی سماعت کیلئے15نومبر2017کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ 
عدالت عظمی کے حالیہ فیصلہ کو کورکرتے ہوئے متعدد اخبارات ،خاص کرریاست آ سام کے مقامی اخبارات نے خوشی کا اظہار کیا ہے اوراس کامیابی پر جمعیۃ علمائے ہند ،مولانا محمود مدنی ،مولانا سید ارشد مدنی،مولانا بدرالدین اجمل اور عدالتی چارہ جوئی کرنے والی ریاست کی مقامی تنظیموں کا شکریہ اداکرتے ہوئے ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سبھی فریق کا شکریہ بھی اداکیا ہے۔علاوہ ازیں دارالحکومت دہلی سمیت ملک بھر سے شا ئع ہونے والے معتبر اردواخبارات اور نیوز پورٹلس نے بھی انتہائی ایماندانہ اور اعتدال سے مذکورہ خبرپیش کی ہیں۔لیکن گزشتہ13اکتوبربروز جمعرات ایک معاصرردو اخبار نے اس خبر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے تمام تر اخلاقی تقاضوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے صحافت کے مقدس پیشہ کو شرمسار کردیا۔آسام معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے صرف ایک فرد کو اس کامیابی کا سارا کریڈٹ دیاگیا،جبکہ 1978سے ہی جو تنظیمیں اور انصاف پسند سماجی نمائندے آسامی مسلمانوں کو انصاف دلانے کیلئے انتھک جدو جہد کررہی ہیں ان کی قربانیوں پر پانی پھیردیا گیا۔غور کیجئے ! اگرکوئی صحافتی ادارہ اوراس کا رپورٹر اس طرح سے دوسروں کی قربانیوں کونظر انداز کر کے کسی فرد خاص کو ہی ہیرو بنانے کی روش پر عمل پیرا ہوتو اس ادارہ کی صحافت کیا معیار رہ جائے گااور اس کی خبروں اور رپورٹوں پر کس طرح سے بھروسہ کیا جاسکے گا؟خود کو ملک کا سب سے بڑا اور معیاری صحافت کا نقیب باور کرانے والے روزنامہ انقلاب کے 13اکتوبر کے شمارے کی پہلی خبر کا مطالعہ کرلیں ۔آپ خود سمجھ جائیں گے کہ کہ اس خبر میں صحافت کوتار تار کرنے کے ساتھ زرد صحافت یا پیڈ نیوز کے سارے ثبوت موجود ہیں ۔اگر اس صحافتی ادارہ میں مقدس پیشہ کے تقاضوں اور تقدس کا تھوڑابھی لحاظ باقی ہوتا تو ان تمام فریق اور عدالتی چارہ جوئی میں شامل مؤقر شخصیات اور اداروں کی جدوجہد کو بھی نمایاں طور پر رقم کیا جاتا اور سبھی کی قربانیوں کو داد تحسین سے نوازا جاتا۔مگر اے کاش کہ اس صحافتی ادارے اور اس کے نامہ نگار کو مادی منفعت صحافت کو رسواکرنے سے پہلے احساس ندامت کی توفیق مل جاتی اور ان کاضمیرانہیں ملامت کرتے ہوئے اس سے بتاتاکہ اگر مادی لالچ میں اسی طرح صحافت کے تقدس کو پامال کیا گیا تو آنے والے میں وقت اس اخباری ادارے کی خبروں اور باتوں پر معمولی شعور رکھنے والا انسان بھی اعتبار نہیں کرے گا۔اخبار کے ایڈیٹر اور جاگرن گروپ کے چیئرمین مہیندر گپتا جی سمیت سی ای او اور کل وقتی ڈائریکٹر سنجیو گپتاکو سنجیدگی کے ساتھ اس کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے ادارہ کو بدنام ہونے سے بچانا چاہئے، ورنہ ایک دن یہاں ملازمت کررہے عملہ سمیت کمپنی کے تمام ذمہ دارن عوام کے سامنے رسواہوجائیں گے اور کہیں پر بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ سکیں گے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here