روشن نقوش، تابناک تاریخ، زریں خدمات اور عوام کی اصلا ح و تربیت کا مثالی منبع و سرچشمہ
عین الحق امینی قاسمی
خانقاہ رحمانی مونگیر ہندوستان کی اُن عظیم و تاریخی اوروروحانی خانقاہوں میں سے ایک ہے ، جس کے روشن نقوش اور اپنے جلو میں مستقل ایک تابناک تاریخ رکھتی ہے، دین وشریعت کے تحفظ اورملک وملت کے لیے آزادی سے قبل اور بعد، دی جانے والی قربانیوں کی طویل سر گزشت یہاں سے وابستہ ہے ۔یہاں کے سجادہ نشینوں نے اپنے اپنے دور میں سطوت وسلطنت کو قدموں سے روند کر ،جس طرح دین وشریعت کے تحفظ کے لئے وقت کے امراءوسلاطین اورحکومتوں سے لوہا لینے کا کام کیا اور کسی کا منت کش ومرعوب ہوئے بغیر جس طرح سے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کرنے اور اپنے مطالبات تسلیم کرا نے پر انہیں مجبور کیا ،وہ خدا مستی اورخانقاہوں کی روایت میں ایک انوکھی اور حیرت میں ڈال دینے والی صرف سوسالہ کہانی ہی نہیں،بلکہ دعوت ، عزیمت اور خدمت کی طویل تر داستان ہے۔ خانقاہ رحمانی مونگیر کی یہ انفرادیت رہی ہے کہ یہاں کے مسند نشینوں نے صرف گوشہ نشینی کو کافی نہیں سمجھا ،امت مسلمہ کی جس طرح روحانی واخلاقی تربیت کو ضروری خیال کیا ،اُسی طرح ظاہری تربیت اور درپیش مسائل و مشکلات کے سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور دینی وشرعی حل کے لئے بھی خانقاہوں کی مسندسے اٹھ کرضرورت پڑی تووقت کے حکمرانوں سے مقابلہ کرنے اور کانٹوں کی سیج پر چل کرملک وملت کو بچانے اور بنانے کا کام بھی کیا ۔خانقاہ رحمانی اور مونگیر کا مختصر اور جامع تعارف اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے ،جسے زبان وقلم کے امین اور ایک سچے جانشین نے زندگی بھر جان وتن سے سینچا اورسنوارا ہو۔ چنانچہ۳ فروری ۲۰۰۲ءکو خانقاہ رحمانی مونگیر میں منعقد ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن کے تاریخی اجلاس میں پیر طریقت عارف باللہ ،مفکر اسلام ،امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ سابق سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر و سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے خانقاہ رحمانی کے حوالے سے بہت ہی معتدل بات اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا تھا:
” خانقاہ رحمانی کی سرزمین پرآپ تمام مہمانوں کااستقبال میری خوش گوار ذمہ داری ہے۔اس خانقاہ کے ساتھ علم و عمل ،عظمت وعزیمت کی تا ریخ وابستہ ہے۔ یہاں کے بوریہ نشینوں نے چراغ دل جلا کر شاہ راہِ زندگی روشن کی ہے ،اور گم کردہ راہ انسانون کو منزل کا پتہ دیا ہے،علم کے خشک سوتوں کو زندہ کیا ہے ،اُنہیں تازگی اور توانائی دی ہے۔ یہ خانقاہ آزدی ہند کا ایک اہم مرکز رہی ہے،خانقاہ رحمانی کی یہ سرزمین علم وآگہی ذکر وفکر،اخلاص و للہیت اور جہد مسلسل اور عمل پیہم کی سرزمین ہے ،اس نے نہ کبھی وطن عزیز پر غاصبانہ قبضہ کو قبول کیا ہے اورنہ مذہب پر آنے والی آنچ کو برداشت کیا ہے۔ماضی کی روایتوں سے آباد شہر مونگیر کی اپنی قدیم اور عظیم تاریخ ہے ،جس میں عظمت وتقدس اور اخلا ص و رو حا نیت ،شاہی اور فقیری،وطن سے محبت اور وطن کے لئے مر مٹنے کی طلب اور تڑپ شامل ہے۔ مونگیر کے ایک حقیر باشندہ خانقاہ رحمانی کے خادم ،بڑوں اور بزرگوں کے ایک کمزور وارث کی حیثیت سے میری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے عمل سے آپ کے یقین کو پختہ کروں کہ خانقاہ کی عظیم روایت اور مونگیر کی قابل قدر تاریخ کو کبھی ٹھیس نہیں لگے گی،نہ میرے قلم سے ،نہ میرے قدم سے “(ماخوذ: از خطبہ صدارت)
چنانچہ بانی خانقاہ رحمانی مونگیر قطب عالم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمہ اللہ 28/جولائی 1846ء کو اتر پردیش کے ضلع کان پور میں سید عبدالعلیؒ کے گھرپیدا ہوئے،دوسال کی عمر میں ہی یتیم ہوگئے ،قرآن کریم اپنے چچا سید ظہور علی سے مکمل کیا ،فارسی وعربی کی ابتدائی کتابیںمولانا سید عبد الواحد بلگرامی سے پڑھیں،جب کہ درسیات کی تکمیل مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے کی ۔ ابتدائی طور پر راہ سلوک مولانا کرامت علی رحمہ اللہ سے استفادہ کرتے رہے، بعد ازاں مولانا شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا ، یہاں تک کہ حضرت نے ہی آپ کو خلافت واجازت سے بھی سرفراز فرمایا اور تا حیات قدرو عظمت کی نگاہ رکھتے رہے۔
مونگیر کی سرزمین پر مستقل قیام:
حضرت مولانافضل رحماں گنج مراد آبادی ؒکے مریدین میں مونگیر واطراف کے اشخاص بھی تھے، جن کا آنا جانا حضرت گنج مرادآبادی ؒکی خدمت میں رہا کرتا تھا۔ یہ حضرات اپنے علاقے کی صورت حال بالخصوص قادیانیوں کے گمراہ کن اور ایمان سوز عقائد سے متاثر ہونے والے سماج کی حالت، اُن کے سامنے رکھتے تھے ،جس سے انہیں آگہی ہوتی رہتی تھی، مولانا محمد علی مونگیریؒ کو اللہ نے علم وفضل کے ساتھ ساتھ ورع وتقویٰ سے بھی نوازاتھا، تحریکی مزاج پائے ہوئے تھے ، ذکر وفکر سے خاص مناسبت اور لگاؤ تھا،سعادت مندی اور انوار ومعرفت کے جو آثا رآپ پرنمایاں تھے ،انہیں دیکھ کر قیام مونگیر کے سلسلے میں چند مخلص احباب کی طرف سے بار بار تقاضوں کے ساتھ ساتھ قطب وقت مولانا فضل رحماں گنج مرادآبادی ؒنے بھی محسوس کرلیا کہ قادیانیت کے خلاف یہ مہتم بالشان کا م مولانا سیدمحمد علی مونگیری ؒہی سے بدرجہ احسن ہوسکتا ہے ،اس لئے حضرت گنج مرادآبادی ؒ نے حضرت مونگیری ؒسے اس امر کا اظہار فرمایا ۔اس سلسلے کی مزید تفصیلات مولانا محمد الحسنی نے اپنی تصنیف ” سیرت مولانا محمد علی مونگیری “ میں یوں پیش کیا ہے :
” مولانا قیامِ مونگیر اور مستقل سکونت کے فیصلے میں کسی خاص نتیجے پر پہنچے بھی نہ تھے کہ ان کے بعض اہل تعلق اور مریدین نے مولانا کو بہت التجا واصرار سے وہاں قیام کرنے کی دعوت دی، ان اہل تعلق میں دلاور پور کے معزز شاہ صاحبان کے خاندان اور حکیم احمد اللہ خاں اور حاجی تراب علی کے خاندان کے احباب زیادہ نمایاں اور پیش پیش تھے،حاجی تراب علی نے ایک مرتبہ مولانا شاہ تجمل حسین بہاری سے اپنی اس خواہش اور آرزو کا اظہار کیا، انہوں نے جواب دیا کہ تم کو ایسی ہی عقیدت ہے توان کے لئے مکان بنواؤ حضرت کان پور سے برداشتہ خاطر ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ یہاںچلے آئیں ۔یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور فوراً بولے کہ میرا باغ حاضر ہے،قبول کرادیجئے ،میں اس میں مکان بنا دوں گا۔ حکیم احمد اللہ خاں کو مولانا سے کمال درجہ عقیدت ومحبت تھی ،خود مولانا نے بعض مواقع پر ان کے خلوص وجذبات کی تعریف کی ہے ،اور شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا نے باوجود اس کے کہ ان کا باغ نسبتاًچھوٹا تھا اس کو قبول کرنا پسند کیا۔اس باغ میں کچھ درخت آم کے تھے اور باقی زمین زیر کاشت تھی ،درختوں کے پاس حکیم صاحب نے ایک مختصر مکان بنوادیا ،اس کے بعد بعض اہل تعلق کی کوششوں سے زنانہ مکان بھی بہت جلد تیار ہوگیا۔حکیم صاحب کے انتقال کے بعد مولانا کے قیام کے دوتین سال کے اندر ان کی بیوی نے مسجد کے پاس ذاکرین وشاغلین کے لئے حجرے بنوادیئے اور رفتہ رفتہ یہ ایک جزیرہ سا بن گیا ،جہاں نفس کے کچلے ہوئے اور مادیت کے مارے ہوئے نہ جانے کتنے انسانوں کو پناہ ملی۔“( سیرت مولانا محمد علی مونگیری،ص:271)
اللہ کے فضل سے اس خانقاہ رحمانی نے اپنے قیام کے ابتدائی دن سے ہی خلق خدا کی اصلاحی ،اخلاقی وروحانی تربیت کے ذریعے مرکزیت حاصل کرلی۔یہاں تک کہ صوبہ بہارو بنگال کے علاوہ پورے ملک سے عام لوگوں کے علاوہ اہل علم ودانش کا غیر معمولی رجوع ہونے لگا ، بلکہ دیکھتے ہی دیکھتےافغانستان ایران،خراسان،چین،ملیبار،رنجبار،ممباسہ،روس اور عرب ممالک تک سے متوسلین ومستر شدین نے خانقاہ رحمانی سے استفادہ کیا اور اس کے فیض سے مستفید ہوئے۔ خانقاہ رحمانی کے ابتدائی احوال پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ قدس سرہ رحمانی لکھتے ہیں:
” جب آپ مونگیر تشریف لائے تو آپ کی رہائش کے لئے صرف تین کمرے بنے ہوئے تھے ،لیکن مونگیر کے قیام کے بعد رشد وہدایت کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا ،علماءکی آمد ورفت بہت بڑھی ،مہمانوں کا ہجوم ہوا ،اکثر سو سو مہمان ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ،تو پھر حویلیاں اور مہمان خانے بنے ،ذا کرین کے لئے حجرے تیار ہوئے ،اور خانقاہ اپنے رقبہ کی وسعت اور لوگوں کی کثرت سے چھوٹا سا پر رورنق محلہ نظر آنے لگی( دیار مرشد میں چند دن،ص: 62)
جسے روشن خدا کرے:
جامعہ رحمانی کے مقبول و بافیض عالم دین حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی اپنی کتاب خطبات سبحانی میں لکھتے ہیں :” انسان جب اپنی صلاحیت کو سمجھے ،بروئے کار لائے اور اسے اپنے اندر اجاگر کرے ،تابندہ رکھے ،تقوی اور طہارت کے ذریعہ مخلوق خدا کی خدمت کے کرے،دنیا بیزاری اور آخرت طلبی کے ذریعے کثرت عبادت اور حسن اخلاق سےاپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ قربان کر کے اس کے احکام کا پابند بن جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا خاص قرب عطاہوتا ہے،وہ بارگاہ الٰہی کے مقرب لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور مقام قرب کا یہ اثر ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالی اس کی آنکھ بن جاتے ہیں ،اس کا ہاتھ پاؤں بن جاتے ہیں اور اس کا دل ودماغ بن جاتے ہیں”۔ (ص: ۱۶۱)
شاید یہی وہ راز تھا کہ حضرت مولانا محمد علی مونگیر ی ؒ جس سمت جاتے لوگوں کا جم غفیر اُن پر ٹوٹ پڑتا اور بعض بعض دفعہ تو ہزار سے متجاوز افراد بغیر کسی پیش گی اطلاع کے ان مقامات پر قبل ازوقت موجود ہوتے ،جہاں آپ کا قیام ہوتا ۔خانقاہوں کی تاریخ میں رجوع الی الشیخ کی یہ کیفیت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے ، امیر شریعت رابعؒ لکھتے ہیں :
” جب کہیں سفر میں تشریف لے جاتے تو وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوتا تھا ،ہر اسٹیشن پر لوگ زیارت کے لئے موجود ہیں، جہاں قیام فرماتے پورا علا قہ امنڈ آتا ،ایک وقت میں ہزار ہزار آدمیوں کی میزبانی صاحب خانہ کو کرنی پڑتی ،آپ ضعف وناتوانی کے باعث پالکی پر چلتے ،لیکن کہاروں کو پالکی اٹھا نے کا موقع کہاں ملتا ،بلکہ عوام تو عوام علما اپنے کاندھوں پر پالکی اٹھاتے اور یہاں سے وہاں لے جاتے۔ایک جگہ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ : ”ندوہ کا رنگ خانقاہ میں بھی نمایاں تھا اور یہی رنگ آپ کی خانقاہ کو دوسری خانقاہ ہوں سے ممتاز کرتا تھا ،بے تعصبی ،وسیع النظری،ٹھوس عمل کے ساتھ گہرا علم یہاں قدم قدم محسوس ہوتا تھا ،راقم الحروف نے صغر سنی میں آپ کی وہ پر لطف اور پر کیف مجلسیں دیکھی ہیں جس میں بیک مجلس آپ کے پاس مولانا مرتضی حسن دیوبندی ،مولانا نثار احمد کانپوری ،مولانا ابراہیم سیالکوٹی ،مولانا سید سلیمان ندوی مولانا عبد الشکور لکھنوی اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہوغیرہ مختلف الخیال مشاہیر علماءہند جمع رہتے تھے اور کبھی لطف صحبت میں فرق نہ آتا اور آپ کے اخلاق کی وسعت کا حال یہ تھا کہ ہر شخص سمجھتا کہ جو نگاہ کرم مجھ پر ہے، وہ دوسرے پر نہیں” (دیار مرشد میں چند دن ،ص: 29)
تری خاکِ پا جسے چھو گئی:
یوں تو حضرت قطب عالم ؒسے اصلاح و ذکر کی تعلیم لکھنؤاور کانپور کی زندگی میں بھی لوگ لے رہے تھے ، مگر خانقاہ رحمانی کے قیام کے بعد سے اس سلسلے میں حضرت کی طرف سے جو توجہ خلق کی طرف متوجہ ہوئی ،وہ کثرت مشاغل کی وجہ سے دیگر جگہوں پراس پائداری کے ساتھ قائم نہیں رہ سکی تھی ، حالاں کہ اُن سب کوبھی اگر شامل کرلیا جائے تو مریدین کی تعداد بلا مبالغہ کئی لاکھ سے متجاوزہوگی ،مگر یہاں صرف 26/27برس میں براہ راست مرید ہوکر خانقاہ رحمانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ ہے ،جو الگ الگ مقامات سے تعلق رکھتے ہیں (مستفاد ، از:حوالہ بالا)
حضرت کی شخصیت کا اثر تھا کہ انہوں نے جس ” مٹی “ کو چھو لیا وہ ”سونا “ بن گیا چاہے وہ شخصیت کی شکل میں ہو یا ادارے اور تنظیم کی شکل میں۔ اس کا اندازہ آپ ان کے لاکھوں لاکھ دست گرفتہ صالحین اور دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو،جامعہ رحمانی و خانقاہ رحمانی مونگیر بہار جیسے سواسوسالہ قدیم اداروں اور تحریکوں سے بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ انہوں نے جس باتوفیق پر ایک بارتوجہ ڈال دی وہ ”کیمیا گر“ بنا ، جس انجمن کو قائم کیا وہ ”دارالعلوم ندوہ “ہوا اور جس مدرسے کو ہاتھ لگا یا وہ ملک کا ممتاز دینی ادارہ ”جامعہ رحمانی“ کہلایا اور جس خانقاہ کی ۱۰۹۱ ءمیں داغ بیل ڈالی تھی ،وہ سواسو سالہ تاریخ میں اصلاح وتربیت اور مرکز رشد وہدایت کا حصہ بن گئی ۔ اُن کی کر امت تھی کہ انہوں نے اتنی قلیل مدت میں خانقاہوں کو اعتبار بخشنے کا کارنامہ انجام دے کر ” بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل “ کی نظیر پیش فرما ئی اور دنیائے انسانیت کے لئے نہ صرف عظیم روحانی مربی بن کر تاریخ بناگئے ،بلکہ اسی ہندوستان کے اندر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانی اور اس کی ایمان سوز یلغارکے خلاف جو شخصیت میدان عمل کی سب سے پہلی صف میں نظرآتی ہے ،وہ کوئی اور نہیں ،بلکہ علمی وروحانی پیشوا ،قطب عالم حضرت مولانا سیدمحمد علی مونگیری رحمہ اللہ کی شکل میں صرف اور صرف آپ کی ذات تھی ،جنہوں نے اپنی بصیرت وبصارت ،علمی وقلمی اوراپنی خداداد صلاحیتوں سے ،نہ صرف مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ ختم نبوت کوتحفظ فراہم کیا ،بلکہ امت محمدیہ ﷺ اور اس کی نسلوں کے تعلق سے ادائے گی فرض کے طور پر کافر وکذاب ،ملعون قا دیانیوں کے ناپاک عزائم اور اس کی بیخ کنی کے تعلق سے ایسا تاریخی ومثالی کردار ادا کیا ،جسے رہتی دنیا تک بھلایا نہیں جا سکتااور کام کی ا ہمیت ،اس کی حساسیت او ر ”سنگین صورت حال “کے پیش نظر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قطب عالمؒ کے ”روشن کارناموں “میں ” عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور ردقادیانیت“ ایک ممتاز کار نامہ ہے ۔ حضرت مولانا سیدابوالحسن علی میاںندوی ؒ ،مولاناسید محمد الحسنی ندویؒ کی فاضلانہ وعقیدتمندانہ تحریر پر مشتمل کتاب ” سیرت مولاناسید محمد علی مونگیری ؒ“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
” اس عظیم انقلاب انگیز تحریک( ندوة العلماء) کے بانی ہونے کے علاوہ ان کی دوسری حیثیتیں بھی مسلم وممتاز ہیں ،وہ ایک جلیل القدر عالم ،ایک عظیم المرتبت مبلغ ومصلح بھی ہیں، عیسائیت و قا د یا نیت کے مقابلے میں ان کا کارنامہ اجتہادی وتجدیدی شان رکھتا ہے “ ۔ (مقدمہ سیرت مولانا محمد علی مونگیری ،ص: 22)
جامعہ رحمانی : ممتازدینی درسگاہ :
اللہ تعالی نے جس نور ایمانی اور فہم وبصیرت سے حضرت قطب عالم کو نوازا تھا ، اُس کا فیض صرف خانقاہ رحمانی کے ارد گردتک ہی محدود نہیں تھا،بلکہ اللہ نے آپ کو ذکر وفکر اور تصوف وسلوک کی راہ میں کاملیت اور غیر معمولی انہماک کے ساتھ ساتھ وقت کی نباضی اور زمانے کی صورت حال پربھی گہری نگاہ عطافرمائی تھی،اس لئے جہاں آپ نے خانقاہ رحمانی قائم فرمایا، وہیں علم ومعرفت کی تحصیل کے لئے ”جامعہ رحمانی “ بھی قائم کیا، تا کہ خانقاہوں کی راہ سے بننے والی عملی طبیعت علم سے روشن رہے اور عبادت وریاضت اور اطاعت و خدمت کے درمیان” اعتدال “ ہر حال میں علمی جہت سے قائم رہے ۔ ایک موقع سے حضرت قطب عالم نے فرمایا تھا کہ :
”علماءکرام! آپ حضرات تو کتاب اللہ اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ اٰلہ الصلاۃ والسلام اور تمام سنن و آثار سے واقف ہیں،جن میں اگر آپ کے فضائل ومحامدمذکو رہیں تواس کے ساتھ آپ کے فرائض علمی اور عملی بھی مذکور ہیں،ضرورت ہے کہ آپ غور وفکر سے کام لیں اور غفلت کو دور کریں۔ اگر آپ ورثة الانبیاءہیں تو صرف علمی اور فنی جہت کے آپ وارث کہلانے کے مستحق ہیں ،نفس نبوت میں تو آپ کی وراثت نہیں ہے،بس آپ کا فرض ہے کہ انبیاءکرام کے احوال وواقعات یعنی اعلان حق ،اعلائےکلمة اللہ کے لئے جان توڑ سعی وکوشش نیز ارشاد عام کے ساتھ خدمت خلق،اور ظلم وجور سے مخلوق الہی کو نجات دلانا اور اپنی قوم کو ایک نظم کے ساتھ رکھنا اور ملحدین وزنادقہ کے شبہات کا ازالہ کرنا یہ سب چیزیں آپ کے فرائض میں داخل ہیں ( مسلمان ایک امت ایک جماعت ،ص:5)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جامعہ رحمانی کی بنیاد جن اصولوں اور اعلی مقاصد کے تحت 1927ء میں رکھی گئی تھی ،وہ اپنے نہج پر آج بھی سولہ آنہ قائم رہ کر سوسال پورا کرنے جارہا ہے ، یہاں کے طلبا اساتذہ اپنی ممتاز خصوصیات کی وجہ سے دور سے پہچان لئے جاتے ہیں،یہاں کے فضلاءاپنی فکری وفنی اور علمی و عملی مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ ،ستھراذوق، فکری بلندی، خدمت خلق اورقوموں کو متحد رکھنے میں جی توڑ سعی وکوشش کرتے ہیں،ظلم وجور سے مخلوق الہی کو نجات دلانے اور انہیں ملحدین وزنادقہ کی فکری گمراہی سے باہر نکالنے اور مختلف جہتوں سے شبہات کا ازالہ کرنے کو اپنا فر یضہ سمجھتے ہیں۔جامعہ کے فضلاءکی یہ وہ خوبیاں ہیں جس نے جامعہ رحمانی کو اعتبار ووقار کے ساتھ ہندوستان کے ممتاز ترین اداروں میں انفرادیت بخشی ہے۔
گاندھی جی ،حضرت قطب عالم ؒکے دربارمیں:
اسی طرح وقت اور حالات پر بھی آپ کی گہری نگاہ رہا کرتی تھی، اس معاملے میں بلا خوف وخطر رائے دینے یا سرداران قوم وملت کو اُن کے غلط بیانی پر دوٹوک جواب دینے سے بھی آپ نہیں چوکتے اور بروقت آپ ایسی بات کہہ دیا کرتے تھے کہ سامنے والا اپنی بات واپس لینے پر مجبور ہوجا تا اور آپ اس کے دام سے بخیر وخوبی نکل جاتے ،چنانچہ جب تحریک خلافت اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی ،اس نے ابھی عوامی تحریک یا ہندو مسلم ایکتا کی شکل نہیں اختیار نہیں کی تھی ،اس کو مضبوط تر کرنے کے ارادے سے خلافت کے دیگر زعماءقوم وملت کے ساتھ گاندھی جی بھی حضرت مولانا سید محمد علی ؒ مونگیری کی خدمت میں حاضری دینے مونگیرآئے تو بڑے ادب سے گاندھی جی نے کہا کہ :
” مولانامیں نے حضور ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے اور محمد ﷺ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا ہوں،آپ دنیا کے عظیم ترین انسان تھے ،اس کے علاوہ قرآن کریم کا مطالعہ بھی میں نے کیا ہے، یہ عظیم کتاب ہے اور اس نے میرے دل ودماغ پر گہرا اثر کیا ہے “حضرت قطب الاقطاب بڑے ذہین انسانتھے ،ان کی سادہ زندگی سے ذہانت وجراۤت کا اندازہ لگا ناسب کے بس کی بات نہیں تھی ،گاندھی جی نے سمجھا ہوگا کہ اِن چکنی باتوں سے شاید یہ ” مرد دانا“ مرعوب ہوکر اُ ن کی ثنا خوانی کرنے لگے گا، مگرحضرت کے انداز ونیاز نے یہ ثابت کردیا کہ
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کہ لوٹ آیا
حضرت مونگیری علیہ الرحمہ اُن کی باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے اور جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تو حضرت نے پوچھا : ” مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیے جو آپ کو پسند نہیں آئی اور آنحضرت ﷺ کی سیرت کے اُس کمزور پہلو سے آگاہ کیجئے جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا “ گاندھی جی اس سوال کے لئے تیارنہ تھے ،کچھ چونکے اور فوراً بولے : ایسا تو کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا ،اُس پر حضرت مونگیری ؒ نے بڑا جرا&ت مندانہ سوال کیا کہ : تو پھر آپ نے ابھی تک اسلا م قبول نہیں کیا ؟گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ مولانا خفا ہو گئے اور فرمایا کہ آپ نے جو کچھ کہا غلط ہے ،آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں،صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لئے اُنہی کی بولیاں بولا کرتا ہے“۔(مہر منیر ،ص:272 بحوالہ دیار مرشد میں چند دن،ص: 42/43)
مولانا محمد علی مونگیری ؒ نے یوں تو قادیانیت کی تردید میں سو سے زائد کتب ورسائل لکھے ہیں اور ان میں سے بیشتر کتابوں پر اپنے نام کو مخفی رکھا ہے، اس لئے طالبین اور تبصرہ نگاروں کے لئے ان کتابوں تک رسائی آج تک ایک مشکل مسئلہ بنا ہواہے ، مگر یہاں اس عاجز مقالہ نگار کی طرف سے ”مشت نمونہ ازخروارے “ کے طور پر چند ایک کتابوں کا ناتمام تعارف پیش کیا جا رہا ہے ،بعض کتابیں ضخامت میں گرچہ مختصر ہیں ،مگر دلائل وبراہین اور اپنے انداز بیان میں ایسی جامع ہیں کہ ماضی میں بھی ان کے ذریعے امت کو بڑا فائدہ ہوا ہے اور مابعد بھی، اہل علم وفضل نے انہیں ” بنیاد اور میل کا پتھر “مان کر قادیانیت اور دیگر فرقہ ضالہ کے خلاف مثالی اور تاریخی کردار اداکیا ہے ،ذیل میں اُن کتا بوں میں سے بعض کا تعارف اس طرح ہے :
فیصلہ آسمانی:
قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری ؒ کی یہ تصنیف ،رد قادیانیت پر پہلی تصنیف ہے ،جو تین حصوں میں باضابطہ لکھی گئی ہے ، حضرت مولانا ؒنے اس کی تصنیف میں قوت استدلال کا خاص اہتمام فرمایا ،باتوں کو مدلل اور مضمون نہایت آسان لفظوں میںپیش کرنے کی کوشش کی ہے ،اس میںمضبوط گرفت اور قدر ےتفصیل پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ آج تک پوری قادیانی برادری کی طرف سے اس کا جواب نہیں بن پڑا،کتاب کی اہمیت وضرورت کے پیش نظر حضور والاؒ کی حیاتِ مستعار ہی میں اس کے تین ایڈیشن نکل گئے تھے۔
شہادت آسمانی:
دراصل یہ کتاب حضرت مونگیر ی ؒکو ا س لئے لکھنے کی ضرورت پیش آئی کہ 1312ھ میں رمضان کے مہینے میں اتفاقاً چاند اور سورج میں ایک ساتھ گہن لگ گیا،بس کیا تھا ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا “ مر ز ا ئیو ں نے اپنے حق میں نیک فال لیتے ہوئے یہ حدیث عام کرنے کی کوشش کی کہ حدیث میں آیا ہے کہ ” امام مہدی کے زمانے میں دونوں گہن کا ایک ساتھ اجتماع ہوگا “ اس اتفاق کو مرزا کی مہدویت اور اس کے اعلان نبوت کی تصدیق کے طور پرعلی الاعلان بیان کیا جانے لگا۔حضرت ؒ نے شہادت آسمانی کی دو جلدوں میں بڑے مضبوط دلائل ، ماہرین فلکیات کے اصول وضابطے کی روشنی میں مختلف حوالوں کے ساتھ اس ” خام خیالی“ کا نہ صرف شاندار جواب دیا ہے ، بلکہ کذب وافترا ءکو اس کے منھ پر مارکر ہمیشہ کے لئے عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کا اہل حق کوحوصلہ بخشا۔
ابطال اعجاز مرزا:
یہ مستقل کتاب نہیں ،بلکہ ایک رسالہ ہے، مگر انداز بیان اور اسلوب نگارش نے” اپنے منھ میاں مٹھو“مرزا کو منہ کے بل گرنے پر مجبور کردیا ، ہوا یوں کہ انہوں نے اللہ سے کہا تھا کہ میرے اعلان نبوت کی تصدیق میں کوئی ایسی نشانی دکھلادے جو انسانی قدرت سے بالا تر ہو ،اگر تونے نہیں دکھایا تو میں خائب وخاسر ،بلکہ اس سے بھی بد تر ہوجاؤں گا ،جیسا کہ لوگ مجھے سمجھ رہے ہیں ۔چنانچہ جب رب کی طرف سے کوئی اعجاز رونما نہیں ہوا تو اس نے خود ہی ایک سے پیسے دے کر عربی قصیدہ لکھوا کر طبع کرا دیا اور صلاح کاروں نے اسے خوب تشہیر دینے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ” اعجاز کا ظہور“ہوگیاہے۔ مگر اللہ کا ولی ”جھوٹ پر پردہ “”چوری اور سینہ زوری“ کے سہارے گمراہی کو کہا ںبردا شت کرسکتا ہے ، آپ نے اِس سارے کھیل کے پیچھے کی اصل حقیقت کو بزور قلم بیان کر کے اس کے ” خودساختہ“ اعجاز کو سدا کے لئے باطل قرار دیدیا،اس طرح شاطردماغ کا قاعدے سے پردہ فاش کیا گیا ۔
چیلنج محمدیہ:
یہ بھی ایک رسالہ ہے ،جسے حضرت مونگیریؒ نے رد مرزائیت پر لکھا ہے اور اس میں اس کے دعووں کا جواب اسی کی زبان میں دینے کی منفردوکامیاب کوشش کی ہے ،رسالے کی اشاعت وقت کے تقاضے کے اعتبار سے متعدد زبانوں میںکی گئی ،جن میں عربی،فارسی اور اردو زبان قابل ذکر ہے،طرہ یہ ہے کہ آج تک گروہ قادیانی کی طرف سے اس کا جواب نہیں بن سکا۔
مرزائی نبوت کا خاتمہ:
یہ رسالہ در اصل حضرت قطب عالم ؒ نے ختم نبوت کے مسئلے پر لکھا ہے ،سب سے پہلی بار اس کی اشا عت 1914ءمیں ہوئی تھی اور دوسرا ایڈیشن غالباً 1925ءکے آس پاس شائع ہوا ، ختم نبوت کے مسئلے پر اس رسالے سے اچھی روشنی پڑتی ہے۔
معیار صداقت:
گروہ ِقادیانی کے سرخیلوں نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ جو کوئی مرزا پر ایمان نہیں لائے ،وہ کافر ہے اور اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہوگی۔یہ رسالہ اسی فتویٰ کے رد میں لکھا گیا ،جس میں ” بکواس “ کا علمی والزامی جواب دے کر اس کے فتوے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور دوٹوک کہا کہ تمہارے اسلام سے ہمارے تئیس کروڑ ایمانی بھائیوں کو کوئی مطلب نہیں۔ چشمہ ہدایت:مرزا اپنے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے ستر جھوٹ بولاکرتے تھے ،ایک مضمون سے متعلق ان کے کئی کئی اقوال سامنے آتے ،جس سے اس کی تضاد بیانی واضح ہوتی ہے،مولانا محمد علی مونگیری ؒ نے اس رسالے میں تقریبا ً 18/ اقوال نقل کئے ہیں ،جن میں اس کے ان کذب بیانی کو بالتفصیل لکھ کر اس کا ایسا مدلل جواب دیا ہے کہ آج تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آسکا ۔
عبرت خیز:
یہ رسالہ بھی حضرت نے رد میں ہی لکھا ہے ،چنانچہ قادیانی، بزعم خودخوش فہمی میں مبتلا ہوکر مرزائیوں کی کامیابی اور اہل حق کی ناکامی کا ڈھول پیٹتے نہیں تھک رہے تھے،ا سی کے جواب میں حضرت مونگیری علیہ الرحمہ نے عبرت خیز نامی رسالہ لکھ کر اس کے سازشی تابوت میں کیل ٹھونکنے کا تا ریخی کام کیا۔
مسلمان ایک امت ایک جماعت:
یہ کتاب 54/صفحات پر مشتمل ہے ،دارالاشاعت امارت شرعیہ پٹنہ نے اسے نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے مکتبہ سے شائع کیا ہے، کتاب میں علماءکی ذمہ داریاں ،مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے نقصانات ،اسلامی نقطہ نظر سے جماعتی زندگی کی اہمیت،مسئلہ امارت کا ماخذ امیر کا تقرر اور مسلمانوں پر اُن کی ذمہ داریاں،تنفیذ امارت میں سمع وطاعت کی ضرورت واہمیت وغیرہ جیسے مسائل پر متن کی حیثیت سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ،مطالعہ کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کتاب کی سطر سطر سے علم واخلاص کا دریا رواں ہے ۔
موجودہ ماحول میں حضرت مونگیری ؒکی خدمات کے دیر پا اثرات:
حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒنے قادیانیت کوبیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے جو سلسلہ شروع کیا تھا ،اس کے رد کا جو طریقہ اپنا یا تھا ،جو اصول وضابطے اپنے متعلقین کو بتلائے تھے ،جس انداز کی تربیت کی تھی ،یہ سلسلہ دراز تر ہوتا گیا اور آپ کے بعد بھی آپ کے مریدین ،متوسلین اور علمی جانشینوں کے ذریعہ قادیانیوں کی تردید اور اس کا علمی،عملی اور فکری طریقوں سے تعاقب کیا جاتا رہا ہے،چنانچہ آپ کے بعد مولانا مرتضیٰ حسن ؒنے دورے کئے ،مونگیر کے بعد بھی مناظروں کا سلسلہ جاری رکھا ،کئی اہم اور قیمتی کتاب ورسائل بھی ترتیب دئیے ،جس سے قادیانیت کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں۔ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے اس فتنے کی طرف خاص توجہ دی اوربہاول پور(موجودہ پاکستان) مقدمے کی ایسی مضبوط پیروی کی کہ جج صاحبان کو قادیانی کے خلاف فیصلہ لکھنے پر مجبور کردیا ۔حیات مسیح پر علامہ نے زبردست رسالہ ”التصریح بما تواتر فی نزول المسیح“کے نام سے لکھ کر شاندار تعاقب کیا ۔اسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مجددملت مولانا اشرف علی تھانویؒ،مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ، حضڑت مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ، حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ،حضرت مولانا بد رعالم میرٹھی ؒاور حضرت مولانا محمد منظورنعمانی ؒ وغیرہم “کی اس سلسلے میں تقریری وتحریری خدمات بھی قابل ذکر وصد افتخار ہیں۔
پڑوسی ملک میں رد قادیانیت پر آپ ؒ کی خدمات کا اثر:
متحدہ ہندوستان میں جب قادیانیوں کی کمر توڑ دی گئی اور زندگی اور موت کے درمیان قادیانی فرقہ تڑپ تڑپ کر اپنی آخری سانس لے رہا تھا ،تبھی ملک کے بٹوارے کا سانحہ پیش آگیا ،اس درمیان اس نے مضبوط انداز میں نئی حکومت میں دخیل بن کر او راعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر اپنے مذہب کے فروغ میںنمایاں کردار نبھایا ،اس نے پاکستان کے لاہور میں ” ربوہ“ کو اپنا مرکز بنایا اور وہاں سے کام کو ذرا دمدار انداز میں شروع کیا۔مگرعلماءدیوبند کے جیالوںاور جماعت اسلامی کے رضاکاروں نے ایکشن پلان تیار کر اس کو بیخ بن سے اکھاڑ پھینکنے کا کام کیا اور اپنی گرفتاریوں کے ذریعے اس کے کفر والحاد کا پردہ چاک کیا اور وہاں اسے قانونی طور پر اسلام سے خارج کر کے اقلیت قرار دیا گیا۔ بعد میں بے شمار علماءنے اس کے خلاف مضبوط محاذ کھڑا کیا ، ان میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ؒ جو امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ بانی مسلم پرسنل لا بورڈ کے خاص استاذ رہے ہیں ، انہوں نے بھی قرآن کریم ،احادیث رسول ﷺ اور آثار صحابہ ؓ کی روشنی میں مسئلہ ختم نبو ت پر حرف آخرکے طور پر کام کیاہے اور متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرحبیتے دنوں میںحضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری ؒ کی سربراہی میں علماءبرادری کے توسط سے اس کی جڑوں کو پڑوسی ملک سے بھی اکھاڑ نے کی کامیاب کوششیں ہوئی ہیں ۔اس طرح جو جنگ آپؒ نے قادیانیوں کے خلاف آخری دم تک جاری رکھی اور اس کے لئے اپنے جانشینوں کو تیار کیا تھا ، بعد میں بھی اس مسئلے کی ضرورت کے پیش نظر دیگر علماءکرام اور اہل نظر نے آپ کے چھوڑے ہوئے نقش کو تابندہ کر نے میں اپنی عمریں بتائی ہیں،بلکہ حال تک ملک کے طول وعرض کے مدارس اسلا میہ ،افکار مونگیریؒ کو عملی جامہ پہنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایشیاءسمیت بطور خاص ازہر ہند، مادر علمی دارالعلوم دیوبندمیں ”شعبہ تحفظ ختم نبوت “کے نام سے باضابطہ ایک شعبہ قائم کردیا گیا ہے، جس سے رہتی دنیا تک قادیانیوں کی بیخ کنی کی جاتی رہے گی او ر ” عقیدہ ختم نبوت “کے تحفظ کے لئے داعی اور جیالے تیار ہوتے رہیں گے ،اس طرح آپ کے روشن کارناموں کے دیر پااثرات سے بعد کے مرحلوں میں بھی ملت اسلامیہ اپنے ایمان وعقائد اور افکار وخیالات کو پاکیزہ کرتی رہے گی اور یوںدعا گو ہوگی
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز بر داری کرے
این خانہ ہمہ آفتاب است:
مولانا ؒ جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ سادات کا ہے، اور پچیسویں پشت میں ان کا شجرہ شیخ المشائخ سیدناعبد القادر جیلانی ؒ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک اللہ والے اور ولی کامل گذرے ہیں ،خود آپ کے دادا سید شاہ غوث علی ؒ صاحبِ نسبت بزرگ تھے ،جنہیں بعد میں اپنے شیخ ومرشد کی سجادہ نشینی بھی حاصل ہوئی تھی ،انہوں نے ہی فرمایا تھاکہ میری نسل میں ہمیشہ ولایت باقی رہے گی ۔ حضرت مولانا فضل رحمٰں گنج مرادآبادی ؒ نے آپ ؒ کو1312ھ میں خلافت ودستار سے نوازا ، بلکہ آج بھی آپؒ کے بعدنسلاً بعد نسل ملک کے طول وعرض میں رشد وہدایت اور علم وعمل کا چراغ روشن کر نے میں خلف الرشید مولانا سید شاہ لطف اللہ رحمانیؒ،امیر شریعت رابع ، مجاہد آزادی حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور سابق سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر،مفکر اسلام ،امیر شریعت سابع،سرپرست جامعہ رحمانی مونگیروجنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈحضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی ؒکے مثالی اور تاریخی کارنامے نہ صرف روز روشن کی طرح عیاں ہیں،بلکہ ضرورت ہے کہ ان روشن کارناموں کو بھی سنہرے حروف میں تفصیلاً لکھاجائے ،تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کی پاکیزہ روایات ،اور روشن کارناموں کا بخوبی علم ہوسکے اور اسی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کو ڈھال کر کامیاب انسان بھی بن سکیں او رشہنشاہ کونین ﷺ کی سنت وشریعت پر عزیمت اور حوصلوں کے ساتھ زندگی گذا رسکیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قطب عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری ؒنے جو علمی وفکری رسوخ اپنے اکابرین و اہل اللہ سے پایا تھا اور جس نہج پر آپ نےخانقاہ رحمانی کی بنیاد ڈالی تھی اُن تمام صفات کے ساتھ خانقاہ رحمانی، آپ کے بعد بھی نسلاً بعد نسل تشنگان معرفت کے ایک بڑ ے طبقے کو جام ِ عشق اور ساغر معرفت کے ذریعے نہ صرف سیراب کرنے کامبارک کام کررہی ہے ،بلکہ خدمت خلق،اور ظلم وجور سے مخلوق الہی کو نجات دلانے اور اپنی قوم کو ایک نظم کے ساتھ رکھنے اور ملحدین وزنادقہ کے شبہات کا ازالہ کرنے کا کام بھی برابر کرتی چلی آرہی ہے ،خانقاہ رحمانی کی یہ وہ خوبیاں ہیں اورفکر ونظر ،عزم وحوصلہ،جر ئت ،عزیمت اور خدمت وسلوک میں وسعت ورواداری کی ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو اسے دوسرے معاصر خانقاہوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
نائب صدر جمعیہ علماء بیگوسرائے ،بہار
ناظم معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر کھاتو پور
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں