فیس بک انتخابات میں نفرت انگیزمواد کی تشہیر کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا
میم ضاد فضلی
نئی دہلی : فیس بک چار ہندوستانی ریاستوں میں انتخابات کے دوران غلط معلومات کی تشہیرکو روکنے کی کوششوں کے تحت نفرت انگیزموادکوکم کرنے سمیت متعدد اقدامات اٹھا رہاہے۔فیس بک پرالزام ہے کہ اس کی ہندوستان کی سربراہ بی جے پی کی قریبی ہیں۔سوشل میڈیا کمپنی نے اپنے بلاگ پوسٹ میں لکھا ہے کہ فیس بک ان اکاؤنٹس سے موادکی تقسیم کو عارضی طور پر کم کردے گا،جنہوں نے حال ہی میں کمپنی کی پالیسیوں کی بار بار خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ کچھ خاص قسم کے موادموجودہیں ، جیسے نفرت انگیز تقریر ، جو فوری طور پر آف لائن نقصان پہنچاسکتے ہیں، ان ریاستوں کے انتخابات میں تشدد پھیلانے کے امکان کو کم کرنے کے لیے ہم اس مواد کی تقسیم میں تیزی سے کمی کریں گے جس کی ہماری ٹیکنالوجی نفرت انگیز تقریر ، تشدد اور اشتعال انگیز تقریر کے طور پر شناخت کرتی ہے۔بلاگ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ مواد فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے ہٹا دیا جائے گا لیکن جب تک یہ طے نہیں ہوتااس کاشیئر کم ہوجائے گا۔ماضی میں فیس بک بھارت میں اپنے پلیٹ فارم پر نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کے طریقے پر تنقید کا نشانہ رہا ہے۔بھارت فیس بک ، اس کی گروپ کمپنیوں – واٹس ایپ اور انسٹاگرام کے لئے ایک بہت بڑا بازار ہے۔اپنے بلاک میں ، فیس بک نے لکھا ہے کہ اس نے ہندوستان اور پوری دنیا میں انتخابات سے سبق سیکھا ہے اور اس نے تمل ناڈو ، مغربی بنگال،آسام ، کیرالہ اور پوڈوچیری میںانتخابات کے دوران نفرت انگیز تقریر اور پروپیگنڈے کو روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
یہ تو رہی حالیہ اسمبلی انتخابات اور اقلیتوں و دلتوںکی ماب لنچنگ کے لیے سوشل میڈیا پر ہندو شدت پسند گروپس کی جانب سے غلط اور جھوٹی افواہیں پھیلا نے کی بات ۔ جس پر دیر سے ہی صحیح مگر قابل تعریف قدم اٹھایا ہے۔
فیس بک اس سے قبل 2020 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی یہی کارنامہ انجام دے چکی ہے۔ بی بی سی کی اطلاع کے مطابق 2020 کے امریکی انتخابات سے قبل بھی امریکی انٹیلی جنس کی اعلیٰ قیادت نے انتباہ کیا تھا کہ بیرونی طاقتیں ‘کھل کر یا ڈھکے چھپے انداز میں امریکی ووٹروں کو کسی ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی جانب راغب کریں گی اور بیرونی طاقتوں سے ان کی مراد روس، چین اور ایران تھے۔لہذا امریکہ کے صدارتی انتخابات کو متنازع بننے سے روکنے کے لیے ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب اور ٹک ٹاک کی جانب سے متعدد اقدامات اٹھانے کا علان کیا گیا تھا اور اس پر سختی سے عمل بھی ہوا تھا۔
امریکی صدارتی انتخاب کے دوران سوشل میڈیا پر غلط معلومات ، جھوٹی خبروں اور اشتعال انگیز مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے گئے تھے۔میڈیا اور سول سوسائٹی نے 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں فیس بک کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیاتھا کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھائے۔
تاہم فیس بک کے بانی مارک زکر برگ اس قسم کے مطالبات کو یہ کہہ کر مسترد کرتے آئے ہیں کہ سیاستدانوں کے بیانات کی تصدیق کرنا فیس بک کا کام نہیں اور ایسے اقدامات آزادی رائے پر قدغن لگانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔لیکن میڈیا ، سول سوسائٹی اور امریکی پارلیمان کی جانب سے بڑھتے دباؤ کے بعد فیس بک نے اعلان کیا تھاکہ وہ 2020 کے انتخابات میں کسی بھی امیدوار کی جانب سے سرکاری نتائج کے اعلان سے پہلے فیس بک پر جیت کے دعوی کرنے کی صورت میں اس پوسٹ کے ساتھ یہ تنبیہ جاری کرے گا کہ ‘ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور سرکاری نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔
اسی طرح کسی بھی صدارتی امیدوار کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق بیانات پر بھی فیس بک یہ تنبیہ جاری کرے کرے گا کہ ‘امریکہ کے قوانین اور ادارے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بناتے ہیں۔اس کے علاوہ کسی امیدوار نے فیس بک پر سیاسی اشتہارات پر کتنی رقم خرچ کی، اس سے متعلق معلومات بھی صارفین کے لیے ‘اشتہارات کی لائبریری کے ذریعے فراہم کر دی گئی تھیں۔
ہندوستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا آر ایس ایس اور اس کی انتہاپسند تنظیمیں مسلسل غلط استعمال کرکے اور جھوٹی افواہیں پھیلاکر ملک میں نفرت پھیلانے ،ماب لنچنگ جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے اور فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں ۔ اس حوالے سے ملک کے سیکولر اور امن پسند دانشواران اور سیاسی جماعتیں وقفہ وقفہ سے شکایات کرتی رہی ہیں۔16اگست 2020 کو کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بی جے پی اور آر ایس ایس پر حملہ بولا تھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ بی جے پی، آر ایس ایس کا ہندوستانمیں فیس بک اور واٹس ایپ پر قبضہ ہے اور وہ ان کے ذریعے فرضی خبریں اور نفرت پھیلاتے ہیں۔اور بی جے پی ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔
دراصل، فیس بک کے ملازمین کے حوالہ سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں کئی ایسے لوگ بی جے پی اور آر ایس ایس میں موجود ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نفرت پھیلاتے ہیں۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ورچوئل دنیا پر نفرت پھیلانے والی پوسٹوں سے اصل دنیا میں کشیدگی اور تشدد پھیلتا ہے۔
واضح رہے کہ بی جے پی کے لیڈر ٹی راجا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کو گولی مار دینی چاہیے، مسلمان ملک دشمن ہوتے ہیں اور مسجدوں کو گرا دینا چاہیے۔ اس پوسٹ کی رپورٹ ہونے پر فیس بک کے ملازمین نے اسے کمپنی کے اصولوں کے خلاف مانا اور پوسٹ پر ایکشن لینا چاہا، لیکن کمپنی کے ہندوستان میں موجود ایک عہدیدار نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس واقعہ کی بنا پر فیس بک کی غیر جانبداری پرملک اور دنیابھرمیں سوال اٹھتے رہے ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں