بہ قلم : محمد یعقوب آسی
پچھلے دنوں جناب محمد یعقوب آسی صاحب نے ایک غزل پر اصلاح کے دوران چند مراسلوں میں شاعر کے نام کچھ نوٹ لکھے جو دراصل ایک مستقل مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مضمون کی ہمہ گیریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب اصلاحِ سخن چاہنے والے شعراء اسے ضرور پڑھ لیں اور اس سے اکتسابِ علم و فن کی سعادت حاصل کریں۔جناب محمد یعقوب آسی کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔
جناب من! مصرع بہ مصرع، شعر بہ شعر لفظ بتانا تجویز کرنا، وہ شروع شروع میں دو چار دس بار ہوتا ہے، ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے۔ آپ کی اس کاوش پر کچھ وضاحتیں پیش کئے دیتا ہوں، کہاں کہاں منطبق ہوتی ہیں، خود دیکھ لیجئے گا۔
اول: وہی بہت بار دہرائی گئی بات کہ شعر اور شے ہے کلامِ منظوم اور شے ہے۔بقول انور مسعود شعر وہ ہے جو قاری کو چھیڑ دے؛ تو یہ چھیڑنا کیا ہوا؟ اس کے کئی انداز کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہیں مفرد کہیں مرکب:۔1۔ شعر کا پیغام، موضوع، مضمون انداز وغیرہ قاری کو کسی سوال سے آشنا کرے، تجسس لے کر آئے۔۔2۔ کوئی جذباتی کیفیت ایسے بیان کرے کہ قاری اس میں گرفتار نہیں ہوتا تو مائل ضرور ہو جائے، یا کم از کم اس کیفیت کے احساس یا ادراک سے دو چار ہو۔۔3۔ انسان کی بہت ساری مستقل قدریں ہیں: پیٹ کا مسئلہ ہے، سر چھپانے کی بات ہے، تعلقات کی باتیں ہیں (محبت، نفرت، غصہ، لاتعلقی،جھلاہٹ، انتقام، خوف، امیدیں، ولولے، کوشش وغیرہ وغیرہ) ان میں سے کسی کو بیان کیجئے یا ایک دو تین کی کوئی مرکب صورت بنتی ہے تو وہ لائیے۔۔4۔ مفروضات کی بنا پر شعر آپ “بنا” سکتے ہیں، مگر ان پر تکیہ نہ کیجئے۔ آپ پر ایک صورت جو بیتی ہے وہ ہزار مفروضوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔
دوم: زبان، ہجے، املاء، محاورہ، روزمرہ، الفاظ، تراکیب؛ ان کو قطعی طور پر درست ہونا چاہئے، ایک شاعر کو یہ عذر زیب نہیں دیتا کہ جی مجھے پتہ نہیں تھا۔ ہجوں کی غلطی خوش ذوق قاری پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ جہاں شاعر نے (مثال کے طور پر: ذرہ کو ذرا یا زرہ) غلط لکھا، وہ غزل پر سلام پیش کر کے ایک طرف ہو جائے گا۔
سوم: شعر کی زمین (اوزان و ارکان، قوافی، ردیف) اور مصرعے کی ضخامت۔ اس کو بہت متوازن، بہت رواں اور بہت سہل رکھئے، آپ اور آپ کا قاری اور سامع دونوں سہولت میں رہیں گے۔ ردیف بہت پابندیاں لاتی ہے۔ اس غزل میں آپ نے “میں” ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے۔ آپ کو اس سے باہر نہیں جانے دے گا۔ قوافی جہاں مضامین لاتے ہیں وہیں کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ آپ مہتاب کے ساتھ اکتساب کا قافیہ نہیں لا سکتے (کہ کوئی معروف بحر اس کی اجازت نہیں دے گی) اس کو ماہتاب لکھئے اور پڑھئے تو تو اس کے برابر اکتساب آ جائے گا۔
ادھر مشہور زمینوں میں شعر موزوں کرنا ایک لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔ آپ نے غالب کی زمین میں غزل کہہ دی، آپ کا خوش ذوق قاری غالب سے بیگانہ نہیں رہ سکتا، اس کے ذہن میں غالب کی غزل فوراً گونجے گی۔ بجا کہ قاری کو آپ سے ایسی کوئی توقع وابستہ نہیں کرنی چاہئے کہ آپ غالب کو بچھاڑ دیں گے، تاہم وہ آپ سے کچھ نکھرے ہوئے، منجھے ہوئے، اور پکائے ہوئے شعروں کی توقع ضرور وابستہ کرے گا۔
چہارم: یہ مت کہئے گا کہ جی میں تو اپنے لئے شعر کہتا ہوں؛ یا یہ تو ایک طرح کا کتھارسس ہے وغیرہ۔ قاری اور سامع کو منہا کر دیجئے تو آپ کے پاس شعر کہنے کا جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ آپ کے شعر کا مافی ضمیر آپ کے قاری تک پہنچنے میں کچھ حصہ قاری کا ہے اور کچھ آپ کا بھی ہے۔ غزل کے شعر کا قاری آپ سے بجھارتوں کی توقع نہیں رکھتا، ہاں! کسی ڈھنگ سے سلیقے سے آپ کچھ بات اس سے چھپا لیں تو وہ اس کو آپ کی ادا سمجھ کر اس پر فریفتہ بھی ہو سکتا ہے۔
کوئی بات خلافِ واقعہ نہ کیجئے۔ اور اگر ایسا کچھ کہنا ہے تو پھر اس کا کوئی (قابلِ قبول) جواز، کوئی (خوبصورت سا) بہانہ بھی لانا ہو گا۔ عید کے چاند کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا ہے (یاد رہے کہ نئے چاند سے کبھی دو دن اور کبھی تین دن پہلے چاند کسی وقت بھی دکھائی نہیں دیتا):عذر میں تین دن نہ آنے کےلے کے آیا ہے عید کا پیغامحالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چاند کو بہانہ سازی کی کیا حاجت! وہ تو ایک مضبوط حسابی نظام پر چلتا ہے۔ ” الشمس والقمر بحسبان ” (سورۃ الرحمٰن)۔
قاری کو آپ کا شعر اتنا ہی اچھا لگے گا، جتنی وہ آپ کے اور قاری کے درمیان سانجھ رکھے گا۔ سو، عمومی انسانی سطح اور انسانی طرزِ احساس و استدلال کے قریب رہیے، اور بلند خیالی کو بھی اسی سطح سے اٹھائیے۔ آپ خلا سے بات کریں گے تو زمین والے شاید اس کو سمجھ ہی نہ پائیں۔
پنجم: اردو پر بھی دیگر زبانوں کی طرح کئی ادوار آئے ہیں۔ وہ الفاظ اور تراکیب جو کبھی ادب میں بھی حسن سمجھی جاتی تھیں، آج متروک ہو گئیں۔ امیر خسرو نے تب “ورائے نیناں” کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؛ وہ اب نہیں چلے گا۔ “کبھو، کسو، کوں، سوں” ولی نے بہت خوبی سے باندھے، آج میں اور آپ ایسا کریں گے تو خود نہیں نبھا پائیں گے۔ “آوے ہے، جاوے ہے، کرو ہو، سنو ہو، بیٹھوں ہوں” ان کا لطف بھی جاتا رہا۔ ایسی زبان لانی ہے تو ضرور لائیے مگر پورے ماحول کے ساتھ لائیے، ایک آدھ لفظ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بلندی پر اڑتا ہوا کوئی پرندہ فرش نشین کے سر پر اپنا کام دکھا گیا۔
ششم: غزل کے شعروں میں ریزہ خیالی اور تسلسلِ خیال و مضمون دونوں رویے معروف ہیں۔ بہ این ہمہ ایک غزل کے تمام شعروں میں کبھی مزاج کے حوالے سے، کبھی لفظیات کے حوالے سے ایک لطیف سی فضا تشکیل پا جاتی ہے؛ اسے آپ غزل کی زیریں رَو کہہ لیجئے۔ کوئی شعر اس لطیف سے تعلق میں پوری طرح رچا بسا نہ ہو تو بہتر ہے اس کو الگ رکھ لیں کسی اور غزل کا حصہ بن جائے گا۔ اور اگر غزل میں سرے سے کوئی فضا بن ہی نہیں رہی تو الگ بات ہے، کوئی سا شعر ترتیب میں کہیں بھی آ جائے چنداں فرق نہیں پڑتا۔
ہفتم: خاص طور پر غزل کے شعر میں الفاظ کی در و بست اور ترتیب بہت اہم ہوتی ہے۔ کوئی لفظ کہاں ہو تو مؤثر ہو گا، کہاں ہو تو معانی میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے؛ اس کو تعقید کہتے ہیں۔ ہمیں کسی نہ کسی سطح پر تعقید سے کام لینا ہوتا ہے تا کہ اوزان سے موافقت قائم کی جا سکے، تاہم اگر کوئی لفظ معنوی یا لسانی حساب میں بہت دور جا پڑے تو یہی تعقید نقص بن جاتی ہے۔ مراعات کا اور علامات کا نظام ہے، استعارات کا نظام ہے؛ وغیرہ۔ یہ سارے حربے ہوتے ہیں جو شعر کی جمالیاتی سطح بناتے ہیں۔ جمالیات (بنانا، سنوارنا، نکھارنا، ترتیب دینا، حسن پیدا کرنا) ہی تو وہ چیز ہے جو عام زبان کو ادب بناتی ہے اور کلامِ منظوم کو اٹھا کر شعر کے درجے تک لے جاتی ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں