بنگال انتخابات اور مسلم ووٹ

0
814
All kind of website designing

ارشد عالم

کئی دہائیوں سے مغربی بنگال کے مسلمانوں نے بائیں بازو کو ووٹ دیا۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے متعدد پہلو ہیں جن میں  سب سے کم بات توجہ اس بات پر دی گئی تھی  کہ مغربی بنگال میں مسلمان سب سے زیادہ محروم طبقہ ہیں ۔ ریاست کے ان حصوں میں جہاں مسلمانوں نے روایتی طور پر کانگریس کو ووٹ دیا تھا ، وہاں صورتحال کچھ زیادہ بہتر  نہیں تھی۔ ریاست میں بائیں محاذ کے حکمرانی کا مقصد ہندو اعلی ذات کو مضبوطی  فراہم کرنا تھا  اور مسلمانوں کو کہا گیا تھا کہ وہ صرف اس بات کے لیے شکر گزار رہیں کہ  انہیں  فسادات میں مارا نہیں جا رہا  ہے جیساکہ   ملک کے دوسرے علاقوں  میں واقع ہو رہے ہیں۔ بائیں بازو کے لئے مسلمانوں کے لیے بنیادی طور پر یہ مسئلہ تھا کہ مسلم  معاشرے کے سماجی و معاشی حالت  کو ہونے والے نقصان سے   تحفظ فراہم کیا جائے ۔
سچر رپورٹ کے ذریعہ  اپنی حالت سے آگاہ  ہوکر  مسلمانوں نے  فیصلہ کن انداز میں اپنی وفاداریوں  کو ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی جانب  منتقل کردیا ، جس کی وجہ سے ریاست میں بائیں بازو کا خاتمہ ہوا۔ 2019 کے انتخابات میں ، سی پی ایم کیڈر کے ایک بہت بڑے حصے نے ان کی  وفاداری کو بی جے پی کی جانب  منتقل کردی جس نے پہلی بار 18 پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کیا۔ پارٹی اب اپنے فوائد کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں نمبر ون پارٹی بننے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ مگر تب بھی  مسلمان تقریبا 30 فیصد رائے دہندوں پر مشتمل ہیں مگر کوئی جماعت اس بات کو زیر غور لائے  بغیر حکومت  نہیں بنا سکتی ۔ مسلمانوں نے کبھی بھی بی جے پی پر بھروسہ نہیں کیا کیونکہ یہ پارٹی اپنی مسلم مخالف سیاست کے بارے میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتی  رہی ہے۔ تاہم مسلمان کس طرح ووٹ ڈالتے ہیں اس کا اثر یقینا اس بات پر  پڑے گا کہ آیا  بی جے پی مغربی بنگال میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے  یا نہیں۔
بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا نہ صرف ریاست میں  بلکہ ہر جگہ  مسلمانوں کے لئے ایک اہم مسئلہ بن چکا  ہے۔ تاہم  اب  معاشرے میں یہ احساس بڑھتا ہی جارہا ہے کہ  نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور یہ کہ یہ جماعتیں مسلم معاشرتی و اقتصادی ترقی کے معاملے میں سوچنے کے بجائے اپنے ووٹ حاصل کرنے میں پوری طرح دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس طرح کے احساس نے مسلمانوں کو اپنی  سیاسی جماعت کی تشکیل کرنے  پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال  مغربی بنگال میں دیکھی جا سکتی  ہے۔ عباس صدیقی کی سربراہی میں انڈین سیکولر فرنٹ کی تشکیل کو اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ اب مسلمان یہ سمجھ چکے ہیں کہ انہیں اپنے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے یہ یقینا  خوشگوار ترقی ہے کیونکہ صرف سیاسی طاقت  ہی ہے جس کے ذریعے  از سر نو  تقسیم کی سیاست کی جاسکتی ہے جو مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہوگی۔ جو لوگ اسےفرقہ وارانہقرار دے رہے ہیں وہ بنیادی طور پر اس بات سے گھبراتے ہیں کہ کہیں  مسلم ووٹ  ان سے چھن نہ جائے ۔ سیکولرازم کے دفاعی معاملے پر ان کا کوئی اصولی موقف نہیں ہے۔
مغربی بنگال میں ہمیں مسلم شعور کی اس نئی سیدھ کو کیسے سمجھنا چاہئے؟ پچھلے دو انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کے زیر اثر کچھ حلقوں  کو چھوڑ کر حکمران ٹی ایم سی کو بڑے پیمانے پر ووٹ دیا  تھا۔ ٹی ایم سی نے جمیعت علمائے ہند اور اس کے مغربی بنگال کے رہنما صدیق اللہ چودھری کے ذریعہ بڑے پیمانے پر مسلم جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ جمعیت ایک دیوبندی تنظیم ہے جس نے ریاست میں تبلیغیوں کے داخلے کو آسان بنایا ہے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت بریلوی ہے۔ عباس صدیقی ، ایک مشہور درگاہ فرفورا کے متولیوں کی حیثیت سے اپنی ہی سیاسی پارٹی کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم سیاست کے دیوبندی کنٹرول کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں بریلوی استحکام مستثنیٰ نہیں ہے لیکن  اسے بنگلہ دیش اور پاکستان کسی بھی جگہ  ایسی ہی کوششوں کے ساتھ دیکھا جانا چاہئے۔
 عباس صدیقی کے ذریعہ شروع کی گئی سیاسی جماعت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے پاس دلت اور قبائلی سماجی گروہوں کی جانب سے اچھی خاصی نمائندگی ہے جو نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے خوش نہیں ہے۔ شمولیت کا یہ پیغام اہم ہے جو ان پسماندہ لوگوں اور مظلوموں کے اتحاد کی تجویز دیتا ہے جو اب چاہتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے۔ مزید یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ بائیں بازو اور کانگریس کو اپنی  ناسمجھی کا احساس ہونے کے بعد اب اس نئی ابھرتی ہوئی مسلم سیاسی قوت سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ بائیں بازو خصوصا عباس صدیقی کی طرف مفاہمت والے اشارے کرتے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسلم پلیٹ فارم کو اپنا منصفانہ حصہ دینے پر رضامند ہوں گے۔ اگر یہ اتحاد کارکردگی کا مظاہرہ کرتا تو شاید پہلی بار مسلمان اپنی شرائط پر کچھ سیاسی طاقت حاصل کرلیں گے۔
 حیدرآباد میں مقیم پارٹی ، اے آئی ایم آئی ایم بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک کسی چیز کی تشکیل  نہیں کی گئی ہے۔ اسد الدین اویسی کی پارٹی کو حال ہی میں منعقدہ بہار کے انتخابات میں کامیابی ملی ہے اور اسی جوش و جذبے کے ساتھ ہی وہ مغربی بنگال کے انتخابات بھی لڑنا چاہتے ہیں۔ تاہم ، انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بہار میں ان کی کامیابی جزوی طور پر چار سال کی اس محنت کا نتیجہ تھا جو انہوں نے کچھ حلقوں میںکیا تھا ۔ مزید یہ کہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ دوسری جماعتوں سے انہیں کچھ اچھے مسلم قائدین مل گئے تھے۔ یہ دونوں عوامل مغربی بنگال کے معاملے میں معدوم  ہیں۔
 ان کے پاس زمین پر دکھانے کے لیے کوئی کام نہیں ہے اور اب تک انہوں نے اپنی پارٹی کی طرف شاید ہی کسی معروف چہرہ کو اپنی طرف راغب کیا ہو۔ اس طرح ، اے ایم آئی ایم مسلم ووٹرز پر اپنا اثر نہیں چھوڑ سکے گی۔ مزید برآں ، اس پر بیرونی جماعت ہونے کا ٹیگ موجود ہے ، جو مغربی بنگال میں مسلم صورتحال کی خصوصیات کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اویسی کی مسلم نوجوانوں کے ایک حصہ میں اچھی مقبولیت  ہے ، خاص طور پر وہ لوگ جو اردو بولنے والے ہیں۔ ان کے لیے اچھے مواقع ہیں اگر وہ ان نشستوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو بہار سے متصل ہیں۔ انہیں حکمت عملی کے نتیجے میں  ان نشستوں پر مقابلہ نہیں کرنا چاہئے جہاں عباس صدیقی کی معمولی اپیل بھی ہو۔
اور یہ صرف حکمت عملی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ  اصولی معاملہ بھی  ہونا چاہئے۔ عباس صدیقی کی سربراہی میں ہندوستانی سیکولر مورچہ بنگالی مسلم کمیونٹی کے اندر ایک نامیاتی ترقی  ہے۔ اس طرح اس سیاسی بیانات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اور تمام صحیح فکر رکھنے والے  مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ  اس محاذ کی حمایت کریں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری سیاسی جگہ کھول رکھی ہے ، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس جماعت کی ہر ریاست میں موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
مقامی اور ریاستی سطح  کی سیاسی پارٹیاں،  ایک واحد آل انڈیا مسلم پارٹی رکھنے کے بجائے، مسلم سیاسی ضرورت کی خدمت کے لئے بہتر موزوں ہیں۔ جس طرح اویسی آسام میں دخل اندازی نہیں کررہے ہیں کیونکہ بدرالدین اجمل کا اے آئی یو ڈی ایف پہلے ہی وہاں کام کررہا ہے ، اسی طرح انہیں  مغربی بنگال سے بھی  دور رہنا چاہئے۔ بلکہ  واحد کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عباس صدیقی جیسے لوگوں کے ہاتھ مضبوط ہوں۔
کیا ہندوستانی سیکولر محاذ بنگال انتخابات پر بہت زیادہ اثر ڈالے گا یا نہیں ، یہ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس سیاسی محاذ کی تشکیل کے بعد کسی بھی جماعت کے لئے مسلمانوں کو حقیر سمجھنا مشکل ہوگا۔

(بہ شکریہ نیو ایج اسلام)

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here