—قسیم اظہر
میں زندہ ہوں
میری روح میرے پاس ہے
مگر میں/
مر چکاہوں
اور یہ نہ تو مذاق ہے اور ناہی نظروں کا دھوکہ .
میں ہی کیوں؟
یہاں جتنے ہیں/
میں/
ہم /
اور سب/
مر چکے ہیں/
سب مردے ہیں .
اور جو کچھ بھی تمہاری نگاہوں کے سامنے ہے/
وہ ایک مردہ گھرہے _.
مجھے بہت تعجب ہوا کہ مردہ گھر میں ایسا کون ہوگا جو زندہ ہو اور مردہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو . اور یہی نہیں وہ ہم سب لوگوں کے بارے میں بھی مرجانے کا دعویٰ کرتا ہو .
کیا ایسا ممکن ہے _؟
تہذیب وثقافت کی صدیوں اور ہزاروں پرانی ریت ورواج سے چلی آرہی داستانوں میں روپ بدل بدل کر سامنے آنے والی عورت منٹو کی کہانیوں میں طوائف بن کر دنیا کے سامنے آئے یاپریم چند کے کفن میں بھوک بن کر . یا چیخوف کی خادمہ میں موت کی نیند بن کر مجھے کوئی تعجب نہیں ہوگا .
مگر اکیسویں صدی _؟
اور مردہ خانہ میں عورت _؟
مجھے یہ تصور کرنا سوال کی عدالت میں لا کھڑا کرتا ہے. اور ان دنوں میں سوال کے اندر تھا . سوالوں پہ سوال کھڑے ہوتے جارہے تھے اور مشرف عالم ذوقی کے نئے ناول پر ان جیسے سوالات کا اٹھ جانا میرے لیے کوئی تعجب خیز نہیں تھا۔
2019 میں منظر عام پر آنے والا ناول مرگ انبوہ جس کی بوسیدہ حویلیوں میں موت کو رقص کناں دیکھا تھا . شاید انہی بوسیدہ حویلیوں میں سے رقص کرتے ہوئے موت نے مردہ گھر کا راستہ دیکھ لیاتھا . میں مردہ گھر سے گزرا . میں نے دیکھا کہ یہاں کچھ بھی ویسا نہیں .
مرگ انبوہ میں جہانگیر مرزا کو نیند میں چلنے کی بیماری تھی . جہانگیر مرگیا اور اس کی روح نادیدہ خلاء میں بھٹک رہی ہے . قصہ تمام ہوچکاہے . مگر ٹھہریے . یہ جھوٹ ہے . بہت بڑا جھوٹ کہ جہانگیر مرگیا . جہانگیر زندہ ہے .
کیا جہانگیر دوبارہ پیدا ہوگیا .؟
مسیح سپرا کے چہرے کو پڑھیے .
جہانگیر اور سپرا _؟ آہ _.
کہیں تم جہانگیر تو نہیں .؟ میں نے سپرا کو غور سے دیکھا .
مردہ گھر میں آنا ضروری تھا __.؟
کیوں .؟
یہاں چیزیں غائب ہوجاتی ہیں .
یہ کیسا مذاق __؟
مذاق نہیں _ سچ ہے_ اور بہت بھیانک سچ __اور یہ نظروں کا دھوکہ نہیں ہے .
تم ہو _ تم نہیں رہو گے .
دیکھیے اسی ناول سے ایک مختصر اقتباس .
دیکھو … پرانی عمارت تھی . مگر اب نہیں ہے …صرف انسان نہیں گم ہوتے . نقشے گم ہوجاتے ہیں . عمارتیں گم ہوجاتی ہیں . مکاں گم ہو جاتے ہیں . مکیں گم ہوجاتے ہیں .
مسیح سپرا ہے __.
مسیح سپرا بھی نہیں رہے گا .
(مردہ خانہ میں عورت)
ذوقی کی تخیلات سے پیدا ہونے والی دنیا ایک خوفناک روپ دھار چکی تھی اور وہ ناول کے اندر علامتیں اور مضبوط استعاروں پر بنائی گئی عمارتیں اس خوفناک دنیا میں آکر حقیقت اور سیاہ بیانی کا نوحہ کر رہی تھیں . وحشی بندروں اور مارخیز کے شہر ” تنہائی کے سوسال ” سے نکل کر آنے والے خانہ بدوشوں کی جماعت پورے ملک پر حاوی ہوچکی تھی .
ذوقی کے مطابق ایک بوڑھا جو ان خانہ بدوشوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور جس کو مارخیز نے تحفے میں اپنے شہر کا ایک طوطہ بھیجا تھا اور جو ان خانہ بدوشوں کی زبان خوب سمجھتا تھا ، پرانی عمارت کے ملبے کے نیچے پڑی سرد لاشوں کو دیکھ کر قہقہہ لگایا .
قہقہہ کیوں _؟ بندروں نے پوچھ لیا .
ہم انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے پر بنائی جانیوالی سیاست میں کامیاب ہوگئے .
کامیاب؟ تو کیا ہم خانہ بدوش سزا سے بچ جائیں گے؟
ہاں _.
تو پھر سیکولرزم کا کیا _؟
میرے پیارے خانہ بدوش بھی سیکولرزم کی زبان سمجھتے ہیں _؟ بوڑھا ہنسا .
اور عدالت _؟ عدالت کا کیا کریں گے آپ _؟
ہاں وقت بدل چکا ہے .
دیکھیے اسی ناول سے ایک اور اقتباس .
ممکن ہے زندان کا دروازہ ہم پر کھول دیاجائے . ممکن ہے مذہبی عمارت گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے .مگر یہاں ہم سب دوست ہیں . جوزندان کے پالن ہار ہیں ، وہ بھی . جو بیڑیوں میں قید ہیں ، وہ بھی . جو وحشتوں کے اسیر ہیں ، وہ بھی . جو حکومت کے طرف دار ہیں ، وہ بھی .
اس لیے تماشہ تو ضرور ہوگا . لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا . کیوں کہ یہاں سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہیں جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں .
(مردہ خانہ میں عورت)
وقت بدل چکا تھا . سیاسی لہروں میں چیخنے اور چلانے کی ہزاروں دردناک آوازوں نے سپرا اور ریحانہ کی سرگوشیوں میں ڈر گھول دیا تھا .
سپرا نے موت کو دیکھ لیا تھا . اسے چیخیں سنائی دیتی تھیں . جمہوریت کی چیخ . قانون کی چیخ . مردوں کی چیخ . چیخیں بہت دردناک ہوتیں اور سپرا نے انہی چیخوں کے درمیان خود کو مردہ تصور کرلیا تھا۔
ذوقی کے نزدیک خاموشی ایک عذاب ہے . اور میں جانتا ہوں کہ خاموشی کے اسی عذاب سے بڑی بڑی انقلابی تحریکیں وقوع پذیر ہوتی ہیں . یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا . جب خانہ بدوش ملک پر حاوی ہویے اور اقلیت کے طوطے پنجرے میں قید کردیے گئے . اس وقت دلی کی سڑکوں اور جمہوریت کے ملبے تلے دبی مردار لاشوں سے آزادی آزادی کی چیخیں پورے ملک کی فضاء میں بازگشت کرنے لگیں . صیاد وحشی بن گیا . بلبل نے قفس کو آشیانہ بناکر ابابیلوں کا روپ دھار لیا . آزادی آزادی کی چیخوں میں گل بانو جیسی بہادر لڑکی کا کردار سامنے آیا اور پھر _پوری دنیا مردہ خانہ میں تبدیل ہوگئی .
تو کیا سچ دنیا ختم ہوچکی تھی _؟
ہاں _.
جنہوں نے خود کو مردہ سمجھ لیا تھا وہ اس دنیا میں نہیں تھے .
ذوقی کے یہاں ایک دنیا اور آباد ہے . آپ اس دنیا کو زیریں لہروں کا نام دے سکتے ہیں یا ابہام کی فضاء سے حال کے معنی کشید کرلینے والی تاریک دنیا جس کی نم آلود سیاہیوں میں مرغابیاں اپنے پر پھیلاتی ہیں اور سانپ ان پر حملہ آور ہوجاتا ہے_.
سب کچھ ویسا نہیں ہے،
جیسا ایک اندھیری رات میں ہوتا ہے،
جب ہم سوئے رہتے ہیں
آرام سے اپنے گھروں میں
کچھ لوگ اس وقت بھی
نیندیں چلتے ہوئے ہمیں ہلاک کرنے آجاتے ہیں ….
(مردہ خانہ میں عورت)
بچپن سے شیکسپیئر اور میکسم گورکی کو پڑھنے والی گل بانو_ غربت نے اسے خاندانی پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا .
مگر کیسے _؟
گل بانو _ اس ناول کا مضبوط کردار _ مگر میں دیکھ رہاہوں کہ اس کی تقدیر کی ریکھائیں بدل رہی ہیں .
مجھے احساس ہے کہ گل بانو کسی صندوق کے بارے میں پوچھ رہی ہے .
صندوق _؟
ہاں صندوق _.
صندوق کیسا_ ؟
وقت آنے پر سب بتاؤں گی . ماں کا جواب ہوتا .
دیو نما صندوق میں کیا ہونا چاہیے _؟ صندوق سے کسی سرنگ کا راستہ تو نہیں _؟
گل بانو سوچتی اور وہ یہ بھی سوچتی کہ صندوق کھلے گا اور ایک بدشکل دیو یا راکھشش یا ہاتھی باہر آجائے گا اور اسے کھالے گا .
ایک اجنبی شخص جس نے نور جہاں اور گل بانو کو قحبہ خانوں کی کھائی سے نکال کر بنگلے میں سجایا اور جس کے ساتھ نور جہاں کی جنسیت کا رشتہ بھی قائم تھا ، اس کی موت نے نورجہاں کی محبت کو خوب متاثر کیا .
غربت آگئی اور صندوق کے سارے دروازے کھل گئے_.
گل بانو نے اپنی اور ماں کی بھوک کو مٹانے کے لیے اپنے جسم کو نچوڑ کر ہوس کی الگنی پر لٹکانا شروع کردیا .
میں دیکھ رہاہوں . صندوق سے کئی راستے پیدا ہوچکے ہیں . طوائف _دولت _ انقلاب _.
انقلاب _؟ اور وہ بھی طوائف سے _؟
ہاں _.
اور اسی طوائف نے ایک بڑے راکھشش کو قتل کیا .
تمہیں پتا بھی ہے کس کا قتل ہوا _؟
ہاں شہر کے بڑے کمشنر راٹھور کا .
کس نے قتل کیا ہوگا _؟ ایک پولیس والا اپنے ساتھی سے پوچھ رہاہے .
نہیں معلوم .
گل بانو نے راکھشش کا قتل کردیا ہے اور میں دیکھ رہاہوں کہ وہ قتل کرکے مسلسل بھاگ رہی ہے . باہر آندھی اور بارش کی تیزی ہے . گل بانو کے کپڑے بھیگ چکے ہیں _یہ لڑکی اب کہاں پناہ لے گی _؟
اسے ایک نیم پلیٹ ملا .
مردہ گھر_. یہ لفظ اس پلیٹ پر لکھا ہوا ملا .
اس نے دروازہ کھٹکھٹایا . ایک شخص باہر نکلا . اس نے محسوس کیا کہ قبر پھٹ چکی ہے اور ایک مردہ اس کے سامنے آکھڑا ہے .
کیا میں یہاں رہ سکتی ہوں _؟
ہاں . اندر آجاؤ _ اجنبی نے غور سے دیکھ کر کہا .
یہ کیسی جگہ ہے _؟ اتنا گہرا اندھیرا کس لیے _؟
مردہ گھر …
مردہ گھر _؟ لائٹ نہیں ہے _؟
مردہ گھر میں روشنی نہیں ہوتی .
اور یہ سفید چادریں _؟
مردوں کا کفن سفید ہوتا ہے .
اور یہ عورت _؟
موت کی دیوی ….،
جو روح قبض کرتی ہے _؟
ہاں .
مطلب _ابھی تم زندہ ہو _؟
پتا نہیں _.
سپرا نے چاند کو افق میں خون سے غسل کرتے دیکھا تھا . انہی سرخیوں کے درمیان اس نے خود کو پہلے ہی ثابت کردیا تھا کہ وہ مرچکا ہے اور گل بانو کو بھی انقلاب کے اندر سے نکلنے والی چندا کی دردناک چیخ نے سپرا کے مردہ گھر کا راستہ بتادیا تھا .
میں نے جان لیا کہ ماضی میں طوائف کے پیشے سے نکل کر عورت مردہ خانے میں قدم رکھ چکی ہے . مردہ گھر کے اندر دو مردے ہیں . سپرا اور گل بانو _.
مگر کیا یہ دو ہی مردے ہیں_؟
سپرا ہو یا گل بانو . دونوں کے کردار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سپرا اور گل بانو جیسے لوگ ہی نہیں ، ہم بھی مردہ ہیں . ہماری تہذیب و ثقافت بھی … ہماری بھائی چارگی بھی .. ہماری شان وشوکت بھی اور ہمارا مستقبل بھی مردہ گھر کے سوا کچھ بھی نہیں .
یہاں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو مردہ ہونے کا احساس نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ _.
مگر جب دلی کی قطب مینار کی بلندی سے ایک مصور ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کی رنگینیوں کو کینوس پر بھرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے قلم چھوٹ جاتاہے کیوں کہ کینوس پر رنگ بھرنے والا مصور بھی مرچکا ہوتا ہے .
یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہو کہ وہ زندہ ہے _.
(مردہ خانہ میں عورت )
یہ ناول ایک ایسا بیانیہ ہے جس میں توہمات اور مفروضے نہیں . حقیقت ہے اور حقیقت کو استعارے اور بیانیے میں گھول کر ابہامات کی شکلیں بناکر دنیا کے سامنے پیش کردینا مشکل ترین عمل ہے_.
آپ نے گبریئل . اورحان پامک اور اروندھتی رائے کو پڑھا ہوگا . ذوقی کو بھی پڑھیے . حالیہ ہندوستان کی اس سے زیادہ خوفناک تصویر ایک ناول کی شکل میں مجھے مغرب کے شاہکاروں میں بھی خال خال دیکھنے کو ملتاہے_.
نوٹ:- مردہ خانے میں عورت مرگ انبوہ کے آگے کی کڑی ہے _
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں