عرب بہار کے دس برس!

0
766
All kind of website designing
ماہ دسمبر2010 میں تیونس کے سبزی فروش محمد بو عزیزی نے سرکاری دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے خودسوزی کرلی۔ اس کی خودکشی نے مردہ ہوچکی عرب قوم میں نئی زندگی پیدا کردی اور اس کی خود کشی کی کوکھ سے ایک فیصلہ کن انقلاب کا جنم ہوا جس کے نوید اآفریں نتائج نے عالم عرب کی خوابیدہ غیرت کو ایسا جگا یا کہ اس نے خلیج عرب کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ جس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور برسوں سے قائم کئی آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے مثبت نتائج اگرچہ دولہ عرب میں برآمد ہوئے،بہار عرب کے نتیجے میں خطے میں بسنے والوں کو سیاسی، معاشرتی اور معاشی فائدہ ہوا، لیکن اس کے ساتھ ہی بدترین اور طویل تشدد نے جنم لیا، اس کے منفی مثمرات سے غریب آبادی ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑا اور آج تک اس کا سلسلہ جارہی ہے،اس بہارِ عرب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے۔
سب سے زیادہ بدترین صورتحال کا سامنا شام کو کرنا پڑا، پھر لیبیا اور یمن بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگئے، جبکہ بحرین اور مصر میں صورتحال کچھ مختلف رہی۔ مظاہرین کئی وجوہات کی وجہ سے احتجاج کررہے تھے، لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سب کا مشترکہ مسئلہ وقار اور انسانی حقوق کا حصول تھا۔ بہت سے ممالک میں مذہبی کشیدگی بھی احتجاج کی وجہ بنی۔ سیکولر تیونس اور مصر میں اسلام پسند جماعتوں نے اقتدار حاصل کیا، جو عارضی ثابت ہوا۔ گہری فرقہ وارانہ تقسیم نے بحرین، شام اور یمن میں حکومت مخالف تحریکوں کو جنم دیا۔ صرف تیونس میں ہی جمہوری تبدیلی دیرپا ثابت ہوئی۔
اس انقلاب سے مصر میں ایک طعنہ شاہ کا غرور یقیناً چکنا چور ہوگیا، مگر جلد ہی مصر میں ماضی کے فراعنہ کی آمریت دوبارہ لوٹ آئی۔ لیبیا، شام اور یمن طویل خانہ جنگی کا شکار ہوگئے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی، بدترین بے روزگاری اور بدعنوانی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کو شدید معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدعنوان اشرافیہ عوام کے پیسے کی بنیاد پر خوشحال رہی۔ غربت میں اضافہ ہوا، خاص کر دیہی علاقے زیادہ متاثر ہوئے۔ بہار عرب کے نتیجے میں کہیں بھی معاشی بہتری نہیں آئی۔ بلکہ تنازعات کا شکار علاقے تو بدترین معاشی صورتحال میں پھنس گئے۔ اکثر ممالک میں احتجاج کی قیادت طلبہ اور نوجوانوں نے کی، جو حکومتی بدعنوانی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے پریشان تھے۔ اس خطے میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو دوبارہ احتجاج کی وجہ بن سکتی ہے۔
عرب بہار کے بعد خطے میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ میڈیا کو دبانے کے لیے بہت ساری حکومتوں نے انتہائی جارحانہ انداز اختیار کیا۔ مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو قید اور موت کے ساتھ سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خطے میں سنسر شپ میں اضافہ ہوا۔ 2013 ء میں عبد الفتح السیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مصر سب سے زیادہ صحافیوں کو قید کرنے والا ملک بن کر ابھرا۔
لیبیا، شام اور یمن میں بغاوت نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنی پڑی۔اس دوران غیر ملکی فوجی مداخلت نے تشدد اور عدم استحکام کو بڑھاوا دیا۔ صرف شام کے تنازع نے پچاس لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ مہاجرین اور ساٹھ لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد دنیا کو دیے۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے عرب بہار کے دوران مظاہرین کو متحرک کرنے اور حکومتی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ جس کے بعد مصر جیسے ملک نے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے سنسر شپ نافذ کرتے ہوئے سائبر اسپیس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ مصر میں نئی قانون سازی کے بعد حکومت مخالف پوسٹ پر لوگوں کو جیل میں ڈالا جانے لگا۔
صرف تیونس نے اپنے 2014 کے آئین کے تحت آزادی اظہار کے لیے انٹرنیٹ کی آزادی میں اضافہ کیا ہے۔ تیونس نے مظاہرین کی جانب سے بہتر طرزِ حکومت کے مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی۔ جس میں اینٹی کرپشن ایجنسیوں کی کمیٹی تشکیل دے کر بدعنوانی کی اطلاع دینے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ پھر بھی خطے میں بدعنوانی کی صورتحال بدترین ہوتی جارہی ہے۔ خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک میں خاص طور پر بدعنوانی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔
صنفی عدم مساوات احتجاج کی وجوہات میں شامل نہیں تھی، پھر بھی خواتین نے صنفی تشدد کے خطرہ کے باوجود مظاہروں میں مرکزی کردار اد اکیا۔ پچھلی دہائی کے دوران کچھ ممالک نے حکومت میں خواتین کی نمائندگی میں معمولی اضافہ کیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر خطے میں خواتین کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے بہت کم کام ہوا۔ پھر بھی مصر اور تیونس جیسے ممالک میں خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف زیادہ آواز بلند کرنے لگی ہیں۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here